1.  Home
  2. Blog
  3. Rabia Naz Chishti
  4. Css Aur Mustaqbil Ke Bureaucrats

Css Aur Mustaqbil Ke Bureaucrats

سی ایس ایس اور مستقبل کے بیوروکریٹس

حال ہی میں پاکستان کے سب سے معزز ادارے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سی ایس ایس کے پرچے ختم ہوئے ہیں۔ سی ایس ایس کے پرچے پاکستان کے متعدد شہروں میں لئے جاتے ہیں چونکہ ہمارا تعلق چھوٹے شہر سے ہے اس لیے ہمیں پرچے دینے کے لیے دوسرے شہر جانا پڑتا ہے۔

امتحانی مرکز میں داخل ہوں تو یوں لگتا ہے ساری دنیا ہی ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے مقابلے کی اس دوڑ میں شریک ہے اور حیرت در حیرت اس کے باوجود ملک و قوم تنزلی کی جانب گامزن ہے، جبکہ سول سروس ایسی گاڑی کی طرح ہے جس کو سخت سیاسی چیلنجز کی سڑک پر چلنے کے لیے ملک کے سب سے قابل پہیے درکار ہیں۔

یہ قابل پہیے امتحانی مرکز میں کوڑیوں کے بھاؤ تولے جاتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ چار پانچ کرسیاں آگے ایک لڑکی اپنی حاضری لگوا رہی تھی۔ جس میں آپ کے نام کے آگے دو تین خانے بنے ہوتے ہیں۔ ایک میں دستخط دوسرے میں جوابی پیپر پر موجود نمبر اس خانے میں لکھنا ہوتا ہے تاکہ پرچہ چیک کرنے والے کو آسانی رہے۔ اس لڑکی سے شاید کچھ غلط لکھا گیا تھا جس پر ممتحن لڑکی نے اس کو یوں ڈپٹا جیسے اس نے کوئی گناہ کر دیا ہو "سی ایس ایس کا ہی امتحان دینے آئی ہو نا پاگل"! اس کی گھوری ایسی تھی جیسے سامنے بیٹھی لڑکی اس کے لیے اچھوت ہو۔ اس کی ہتک آمیز نگاہوں سے مجھے بے عزتی کا احساس ہونے لگا۔ تو سوچیں اس لڑکی نے کیا محسوس کیا ہوگا۔ اس کا لرزنا گھبرانا گھگھیانا مجھے صاف محسوس ہو رہا تھا۔ ایک تو انسان پیپر دیکھ کر گھبرا جاتا ہے۔ اوپر سے ممتحن کا رویہ۔۔

انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو امتحان دیتے ہوئے وہ گھبراہٹ کا شکار ضرور ہوتا ہے، کیونکہ اس کے سر پر پاس یا فیل کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے۔ دوسرا وہ کتنا ہی اعلیٰ دماغ کیوں نہ ہو اسے ہمیشہ رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہی ہے۔ جی میں آیا کہ احتجاج کروں لیکن اس سے پہلے ہی ایک ممتحن مرد اس کے پاس آ کر کہتے:

"بے شک پاکستان کے سب سے بڑے مقابلے میں یہ سب بیٹھے ہیں لیکن ان کو ہم نے بچوں کی طرح ہی ایک ایک بات کے لیے گائیڈ کرنا ہے" ممتحن مرد نے اپنی فراست میں بہت اچھی بات کی تھی۔ انسان پیدائشی تو کچھ بھی سیکھ کر نہیں آتا نا۔ ابھی یہ ڈرامہ ختم ہوا ہی تھا کہ اگلا شروع ہوگیا۔ دئیے گئے وقت سے پانچ منٹ پہلے ہی ممتحن نے شاہی فرمان جاری کیا کہ "لکھنا بند کر دیں شیٹس وائنڈ آپ کریں"۔

اس بات پر دو چار جرات مند اسپائرنٹس نے دھواں دار احتجاج کیا۔ جس پر ممتحن اس طرح بحث کر رہے تھے۔ جس طرح کمرہ عدالت میں کھڑا وکیل مقدمہ جتوانے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ بداخلاقی کا اعلی مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ مہذب کا لبادہ اوڑھے غیر مہذب رویے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ بحیثیت قوم ہم کیوں پیچھے ہیں؟

کچھ مناظر امتحانی ہال سے باہر بھی دیکھنے کو ملے۔ اسپائرنٹس موبائل بیگ کتابیں وغیرہ امتحانی مرکز کے گیٹ کے پاس موجود بندے کو جمع کرواتے ہیں۔ جو شاید سامنے والے کی حیثیت سے اندازہ لگا کر پرچی بنا کر پیسے وصول کرتا ہے۔ مجھ سے موبائل جمع کروانے کے سو روپے اور میرے ساتھ موجود لڑکی سے بیگ اور موبائل جمع کروانے کے پچاس روپے۔

