Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Maqbooza Pakistan

Maqbooza Pakistan

مقبوضہ پاکستان

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں انتخابات کے بعد بھی سلطنت میں خود کو بادشاہ ثابت کرنے کے لیے تگ وہ دو رہتی ہے۔ وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اک گدڑی میں سو فقیر رہ سکتے ہیں مگر اک سلطنت میں دو سلطان نہیں رہ سکتے اور پاکستان میں بیک وقت دو سلطان کی لڑائی چل رہی ہوتی ہے۔

اک نام نہاد جہموری سلطان بننے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اک آمری سلطان رہنے کی جان توڑ بازی لگا رہا ہوتا ہے اور اس نورا کشتی میں سلطنت کا جو حال ہوتاہے اسکو سمجھنے کے لیے وطن عزیز پاکستان کو دیکھ کر ہی بخوبی ادراک حاصل ہوتاہے۔ 1947 کو ہم آزاد ہوئے ضرورِ، مگر غلامی کی سوچ سے آزادی ممکن نہیں ہوسکی۔ دنیا میں اس وقت مقبوضہ کشمیر کا نعرہ لگ رہا ہے جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ اب اس مقبوضہ ممالک کی فہرست میں اک نام پاکستان کا شامل ہونا چاہئے، کیونکہ ملک کے دو اداروں کے بڑے اپنی اپنی انا کی بقا، کی جنگ میں اس قدر مصروف عمل ہیں، جیسے کہ ہم 1965 کی جنگ میں پھر سے داخل ہو چکے ہیں۔

کسی کے ماتھے پہ شکن تک نہیں آرہی جہاں جس ملک کے نام نہاد جمہوریت میں جمہور غربت و افلاس سے مر رہے ہیں، سٹریٹ کرائم میں جان و مال سے ہاتھ دھو رہے ہیں، تو کہیں جوان سمندر پار جانے کے لیے غیر قانونی راستوں میں ڈوب مر رہے ہیں۔ وہاں اشرافیہ اور مفاد پرست اپنے چوریاں، کرپشن، منافقت بچانے اور اگلی باری پھر زرداری جیسے محرکات کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔

پاکستان میں جہاں پر اور بہت ساری منافقتیں جاری و ساری ہیں وہاں ذات پات کی منافقت شہ سرخیوں کی طرح گردش کررہی ہے۔ اب نہ جانے یہ سید ذات پورے اسلامی ممالک میں کہیں اور نہیں پائی جاتی فقط اسلامی جمہوریہ مقبوضہ پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ آج تک عرب ممالک میں کہیں بھی سید ذات کا دعوی سامنے نہیں آیا اور پھر شائد مرے ناقص علم میں نہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں ہر دوسرا بندہ اس دعوی کا دعویدارپایا جاتا ہے۔ یاد رکھیں ہرسید، ہر عالم، ہرعامی بندہ جو جو اقتدار کا حصہ ہے یا رہاہو ان سے رعایت کے بابت سوال ہوگا اور اس سوال کے ضمن میں ذات پات سے یا مالی مرتبت سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ یہ جتنے لوگ غیر منصفانہ دولت کی تقسیم کی وجہ سے جو انسانی جانوں کا ضیاں ہو رہاہے یہ سب ان سیدوں، مرزاؤوں کے گلے میں پڑے گا۔

اگست 1947کو تقسیم خطے کا ضرور ہوا مگر ضمیر فروشوں اور منافقوں کی تقسیم نہیں ہوئی وہ ساری کی ساری پاکستان کے ہی حصے میں آئے اور ٹھیک اک سال بعد درپردہ آزاد مملکت خداد پاکستان دراصل مقبوضہ پاکستان بن گیا اور اس کے لیے قائد ملت جیسی شخصیت کو بلی چڑھایا گیا مگر منافقوں نے اپنی انا اور اپنی سلطنت بچالی۔ وہ قائد اپنی بہن سے فرمایا کرتا تھا کہ فاطمہ یہ مت سوچنا کہ یہ لوگ میری عیادت کو آریے ہیں بلکہ یہ، یہ دیکنھے آرہے ہیں کہ سانسیں کتنی باقی ہے۔ یہ اس آزاد پاکستان کی وہ ننگی حقیقت یے کہ جو سب کو معلوم ہونے کے باوجود بھی نا معلوم ہے۔

