Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Socha Na Tha Ye Din Bhi Aye Ga

Socha Na Tha Ye Din Bhi Aye Ga

سوچا نہ تھا یہ دن بھی آئے گا

عمر شریف مرحوم کو اللہ غریق رحمت کرے اس کا اک لطیفہ یاد آیا، گر الفاظ کی تھوڑی سی ہیر پھیر نادانستہ طور پہ ہو جائے تو اس کے لیے قبل از کتابت معذرت قبول فرمائیں۔

انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستانی پولیس اور تھانے کا نظام دنیا کا وہ واحد نظام ہے جہاں اگر ہاتھی بھی پولیس کی حراست میں اک دن کے لیے آ جائے، تو کل کو ہاتھی بھی اپنی کردہ ناکردہ ساری گناہوں کو قبول کر دے گا۔ یا میں اسکو تھوڑا سا اور بھی اگر یہ بات دور حاضر میں وطن کو درپیش حالات کی عین عکاسی کرانے کی تناسب سے تبدیل کر دوں تو کچھ یوں ہوگا کہ، ہاتھی بھی پریس کانفرنس کرکے اپنے کردہ ناکردہ گناہوں کو مان لے گا، اظہار یکجہتی بھی کر دے گا اور 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے راستے بھی جدا کر دے گا اور ساتھ میں ہلکا سا جذباتی تاثر دینے کی خاطر آنسو بھی ٹپکا لے گا۔

کیا عجیب نفسیاتی عارضہ اس قوم کے موجودہ حکمرانوں اور وردی پوش ایلیٹوں کو لاحق ہو چکا ہے کہ ہر شے سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان کا علاج کیا جائے یا ہدایت کی دعا۔ جو مداری پن اور جوکر بازاری انہوں نے گرم کر رکھی ہے وہ ہر ذی شعور کے عقل و فہم سے دور ہے۔ غالباََ معید پیر زادہ نے لکھا تھا کہ عدالتوں میں جج بندے کو ضمانت یا پکا رہا کراتے ہیں اور وہ بایر آتے ہی پولیس کی وین کھڑی دیکھتا ہے جس میں سے یہ آواز آ رہی ہوتی ہے پریس کانفرنس یا جیل واپسی۔ یہ ان نام نہاد سکیورٹی کے لبادے میں موجود فرعون کی رائج کردہ فسطانیت و فرعونیت کی مثال ہے۔

اور مہان تعجب و دکھ کی بات تو یہ کہ میڈیا اور اس سے جڑے بیشتر افراد حکومت اور وردی پوشوں کے ساتھ اس کھیل میں برابر کے شریک ہو چکے ہیں۔ یعنی ان میں اکثریتی لوگوں کی وہ بھڑک پن جو اکثر مگرمچھ کے آنسوؤں کے مصداق دکھانے کے لیے ہوتے ہیں کہ ہم سچ و حق کے ساتھ اور ان کیلیے کھڑے ہوتے ہیں یہی ہمارا عقیدہ ہے یا یہی ہمارا پیشہ ورانہ و اخلاقی فریضہ ہے لیکن اندر سے پورے ڈرپوک اور نامرد بنے ہوئے ہیں جو کہ حکومت اور وردی پوشوں کے خلاف کھل کر بولنے کی جرات نہیں کر سکتے۔

اسلیے جب بھی دیکھو تو قریباََ 50 تک چینل پر اک ہی بھرمار 9 مئی کے واقعات ملک کی تاریخ کا تاریک ترین دن تھا اور رہے گا وغیرہ وغیرہ مگر کوئی یہ کہنے اور لکھنے کی جرات نہیں کر رہا کہ وہ کیا عوامل تھے جس نے عوام کے اندر چھپے اس 70 سالہ لاوے کو باہر نکالا ہے؟ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا؟ کوئی بھی ان فرعونوں سے یہ پوچھنے کا جگرا نہیں رکھتا کہ آپ لوگوں کی سکیورٹی اتنی حساس جگہوں سے اس دن کیوں غائب ہوئی تھی؟ پشاور کا ریڈیو اسٹیشن احتجاج کی جگہ سے مناسب فاصلے پر تھا پھر کس نے اسکو آگ لگائی؟ جن لوگوں نے یہ جرات کی تھی آج وہ مسنگ پرسنز بن چکے ہیں یا پھر بے گناہ چند دن جیل کی ہوا کھا لی۔

کوئی یہ کہنے کی جرات نہیں کرتا کہ زبردستی محبت دوبارہ بحال کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ہتھ کنڈے دراصل کمیین لوگوں کا شیوا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں جس کے پاس دلائل ختم ہو جائیں یا پھر سرے سے ہوں ہی نہ یا پھر جو ناحق ہوتا ہے تو وہ مکالمے وہ دلائل کی جگہ سیدھا لڑنے، مارنے و مرنے پہ اتر آتا ہے اور آج حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ یہی کچھ کر رہے ہیں۔ اک غیرت مند انسان اور جمہوری لیڈروں کا کام یہ نہیں ہوتا۔

کوئی نہیں کہتا کہ 9 مئی کو اپنے مقاصد کی خاطر حملے کروانے والے دن کو یوم سیاہ کا واویلا کرنے والے 12 مئی کو سانحہ ماڈل ٹاون میں قریباََ ڈھائی سو شہریوں کو گولیوں سے بھوننے والے دن کو یوم سیاہ کیوں نہیں بنا رہے؟ سانحہ ماڈل ٹاون کے ذمہ دار شریف برادران بشمول رانا ثناءاللہ کو فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں بلایا جا رہا؟

لال مسجد پہ ناروا یلغار کرنے والے دن کو یوم سیاہ کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ اور اس میں ملوث آمر کو پاکستانی جھنڈے میں دفن کرکے پاکستانی پرچم کی توہین جو کی گئی ہے اسکو فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں لاتے؟ باجوڑ مدرسے میں ڈرون بم سے آڑانے والے بچوں کو کس گناہ میں شہد کروایا تھا؟ ان سب بچوں کو پاکستانی جھنڈوں میں سپرد خاک کیوں نہیں کیا گیا؟ اس دن کو یوم سیاہ کیوں نہیں منانے کا اعلان کرتے؟ اس کے ذمہ داروں کو فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں بلاتے؟

اس ملک میں سب کو جو چاہے سزا مل سکتی ہے، جو چاہے پرچہ کٹ سکتا ہے، جو چاہے الزام لگ سکتا ہے مگر فوجی پہ نہیں؟ افغان وار میں پاکستان کو دھکیلنے، پاکستان کی سرزمین کو امریکی حملوں کے لیے استعمال ہونے کی اجازت (جو کہ چھپن ہزار حملوں میں شامل جہاز پاکستانی سرزمین سے اٹھے تھے) جس نے دی تھی اور جس دن دی تھی، ان ذمہ داروں کو فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں بلاتے اور اس دن کو یوم سیاہ کیوں مناتے؟ یوں دیکھا جائے تو پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہوگا جس کے کلینڈر کا 90 فیصد حصہ یوم سیاہ کے نام سے منسوب ہوا ہوگا۔

خدارا اس ڈرامے کو بند کر دیں، یہ بھٹو جیسا سول مارشل لاء جو لگایا گیا ہے اس کو بند کر دیں، عوام کی آزمائشوں کو اور نہ بڑھائیں۔ کیوں کہ بھٹو نے تب اپنے اقتدار کی خاطر پاکستان کے تن پہ شمشیر خود غرضی سے وار کیا تھا اور پاکستان کے وجود کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا اور تاریخ اس دن کو تقسیم مشرقی پاکستان کے نام سے محفوظ کر چکی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس سول آمر اور غاصب کو شہید جمہوریت کا لقب دیا جاتا ہے جبکہ وہ شہید لالچ برائے کرسی و اقتدار تھا۔

آج بھی وہی کچھ ہو رہا، آج شریف خاندان اور بالخصوص اک ایسی عورت، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ملک اور جمہور کو اک باپ اور بیٹی کی خواہش کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اور فوج و عدلیہ کا ماسوائے چیف جسٹس کے ساری عدالتیں ان کے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر معاون بنے ہوئے ہیں؟

کہتے ہیں کہ امریکہ میں اک دوکاندار کی شکایت پہ پکڑے جانے والے بچے کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ تو عدالت میں جج نے بچے سے چوری کی وجہ پوچھی تو کہا میں تین دن سے بھوکا ہوں اور یتیم ہوں اور اس دوکاندار سے کہا بھی پیسے نہیں ہے بھوک لگی ہے کھانے کو دے دو لیکن اس نے انکار کر دیا۔ بچے کا کہنا تھا کہ عدالت نے اک تاریخی فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے سول انتظامیہ کو جرمانہ کیا جو اس بچے کی حالت اور اس کی کفالت سے ناآشنا رہی جس کی وجہ سے بچہ چوری کرنے پہ مجبور ہوا۔ اس دوکاندار کو بھی جرمانہ کیا گیا تھا اور ساتھ میں عدالت میں موجود ہر فرد کو جرمانہ کیا گیا۔

تو سانحہ 9 مئی میں اگر حکومت کے بقول کوئی عام معصوم آدمی شامل بھی ہے تو پہلے ان لوگوں کو فوجی عدالتوں میں پیش کریں جن کی وجہ سے ملک میں یہ حالات بنے لوگوں کے ہاتھوں یہ نقصان ہوا۔ کل کی حامد میر کی کی ہوئی تقریر اسی مناسبت سے بڑی اہم ہے کہ جمہوریت کی آزادی و پاسداری کی آڑ میں اپنے ذاتی مفادات کی خاطر رچائے جانے والے منصوبوں کو عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا؟ جس کی وجہ سے عوام میں 70 سال سے پلتی ہوئی نفرت کے لاوے کی اک جھلک 9 مئی کو اس ملک نے دیکھ لی۔

کشمیر کے حریت پسند لیڈر سید علی گیلانی مرحوم کا وہ میسج جمہور پاکستان کو سنایا جائے جو انہوں نے اپنی وفات سے پہلے باجوہ کے خلاف ریکارڈ کروایا تھا اور کہا تھا کہ باجوہ، مشرف سے بھی زیادہ پاکستان کے لیے خطرناک ہے۔ ان حقیقتوں کو یہ جمہوریت پسند اور محب وطن عوام کو کیوں بتاتے اور دکھاتے۔ یہ وہی فوج ہے جس کے حق میں جمہور کی جبری محبت پیدا کرنے کے لیے سپانسرڈ ریلیاں نکلوانے جا رہے ہیں، یوم تکریم شہدا منائے جا رہے ہیں، اظہار محبت اور و یکجہتی کے نعرے لگوائے جا رہے۔

سانحہ بنگال کے بعد یہ بیچ بویا گیا تھا اور اس کو ہر وقت کے آمر حکمران نے ہوا دی ہے لیکن مشرف نے اس کی مکمل باغبانی شروع کرا دی تھی، باجوہ نے اس کو اک تنآور درخت بنا دیا اور اب یہ نفرت یوں چند سپانسرڈ ریلیاں نکلوا کر ختم کرائی نہیں جا سکتی اب آپ لوگوں کو اس کو فیس کرنا ہوگا۔

اور جن لٹیروں کی آپ لوگ اس وقت پشت پناہی کر رہے ہو اس نفرت کے چھینٹے بھی آپ کی وردی کو داغدار کر رہے ہیں۔ لیکن نقصان اس ملک کا ہو رہا ہے۔ تم لوگ چاہے وردیوں میں ملبوس ہو یا نام نہاد جمہوری لیڈرز ہوں یہ تو 50 روپے کے سٹام دے کر ملک سے باہر فرار ہو جاتے ہیں۔ لیکن بھوک و افلاس سے خودکشیاں عوام کرنے پہ مجبور ہو چکے ہیں اپنے بچوں کو غربت کے مارے مارنے کے گناہ عوام کر رہے ہیں۔ کیونکہ آپ لوگوں پہ انگلی اٹھانا ایسے ہی ہے جیسے کہ معاذاللہ خدا پہ اعتراض کرنے کے مترادف ہے۔

آپ لوگ وطن کا ستیاناس مار رہے ہو پھر بھی محب وطن ہو اور عوام اسی وطن کی محبت کی خاطر آپ لوگوں کی کارکردگیوں پہ انگلی اٹھائے، احتساب کا مطالبہ کرے تو وہ غدار وطن بن جاتے ہیں۔ بقول شاعر؎

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar