1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Gormani
  4. Lost Ladies

Lost Ladies

لوسٹ لیڈیز

میں یوٹیوب پہ ہر ہفتے آفیشل ٹریلر سرچ کرکے آنے والی فلموں اور ویب سیریز سے آگاہی حاصل کرتا رہتا ہوں۔ گو آج کل اک ڈیڑھ منٹ کی ریل کا دور ہے۔ ٹک ٹاک یوٹیوب شارٹس یا انسٹا ریلز انہوں نے سپین ٹائم اتنا کم کر دیا ہے کہ ہمارا دماغ ڈوپا مین کے اخراج کے لیے دو گھنٹے کی فلم یا آٹھ گھنٹے کی ویب سیریز کی بجائے ڈیڑھ منٹ کی ریل کا عادی ہوتا جا رہا ہے اور ریلز پہ کیا دکھایا جا رہا ہے اور کس طرح دنیا کے برعکس روایت کے عین مطابق برصغیر پاک و ہند والے ٹھمکے لگا لگا کر اس یونرا کا بھی ستیاناس کر رہے ہیں۔ دنیا ڈیجیٹل ہو رہی ہے بدل رہی ہے جنریشن زی کے کیا حالات ہیں اس سب پہ اک ڈیٹیل ویڈیو بناؤں گا جلد۔

آج اک عام آدمی جب کام سے گھر لوٹتا ہے تو بیوی بچوں کو وقت دینے کے بعد سونے سے قبل جو اک ڈیڑھ گھنٹہ فلم یا سیریز کے لیے وقف ہوتا تھا وہ آج کل ریلز لے لیتی ہیں۔

ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا الگوردھم ایسا بنایا جا چکا ہے کہ آپ فیس بک کھولیں تو پانچ پوسٹیں ویڈیوز کی صورت میں دکھتی ہیں چھٹی ساتویں بغیر ویڈیو کے کوئی تحریر یا تصویر ہوتی ہے تو آٹھویں نویں دسویں پھر ویڈیو والی پوسٹ ہوتی ہے۔ ہر چھ پوسٹوں کے بعد سجیشن میں Reels نظر آ رہی ہوتی ہیں۔ اک بار آپ نے ریل چلائی نہیں تو اگلے کئی گھنٹے پھر اسی میں چلے جائیں گے۔ جس طرح لاس ویگس کے کسینو میں وقت کا احساس نہیں ہوتا اس ریلز اڈکشن کا بھی یہی حال ہے۔

پھر الگوردھم اتنا تیز ہو چکا ہے کہ آپ نے جو پہلی ریل چلائی اگلی کئی ریل اسی کے متعلق ہوں گی مثال کے طور پہ آپ نے کوئی گانا چلایا اگلی درجنوں ریلز مختلف گانوں کی ہوں گی آپ نے کوئی اے آئی سے متعلق ریل چلائی تو اگلی ریلز ویسی فلموں سے متعلق کوئی ریل چلا لی تو اگلی ریلز فلمی خبروں سے متعلق ہوں گی اس کے علاوہ آپ کا موبائیل آپ کا جاسوس ہے یہ آپ کو آپ سے زیادہ جانتا ہے۔ ہم لوگ موبائیل کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ کہیں تشریف ٹکائی نہیں کہ موبائیل نکال لیں گے۔ اگر ہم نہ نکالیں تو ان کا الگورتھم آپ کو نوٹیفکیشن میسج کے بہانے یاد دلائے گا کہ آپ نے فیس بک نہیں کھولی۔ اس کم اٹینشن سپین نے مووی واچنگ پہ بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔

پھر کئی طرح کے او ٹی ٹی پلیٹ فارم ٹی وی پہ سینکڑوں نہیں اب ہزاروں چینلز یوٹیوب فیس بک ویڈیوز یعنی پرائیویٹ کانٹینٹ اتنا کچھ ہے دیکھنے کو کہ آپ صرف اسی کام پہ بھی بیٹھے رہیں تو یہ زندگی کم لگتی ہے یقیناً کچھ نہ کچھ چھوٹ جائے گا۔ ایسے میں میں آنے والی فلموں اور ویب سیریز کے ٹیزر ٹریلر دیکھ کر فلم دیکھنے یا نہ دیکھنے کا فیصلہ کرتا ہوں۔

قریب اک ڈیڑھ ماہ پہلے ایسے ہی یوٹیوب پہ لاپتہ لیڈیز نام کی فلم کا ٹریلر دیکھا۔ عامر خان کی پروڈکشن میں بنی اس فلم کا مزاج آف بیٹ قسم کا لگ رہا تھا۔ پھر کسی فیسٹیول میں چلانے کے بعد ان کے مثبت ریویوز دیکھ کر مصمم ارادہ کر لیا کہ بھئی یہ فلم تو دیکھنی ہی دیکھنی ہے۔ کہانی ہے ریلوے سفر کے دوران دلہنوں کی ادلا بدلی کی۔ تجسس کامیڈی کے تڑکے کے ساتھ گاؤں کا سادہ ماحول اور عورتوں کے حوالے سے مثبت پیغام دیتی یہ فلم جب ریلیز ہوئی تب بھی اس کے مثبت ریویوز نے میرے صبر کا امتحان لیا۔ فلم کو سینما پرنٹ میں ڈاؤن لوڈ کیا لیکن پھر دل کی ڈھارس بندھا کر ڈیلیٹ کر دی کہ بھائی دیکھوں گا تو ایچ ڈی پرنٹ میں ورنہ فلم سے انصاف نہیں ہو پائے گا۔ پچھلے دنوں فلم او ٹی ٹی پہ ریلیز ہوئی تو ڈاؤن لوڈ کر لی۔ مگر وہی بات کہ دیکھنے کو اتنا کچھ ہے پتا نہیں کب دیکھ پاتا کہ میرے شہر کوٹ ادو کی اک خبر نے اسے ASAP دیکھنے پہ مجبور کر دیا۔

کچھ لوگوں کو فلم کے پلاٹ پہ اعتراض تھا کہ غیر حقیقی ہے ایسا تھوڑی ہوتا ہے کہ بندہ کسی اور کی دلہن کو اٹھا لائے یا دلہن یوں ٹرین کے سفر میں گم ہو جائے۔ مگر یہ حقیقت سے قریب تر پلاٹ ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ایسے ہی گھونگھٹ اور عورتوں کے ساتھ ایسے ہی رویے کی مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں پٹھان قبیلوں میں بھی عورت کے گھونگھٹ کو لے کر ایسا ہی سننے کو ملتا ہے(مزید کوئی پشتون دوست روشنی ڈال سکتا ہے)۔

خیر پہلے کوٹ ادو کی خبر سنیے پھر فلم کی طرف واپس آتے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ کوٹ ادو کا اک نوبیاہتا جوڑا ہنی مون کے لیے پنڈی ایکسپریس ٹرین پہ سوار ہوتا ہے پنڈی ٹرین شام سوا چھ بجے کوٹ ادو سے راولپنڈی کے لیے نکلتی ہے اور ساری رات سفر کرتے صبح دس گیارہ بجے قریب راولپنڈی پہنچتی ہے۔ کوٹ ادو میں ہنی مون کا اتنا رواج نہیں مگر خوش آئند بات ہے کہ اب نوجوان دلہا دلہن اپنی زندگی کے ان خوب صورت اولین دنوں کو یادگار بنانے کے لیے نئے رواج اپنا رہے ہیں۔

میری جب شادی ہوئی تو میں امریکی ادارے سیو دی چلڈرن میں جاب کرتا تھا۔ اتفاق سے ان دنوں ہماری اک ٹیم کا دس روزہ ٹرپ سوات کالام کی طرف جا رہا تھا۔ مجھے سیو دی چلڈرن نے آفر کی کہ آپ اور آپ کی مسز کا دس روزہ ہنی مون ٹرپ ہماری طرف سے فلی فنڈڈ ہے اگر آپ جانا چاہیں تو مگر وائے قسمت کہ 22 سالہ رضوان ظفر گورمانی اس وقت اپنے بلوچ روایات اور خاندان میں اس بے باکی پہ ہونے والی چہ مگوئیوں سے گھبرا کر اس آفر کو رد کر بیٹھا۔ جس کا ملال شاید جاتے جاتے جائے۔ اب میرا کوئی قریبی شادی کرتا ہے تو میں حتی الامکان اسے راضی کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہنی مون پہ ضرور جانا زیادہ لگژری یا زیادہ دور جانا افورڈ نہیں کر سکتے تو سرائیکی وسیب میں ہی گھوم پھر آؤ مگر ان گولڈن دنوں کی یادگار یادیں لازمی بناؤ۔