پہلے دیکھتے ہیں وہ کونسے عوامل ہیں جو مقبوضیت کی تعریف کے لیے موضوع ہوتے ہیں۔ ہر وہ علاقہ، ادارہ، وطن یا ریاست جہاں اظہار رائے کی آزادی، آزادی نقل و حرکت، محافل کے انعقاد، ٹیلی ویژنز پہ براڈ کاسٹنگ یعنی ہر قسم کی بنیادی حقوق کی آزادی کو بزور بازو صلب کی جائے اور چند مخصوص اشرافیوں کو اسکے بے دریغ استعمال کا تحفظ حاصل ہو اسکو قبضہ یا مقبوضہ کہا جاتا ہے۔ اب 9 مئی کے بعد رچائے جانے والے ڈراموں سے دراصل وطن کی سالمیت کی آڑ میں درپردہ روا رکھے جانے والے حرام حوریوں کے منظر پہ عام پہ آنے سے روکنے کے لیے بازو کا زور آزمایا جا رہا ہے، اور عوام کو ہر ممکن حد تک ڈرایا دھمکایا اور دبایا جا رہاہے۔

یاد رکھیں آزاد ریاستوں کے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں، لیکن مقبوضہ ریاستوں کا اک ہی ستون ہوتا ہے اور وہ ہے طاقت۔ آزاد ریاستوں میں سوال و جواب ہوتا ہے اور اس ضمن میں تکرار پیدا ہوتا، مسائل پہ بحث اور اس کا حل تجویز کیا جاتے ہیں۔ ہر کسی کو اظہار رائے کی کھلی آزادی ہوتی ہے جبکہ مقبوضہ ریاستوں میں سوال بھی مقبوضہ ہوتے ہیں اور جواب بھی، اور اظہار رائے اک ناقابل تلافی جرم ہوتاہے اور الحمدللہ وطن عزیز مقبوضیت کے ان تمام لوازمات پہ پورا پورا اتر رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں پھر جنگ، جہاد اور رونا معلوم عناصر کے خلاف جاری و ساری ہے جبکہ مقبوضہ پاکستان میں سب سے بڑی مصیبت یہی ہے کہ جو نامعلوم ہے وہ سب کو معلوم ہے کا رونا رویا تو جا رہاہے لیکن ان کیخلاف صدا بلند کرنے کی نہ ہمت ہے کسی میں اور نہ اسکی اجازت کیونکہ ان نامعلوم طاقتور اور اشرافیہ کے خلاف آواز بلند کرنے کی ادنی سی سزا غداری ہے اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جاتا ہے۔ اور اگر ایسے غدار اور گستاخ کو بچانے کی خاطر کوئی راستے میں حائل ہوا تو اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا۔ یعنی غدار کو بچانے والا بھی غدار ہی کہلائے گا۔

بچانے والے کا عہدہ، ذات پات نہیں دیکھی جائے گی اسکا غدار کو بچانے والا عمل ہی اسکو سزا کا مستحق بنانے کے لیے کافی ہوگا۔

ریاست کی سلامتی آزاد ریاستوں میں ہوتی ہے اور وہاں فقط سکیورٹی اداروں کی ہی سلامتی نہیں ہوتی بلکہ عدلیہ، ایوان اور عوام بھی ریاستی سالمیت کا حصہ ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں مقبوضہ ممالک میں ملک کی سلامتی نہیں بلکہ اشرافیہ کی سلامتی اور جونامعلوم ہے یہ سب کو معلوم ہے کی سلامتی کوخاطر میں لایا جاتا ہے۔ عوام آزاد ریاستوں میں من حیث القوم ہوتے ہیں، جبکہ مقبوضہ ممالک میں عوام اک جم غفیر ہوتی ہیں، بھیڑ بکریوں کی مانند اک ریوڑ ہی ہوتی ہے اور وطن عزیز پاکستان مقبوضیت کے اس زمرے میں بھی صف اول میں کھڑا ہو رہا ہے۔

آزاد ریاستوں میں ہر شہری اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے اپنے پسند و نا پسند کو منتخب کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ مقبوضہ ریاستوں میں اپنے حقو ق کے لیے اٹھ کھڑا ہونا غداری کا مرتکب ہونے کے مترادف ہوتا ہے۔ کسی بھی آزاد ریاست کی سلامتی نہ اسکی عوام ہوتی ہے، نہ افواج اور نہ ایوان۔ بلکہ کسی بھی آزاد ریاست کی سلامتی اسکی عدلیہ ہوتی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ریاست کتنا ہی مضبوط اور امیر کیوں نہ ہو لیکن اگر عدل و انصاف مرچکا ہو تو اس ملک کی سلامتی امن میں نہیں رہ سکتی۔ جبکہ مقبوضہ ریاست میں عدل ہوتا ہے اور نہ انصاف اور نہ اسکی کوئی سلامتی ہوتی ہے۔ اور پاکستان کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ باتیں کوئی معنی رکھتی ہے اور نہ کوئی وجود۔ کیونکہ غلامی ہر چیز کی نفی کا نام ہے اور مقبوضہ غلامی کا دوسرا نام ہے۔ مقبوضہ پاکستان پچھلے پچھتر سال سے آزادی اور غلامی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اللہ کرے وطن عزیز اب کے بار حقیقی معنوں میں آزاد ہوجائے۔

Check Also

Neela Thotha

By Amer Farooq