1.  Home
  2. Blog
  3. Rehan Asghar Syed
  4. Nizam

Nizam

نظام

جوڑے کی شادی کے چند ماہ بعد ہی انہیں حکومت ملنے کی خوشی ملی، رومان خان اسے صبیحہ بی بی کی صحبت کا فیض سمجھتا تھا، پر دراصل یہ اس کی ذاتی مقبولیت، انتھک محنت کے بعد "نظام" کا فیضان نظر تھا۔ جس نے اسے ملک کا انتظامی سربراہ بنا دیا تھا۔ پری بی بی کا کام ختم نہیں، بلکہ شروع ہوا تھا۔ وقت کم تھا اور مقابلہ سخت، اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی اس کے سر کے نئے تاج کی حکومت جانے کب ختم ہو جائے۔

اس سے پہلے پہلے ملک کے بہتے وسائل سے جتنا مال و دولت سیمٹا جا سکے سمیٹ لینا چاہیے تھا۔ لیکن اس سے پہلے لازم تھا کہ اپنے شریک کاروں اور ساتھیوں سے مال غنیمت کے حصے بخرے کے اصول طے کر لیے جائیں۔ پنجاب میں"مال" اکھٹا کرنے، اس کی کثافت دور کرنے اور محفوظ جگہ پر کھپانے کی تمام تر ذمہ داری ڈولی اور اس کے خاوند عادل جٹ کے نازک کندھوں پر ڈال دی گئی۔

جنہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد پری خاتون (جو اب خاتون اول کہلواتی تھیں) کہ سامنے تجویز رکھی کہ جب تک صوبے کا وزیراعلی "اپنا" آدمی نہیں ہوگا، تب تک ہم سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کی جائیں۔ اپنے آدمی سے مراد جنوبی پنجاب کی ایک پسماندہ تحصیل کا ہونق سا ایم پی اے نعمان لغاری تھا۔ جو کاٹھ کے الو کی تمام شرائط پر پورا اترتا تھا۔

پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے امیدواروں کی بہتات کے پیش نظر خدشہ تھا، پاکستان جسٹس موومنٹ پارٹی میں پھوٹ ہی نہ پڑ جائے، ایسے میں مرشد کامل(جو اب خاتون اول بھی تھیں) کا خواب پارٹی میں استحکام، یک جہتی اور مضبوطی کا پیغام بن کر آیا۔ خواب میں خاتون نے(انہی کے بقول) ایک سرائیکی بلوچ کو اس حال میں پنجاب کے وزیر اعلی کا حلف اٹھاتے دیکھا تھا کہ پس منظر میں ہاتف غیبی کی صدا کہہ رہی تھی۔

کہ پنجاب کا مقدر لغاریوں کو سونپ دیا گیا ہے۔ رومان خان نے خواب پر "آمنا صدقنا" کہتے ہوئے نعمان لغاری کو وسیع عریض صوبے میں سے بمشکل تلاش کیا اور خلعت فاخرہ اور صوبے کی سرکاری مہر عطا کی۔ یوں ایک خواب کے نیتجے میں وجود پانے والی اسلامی ریاست کے تمام جملہ امور "خوابوں کے ذریعے انجام پانے لگے۔ "اپنے وزیر اعلی" کی برکت سے ڈولی اور اس کے ساتھیوں نے پیسے بنانے کے آزمودہ نسخوں کے علاوہ کئی نئے طریقے بھی ایجاد کیے۔

یہ سارا مال غنیمت پہلے سے طے شدہ فارمولے کے تحت بڑی ایمانداری سے تقسیم ہو جاتا، جس میں سب سے بڑا حصہ شیرنی یعنی پری خاتون پھر اس سے کم لومڑی یعنی ماہ جیبن عرف ڈولی خاتون کا ہوتا۔ اس کے بعد لگڑبھگے، گدھے اور شکاری کتے آتے۔ اس ترتیب میں بانگٹرو وزیر اعلی کو کس جانور کے فہرست میں ڈالا گیا تھا؟ سیکرٹ ایجنٹ ذیشان حیدر اس کا صحیح سے تعین نہیں کر پایا۔

پری کا حصہ پراپرٹی میں کھپا دیا جاتا، جو اس کے صاحبزادگان کے نام پر ہوتی۔ باقی مال غیر ملکی کرنسیوں خاص طور پر امریکی ڈالروں میں تبدیل کر کے دوبئی اور ولایت بھیجا جا رہا تھا۔ جس کے لیے ایسے کاریگر مارکیٹ میں موجود تھے۔ جو ایک لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کی گئی منزل یا اکاؤنٹ میں پہنچانے کا معاوضہ پانچ ہزار ڈالر لیتے تھے۔ اس کے علاؤہ پری نے بہت سا مال ڈائمنڈز، جیولری اور کرپٹو کرنسی کی شکل میں بھی اپنے پاس محفوظ کر رکھا تھا۔

ڈولی کی بتائی گئی کہانی کا بیشتر حصہ پہلے سے ہی ذیشان کے علم میں تھا۔ اب وہ صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا رومان خان بذات خود بھی کرپشن میں ملوث ہے یا نہیں۔ ڈولی کے بیانات سے ایسا نہیں لگتا تھا۔ یہ جان کر ذیشان کو خاصی مایوسی ہوئی۔ "ذیشان یا سیکرٹ سروس کو پری، ڈولی یا ان کی لوٹ مار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، بلکہ کسی کی لوٹ مار سے غرض نہیں تھی۔

وہ جانتے تھے کہ انسان کی فطرت میں لالچ کا عنصر موجود ہے۔ پس انہیں بھی اپنا مستقبل محفوظ بنانے کا حق حاصل ہے(جیسا کہ ان کو ہے) اس لیے ان کو صرف لوگوں کی مالی اور اخلاقی کرپشن کے ثبوت جمع کرنے کا شوق تھا۔ یہ ایسا ہی شوق تھا، جیسا کسی کو پرانے سکے، نودارت یا متروک کرنسی نوٹ جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے تا کہ بوقت ضرورت کسی "اہل ذوق" کے سامنے اس کی نمائش کر کے تسکین حاصل کی جا سکے۔

یا مذکورہ شخص کو عبرت دلانے اور صراطِ مستقیم پر واپس لانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ ڈولی کے پاس بہرحال اتنا مواد ضرور تھا۔ جس سے براستہ "پری" رومان خان کے پاک صاف اور ایماندار تشخص کو زِک پہنچائی جا سکے۔ ملک خداداد کا "نظام" آج کل رومان خان کی حکم عدولی سے رنجیدہ تھا اور زبان حال سے یہ پکار رہا تھا۔

تاثیر ہی الٹی ہے اخلاص کے امرت کی

ہم جس کو پلاتے ہیں وہ زہر اگلتا ہے۔

کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنے کے بعد اور کچھ شرائط کی پابندی کے ساتھ ذیشان نے ماہ جبین عرف ڈولی کو آزاد کر دیا۔

Check Also

Qaumi Zuban Ki Be Hurmati

By Prof. Riffat Mazhar