عبدالسمیع بھی ایسا ہی اک نوجوان ہے جو شاید یادیں بنانے پہ یقین رکھتا ہے۔ تو جناب یہ اپنی دلہن کے ساتھ راولپنڈی کے لیے روانہ ہوا اس کے آگے پھر ان دونوں شمالی علاقہ جات کی طرف جانا تھا۔ رات کے کسی پہر کندیاں کے قریب دلہا ٹرین کے دروازے سے نیچے گر گیا۔ سب مسافر بشمول اس کی دلہن سو رہے تھے کسی کو علم نہیں ہوا۔ وہ رات بھر ٹریک کے کنارے شدید زخمی حالت میں کراہتا رہا۔ ادھر صبح جب ٹرین پنڈی سٹیشن پہنچی تو دلہن بے چاری اپنے دلہے کو ڈھونڈتی رہی اور مسافروں ٹرین عملے سے پوچھتی رہی۔ دوسری طرف صبح کسی مقامی آدمی نے عبدالسمیع کو ریلوے لائن کے قریب شدید زخمی حالت میں پایا تو ایمرجنسی ہیلپ لائین پہ کال کہ دلہا اس وقت سرکاری ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ ہم ان کی صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔

یہ سب واقعہ پڑھ کر مجھے لاپتہ لیڈیز کا خیال آیا اور پہلی فرصت میں اسے دیکھ ڈالا۔ کہانی جیسے پہلے بتائی ہے کہ دور گاؤں سے دلہا اپنی دلہن پھول کمارہی کو بیاہ کر گھر لانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ ان کے ڈبے میں اور دو دلہے دلہنیں بھی موجود ہیں۔ رات بھر کے سفر کے دوران جب وہ اپنے سٹیشن پہ اترتا ہے تو جلدی میں کسی اور کی دلہن کو نیند سے جگا کر اتار لیتا ہے۔ گھونگھٹ دلہن کی پہچان ہوتی ہے اور اس کے جوتے دلہے کی پہچان۔ جب ٹرین روانہ ہو جاتی ہے تو دلہن کو پتا چلتا ہے کہ اوہ غلطی سے مشٹیک ہوگیا۔ مگر وہ چپ چاپ ساتھ ہو لیتی ہے اور گھر پہنچنے تک کچھ نہیں بولتی۔

گھر پہنچ کر جب پتا چلتا ہے تو دلہے کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے۔ پرائی دلہن کو گھر میں رکھ کر وہ پولیس سے مدد لینے اور خود اپنی دلہن کو ڈھونڈنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ روی کشن کا کرپٹ پولیس ایس ایچ او کا رول اس فلم میں بہت شاندار ہے۔ ادھر پرائی دلہن کی مشکوک حرکتیں ادھر سے پولیس کی تفتیش پھر دلہے میاں کی معصوم محبت سچی دلہن پھول کماری کا احوال سب مل کر اس سادہ سی فلم کو اک شاندار فلمی تجربہ بنا دیتا ہے۔

عورتوں کے جینوئن مسائیل اور دیہی کلچر میں رائج فرسودہ روایات پولیس کا کرپٹ سسٹم اور انسانیت سے بھرپور چند کرداروں جیسے چھوٹو اور عبدل کی پرفارمنس سے سجی یہ فلم فیملی کے ساتھ دیکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ نے اگر خود پہ تفریح حرام نہیں کی ہوئی آپ فلمیں دیکھتے ہیں تو پھر میری ریکمنڈیشن پہ Feel Good محسوس کراتی لاپتہ لیڈیز یا Lost Ladies نامی یہ فلم ضرور دیکھیے۔ ویسے تو فلم او ٹی ٹی پلیٹ فارم نیٹ فلیکس پہ ریلیز ہوئی ہے مگر اسے آپ مختلف فلمی ویب سائیٹس سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ اگر نیٹ فلیکس نہیں اور ویب سائیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرنے کا طریقہ نہیں آتا تو StreamFlix نامی ایپ ڈاؤن لوڈ کیجیے یہ او ٹی ٹی ایپ نیٹ فلیکس سے لے کر ایمازون پرائم تک ہر فلم کو مفت میں دکھاتا ہے۔ آپ اس کے لیے مجھے بعد میں شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔

Check Also

Kya Pakistani Adalaten Apne Daira e Kar Se Tajawuz Karti Hain?

By Imran Amin