مجھے لگا شاید غلطی سے ایسا ہوتا ہے لیکن میں نے وہاں رک کر پانچ دس منٹ تک آتے جاتے اسپائرنٹس کامشاہدہ کیا تو یہ غلطی نہیں تھی۔ بلکہ سامنے والے کے لباس کو دیکھ کر حیثیت کا اندازہ لگا کر پیسے وصول کرنا تھا۔ مجھے وہیں کھڑے کھڑے ریڑھیوں والے پھل فروش یاد آگئے۔ جو امیر آسامی دیکھتے ہی سو روپے کلو کے پھل کو دو سو روپے کلو کہنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہاں میں سوچ رہی تھی دھاندلی ہم خود کرتے ہیں اور حکمران کے اچھا ہونے کی امید رکھتے ہیں۔ حکومت کو الزام دے کر کرپشن کے رونے رونے والے ہم ایسی چھوٹی چھوٹی کرپشن سے بری الذمہ کیوں ہو جاتے ہیں؟ شاید یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنے اعمال کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔

اگلے دن ایک پیپر دینے کے بعد مجھے شدتوں کی بھوک لگی کہ پہلے پیٹ پوجا پھر کام دوجا۔ اگلا پیپر دینے کے لیے تھوڑی توانائی بھی تو چاہئیے تھی نا۔ کھائیں گے تو جسم میں توانائی آئے گی نا۔ خود کو دلیلیں دیتے ایک لڑکی کے ہمراہ دو رویہ سڑک پار کرکے کالج کے سامنے موجود گورمے پر گئی۔ گورمے والوں کو بھی اس دن فرصت نہیں تھی کہ ہر کوئی پیٹ کا دوزخ بھرنے ان کے ہاں سلامی پیش کرنے جا رہا تھا۔

چاق و چوبند ورکرز کاؤنٹر پر الرٹ کھڑے تھے اور مستقبل کے بیوروکریٹ ان کا خزانہ بھرتے جا رہے تھے۔ یہاں بھی میرے ساتھ پچھلے دن والا معاملہ ہوا۔ تین سو روپے والا پیٹِز مجھے چار سو روپے کا دیا گیا اور میں نے بھی سوچے سمجھے نکال کر اتنے ہی پیسے پکڑا دئیے۔ میری دوست حیرت و استعجاب کے ملے جلے تاثرات سے مجھے دیکھ کر کندھے اچکا کر رہ گئی۔ کھانے پینے کے بعد مجھے تھوڑی ہوش آئی تو میں دوبارہ اسی جگہ کا مشاہدہ کرنے گئی۔ ایک ہی چیز مختلف لوگوں کو مختلف ریٹس پر دی جا رہی تھی۔

حالانکہ یہ نئی بات نہیں تھی۔ نئی بات یہ تھی کہ خریدنے والے مستقبل کے بیوروکریٹس تھے، حالانکہ قیمتیں لکھی ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود میرے سمیت سب مستقبل کے بیوروکریٹس شاید اندھے ہو گئے تھے۔ یا شاید انسان تب تک ذمہ داری اٹھانے کی زحمت نہیں کرتا جب تک اسے اسائن نہ کر دی جائے۔

میں نے آتے جاتے لڑکے لڑکیوں کے چہروں کو غور سے دیکھا۔ کیا ان میں عوام کو سرو کرنے کا جذبہ ہے؟ کیا یہ ظالم کا ہاتھ روک پائیں گے؟ مظلوم کچلے ہوئے طبقے کے ساتھ کھڑے ہو پائیں گے؟ جن کو آج یہ سب نظر نہیں آ رہا ان کو کل کیسے آئے گا؟ ہم خود شوق سے لُٹتے ہیں اور کہتے ہیں حکمران ہمیں لوٹتے ہیں۔

شرمندگی کی ایک لہر میرے جسم کے آر پار ہوئی اور آگہی کا در مجھ پر وا ہوا۔ جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ ہم کیوں اپنے بچوں کو بیوروکریٹس بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ہمارے اندر ملک و قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ ہے یا ہم بھی طاقت رعب دبدبہ پروٹوکول کے چکر میں ہیں؟

ان سارے سوالات کا ایک ہی جواب تھا کہ ہاں ہم بھی صرف با اختیار ہونے کے چکروں میں ہیں اور جہاں آپ با اختیار ہوں وہاں سے احساس رخصت ہو جاتا ہے۔ ہم سب ہی اپنے اپنے پیمانے پر چھوٹی چھوٹی کرپشنز میں مبتلا ہیں۔ کونسا ملک کونسے لوگ؟ نفسا نفسی کا عالم ہے یہاں۔

اللہ بھی تو فرماتے ہیں: "خدا اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک اسے اپنی حالت خود بدلنے کا خیال نہ ہو "۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat