Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Khiraj e Aqeedat

Khiraj e Aqeedat

خراج عقیدت

پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ اس عظیم کلمے اور اس میں پوشیدہ طاقتوں کا ادراک و علم تو فقط اللہ جل شانہ ہی کو حاصل ہے مگر اس ذات کبریائی نے اپنے من پسند اور مقدس ترین انسان کے ذریعے اس کلمے کے فیوض و برکات سے آشنائی اور اس سے مستفید ہونے کا علم روئے زمین پہ ہم جیسے عمومی انسانی مخلوق تک بھی پہنچا دی۔

لیکن اس کا ادراک اپنے نبیوں کے واسطے ہم جیسے عمومی انسانوں میں اپنے چند گنے چنے نفوس کو عطا فرمایا جن کی فطرت کی کیاری میں کچھ بڑا اور مقدس فریضہ انجام دینے کی ہمت، جرات اور طاقت وجود رکھتا ہو۔ اور اسکی خاطر ہر قسم کی قربانی اور تکالیف کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے کی ہمت و قوت رکھتا ہو۔

پاکستان میں وقت آزادی بلکہ تحریک آزادی کے وقت سے ہی ایسے بہت سارے اپنے نفوس اس بات پہ مصر تھے کہ ایک الگ ریاست کا قیام نہ ہو۔ بلکہ مذہبی پیراہے میں لپٹا شوشا یہ عام کیے رکھا کہ جب برصغیر (پاک و ہند) مسلمان اکٹھا ہونگے تو اک بڑی تعداد میں ہو کر ایک مضبوط قوت بن کر اس سر زمین پہ رہنے والے غیر مسلم اور دشمن عناصر سے لڑینگے۔

لیکن کاش انھیں آج کوئی بتا دے کہ ان مسلموں کا حال دیکھ لیں جا کے جو کہ تعداد میں موجودہ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں سے دوگنی ہے لیکن وہ کس حد تک اپنے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنا سکے ہیں۔ اور یہ تصور بعد میں پاکستان میں بھی کچھ نفوس اسی خناس کو لے کر پاکستان ہجرت کر آئے۔ نہ تو انکے عزائم تب کارآمد ثابت ہوئے، نہ اب اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی ہاتھ آئی اور نہ مستقبل میں کبھی حاصل ہو گی۔

یاد رکھیں وجود پاکستان ایک محض تحریک نہیں تھی بلکہ یہ مشیت ایزدی تھی نہ تو تب اور نہ رہتی دنیا تک کوئی اس خواب اقبال کو اور مشن قائد کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ ذرا غور تو کیجئے کہ تصور پاکستان پیش کرنے والا عظیم مفکر نہ جانے کیسے یہ جان گیا کہ اس کے قلم سے نکلنے والی یہ شہادت حق دراصل خالق کائنات کی منشاء ابدی ہے۔

ربّ کائنات نے علامہ صاحب کے فکر کے کسی گوشے میں خاص رحمت ایزدی سے یہ بات ڈال دی جو نیچے علامہ صاحب کے یوم پیدائش کے حوالے سے اپنا یہ مقدس خیال شئیر کرنا اعزاز سمجھتا ہوں۔ اور یہی میرا کل سرمایہ شرق و غرب ہے کہ مجھے علامہ صاحب کے ہم وطن ہونے کا شرف بھی عطا ہوا۔

اللہ جل شانہ نے اس کائنات کی تخلیق کا ماخذ کلمہ طیبہ رکھا اور اسکا حصول بھی۔ لیکن اللہ نے حبیب کبریا سے محبت و عشق کے اس لازوال جذبے کے اظہار کے لیے (کہ اس کائنات کی تخلیق باعث فخر موجودات محمد عربی علیہ الصلوات والسلام ہیں) لازوال شہادت بھی عطا فرمائی اور وہ یہ کہ اپنے نام مبارک کے ساتھ اپنے محبوب کے نام کو نتھی، منسوب و مربوط کر دیا۔ اور یہ حکم دیا کہ لا الہ الا اللہ کو پانا چاہتے ہو تو محمد رسول اللہ (ﷺ) کو ماننا شرط اول و آخر ہو گا۔

اب درجہ بالا بنیادی تمہید کو سامنے رکھتے ہوئے نظریہ پاکستان اور وجود پاکستان پہ نظر دوڑائیں۔

جب محبوب پاک نے اپنے پاک و مطہر حدیث مبارکہ میں یہ نشاندہی فرمائی کہ دین اسلام کی سر بلندی کے لیے آخر وقت میں خراسان، پاکستان (کے سرحدات جو صوبہ کے پی کے میں ملتے ہیں) سے کچھ لشکر اٹھیں گے اور غزوہ ہند میں شرکت کریں گے۔ (مفہوم)

تو مولا کائنات ربّ ذوالجلال نے یہاں بھی اپنے حبیب سے محبت کا لازوال اظہار شہادت ہمیں عطا فرمایا اور وجود پاکستان کے لیے مدینہ ثانی کے نام اور مقام و مرتبت سے مرحمت فرمایا اور اسکی بنیاد کو جو اسلام یعنی اللہ کی وحدانیت (لا الہ الا اللہ) کی خاطر فوج کشی کریں گے غزوہ ہند میں تو وہاں پہ ربّ کائنات میں (محمد رسول اللہ ﷺ) کی عزت اور محبت کو دوام بخشنے کے لیے مفکر و معمار پاکستان بھی دونوں"محمد" کے نام سے منسوب فرمائے۔

اور یہ واضح اور حکمت سے بھرا پیغام دیا کہ انہی "محمد" (علامہ محمد اقبال کے تصور اور محمد علی جناح کی تقریر) کو اپنا کر چلو گے تو پاکستان (لا الہ الا اللہ کے مصداق) کو حاصل کر پاؤ گے۔ ورنہ 1857ء کی تحریک کوئی عام اور معمولی تحریک نہ تھی مگر، وجہ یہی تھی کہ "لا الہ الا اللہ" کا تصور محمد رسول اللہ (ﷺ) "کے بغیر ممکن نہیں۔ "

اور میں اسکو منسوب ایسے ہی کرتا ہوں۔

"لا الہ الا اللہ " وجود پاکستان ہے اور راستہ و ذریعہ"

محمد رسول اللہ (ﷺ) "علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح ہیں۔ "

تبھی فرمایا علامہ اقبالؒ نے

پاکستان کا مطلب کا کہا لا الہ الا اللہ۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar