Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Tarfa Saut Aur Hamare Aamal

Tarfa Saut Aur Hamare Aamal

ترفع صوت اور ہمارے اعمال

وقت اپنے ساتھ سب کچھ بدل دیتا ہے مگر وقت کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ بدلتے وقت کے ساتھ دور حاضر میں کاغذی علم کا جہاں ہر طرف سماں بندھ چکا ہے وہاں عقل و شعور کے لبادے میں جدلیاتی و روشن خیالی و سوچ کا شور و غوغا بھی چل رہا ہے۔ جدت پسندی اور نئی سوچ کے اس دھمال نے دین محمد ﷺ کو بھی نہیں چھوڑا اس پہ بھی اپنے عقل کے گھوڑوں کے مہرے ثبت کرنے کی بھرپور سعی کی اور کر رہے ہیں۔ جبکہ وہ عقل کے اندھے شعور کے لنگڑے یہ بات بھول گئے تھے کہ دین محمد ﷺ کو تو ربّ کائنات باری تعالیٰ درجہ کمال پہ پہنچا چکا ہے اور قرآن کو اس بات پہ شاہد رکھا۔

"الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضتی لکم الاسلام دینا"۔

"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا"۔ (سورۃ مائدہ: 09)

تو پھر اس میں مزید جدت پسندی اور عقلی پیوندکاری کی ضرورت کہاں بچتی ہے؟ کیا معاذالله ثم معاذاللہ، الله سے دین اسلام کو درجہ کمال تک پہنچانے میں کوئی کمی رہ گئی جو آج ہم لگے اسمیں اپنی دانست کی کھچڑی پکا رہے ہیں؟ ایسے نام تاریخ کے اوراق میں ماضی کے خزاں رسیدہ دریچوں سے بھی ملیں گے اور دور حاضر کے جدلیات پسند معاشروں سے بھی جن میں سے کوئی خود ساختہ دین اکبر بنانے کی گمراہی میں مبتلا ہوا تو کوئی خود کو رسول کہنے کے غضب میں ابتلاء رہا۔

ہنوز دور حاضر میں ہر فرد، ہر معاشرے، قوم و ملت کا یہ حال ہے کہ دین محمد ﷺ میں اپنی خود ساختہ تاویلات کو رائج کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ سورۃ الحجرات میں اِسی قبیل کے اک معاشرتی برائی کا رب کریم جل شانہ نے تذکرہ فرما کر ہمیں متنبہ کیا ہے۔ مگر افسوس کہ ہماری خود ساختہ تاویلاتی تفسیر میں اس آیت کا اور اسمیں موجود درس کا کوئی تذکرہ ہی نہیں پایا جاتا اور نہ ہمارے اعمال کا حصہ بن رہا ہے۔

سورۃ حجرات کی آیت نمبر 2 کو دیکھتے ہیں پھر اسکے تناظر میں اپنی روزمرہ کی معاشرتی زندگی پہ نظر دوڑاتے ہیں کہ اللہ ہمیں تعلیم کیا فرما رہا ہے اور ہم کر کیا رہے ہیں۔

"یا ایھا الَذِيْنَ موا لا تزْفَغُوْا أَضوَائكُمَ فوْق صَوتِ النبی ولا تجھرلہ بالقٌولِ كَجَھرِ بَغَضْكم لِبغض ان تَخَبَط أَعَفَالْكُمَ و اَنْثْم لا تَشْعْژوْنَ۔ 2"

ترجمہ: "اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبیؐ کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ "

درجہ بالا آیت کریمہ میں ربّ کریم جل شانہ ترفع صوت سے ممانعت کا حکم فرما رہا ہے اور انجام حکم عدولی پہ سارے اعمال کی اکارت کر دیے جائیں گے کی تنبیہ دی جا رہی ہے۔ لیکن قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تھی تب یہ حکم اس وقت میں موجود اصحاب جو بارگاہ نبوت ﷺ میں جسمانی طور سے حاضر ہوتے تھے اور خود محبوب مدنیؑ بھی موجود رہتے تھے۔

لیکن آج تو محبوب پاک جسمانی طور پر اسطرح سے موجود نہیں ہیں جیسے تب رہتے تھے۔ جبکہ سورت میں آیت آج بھی موجود ہے اسی معنی اور مرتبت و حکم کے ساتھ۔ تو پھر اس کے معنی اور حکم کا اطلاق کس نوعیت میں برقرار رہتا ہے کہ ہم ترفع صوت کو خاطر میں رکھ کر اپنے اعمال کی حفاظت کریں۔ بابا عرفان الحق صاحب فرماتے ہیں۔

"سورۃ الحجرات آیت 2 میں موجود حکم کا اطلاق آج بھی اسی ہی انداز میں ہماری زندگیوں میں ہوتا ہے۔ ہر وہ کام جو سنت کے عدولی کا ارتکاز رکھتا ہے اسکے منافی آ کھڑا ہوتا ہے وہی ترفع صوت کا مصداق ہے۔ "

اب عملی طور پر اسکو کیسے سمجھیں گے کہ ہم اپنے روزمرہ زندگی میں کن اعمال اور سرگرمیوں کی آڑ میں دانستہ و نادانستہ طور پر ترفع صوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جناب ابو الاعلیٰ المودودی اپنے تفسیر تفہیم القرآن میں سورۃ حجرات آیت 2 کی تفسیر میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے۔ کسی شخص کی آواز آپ کی آواز سے بلند تر نہ ہو۔ آپ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ الله کے رسولؐ سے مخاطب ہیں۔

اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپ کے ساتھ گفتگو میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کسی کو آپ سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہیے۔ یہ ادب اگرچہ نبی ﷺ کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضور ﷺ کے زمانے میں موجود تھے، مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپ کا ذکر ہو رہا ہو یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپ کی احادیث بیان کی جائیں۔

اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایماء بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اس طرح بولنا جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں ہے۔ اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔

کسی عام آدمی کی بدتمیزی بھی خلاف تہذیب حرکت ہے جبکہ ﷺ کے احترام میں ذرا سی کمی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے آدمی کی عمر بھر کی کمائی غارت ہو سکتی ہے۔ اس لیے آپ کا احترام دراصل اس خدا کا احترام ہے جس نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپ کے احترام میں کمی کے معنی خدا کے احترام میں کمی کے ہیں۔ قارئین کرام اس بابت ہماری زندگیوں میں نہایت سنجیدگی سے غور و فکر ناگزیر ہے کہ کیا ہم سب بحیثیت فرد، اجتماعی، عائلی اور معاشرتی ہر طرح کے طرز زندگی میں ترفع صوت کے مصداق اپنی آوازوں کو محبوب مدنی کے آواز مبارک پہ اونچا نہیں کر رہے؟

کیا ہم نے خلاف سنت شادیوں کو ڈھول باجوں سے کرنے کا رواج جائز اور رائج العام نہیں کر رکھا؟ بلکہ چوری پہ سینہ زوری کا کام تو یہ کر جاتے ہیں کہ ڈھول باجوں کے بنا بھی بھلا کوئی شادی ہوتی ہے؟ کا واویلا کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہمارا عائلی رویہ، کاروباری رویہ، معاشرتی رکھ رکھاؤ ان سب میں ہم نے سنت رسول ﷺ کو پیچھے نہیں رکھ چھوڑا؟ اور اپنے خود ساختہ عقلی شوشوں کو سینے سے لگا بیٹھے ہیں۔ کیا یہ ترفع صوت نہیں ہے؟

آج بے پردگی کو جس ضابطگی سے روا رکھا ہے کیا وہ سنت عدولی کا سینہ چھیر نہیں رہی؟

کیا ہم آج سود کو جائز منافع یا تجارت ہی کا مصداق نہیں ٹھہراتے۔ جھوٹ نہیں بولیں گے تو سودا کیسے بھیچیں گے کا تیقن حق کو چیلنج کرنے کے مترادف نہیں؟ کیا یہ ترفع صوت نہیں؟

کیا ہم نے غیبت کی اپنی اصطلاح خود سے دریافت نہیں کر رکھی؟ اور اس دلیل پہ کمر بستہ ہو بیٹھے ہیں کہ یہ تو میں اسکے منہ پہ بول دونگا اور یہ تو غیبت میں نہیں آتا۔ کیا یہ ترفع صوت نہیں؟

آج پھر یہ بھی دیکھ لیں ہم کتنی نمازیں، کتنی دعائیں، باقاعدہ روزے اور صدقات دیتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کتنی کوئی دعائیں قبول ہوئیں ہیں؟ آج پوری دنیا میں مسلمان پٹ رہا ہے، ذلیل و رسوا ہو رہا ہے۔ مسجدوں میں، جامعات میں، کانفرنسوں، اجتماعات میں کیا کیا دعا نہیں کرتے مگر غالب کے شعر کے بقول:

کوئی امید بھر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

کیا یہ اس بات کی علامت اور اشارہ نہیں کہ ہمارے اعمال کہیں اکارت تو نہیں کئے گئے؟ ذرا سہی پر کچھ تو سوچیں کہ الله نے قرآن میں بھی "اِن، أَنْکر الاضوَاتِ لصَوْث الحمِیرِ۔ (19)× لقمان" کہا ہے۔ جہاں گدھے کی جسمانی آواز کو (جو سب سے اونچا اور تیز ہوتا ہے) اتنا برا کہا ہے عین اسی ہی طرز پہ اعمال کے ترفع صورت کو کس نظر سے دیکھا جائے گا؟ اور ہم بھی تو وہی گدھے والا کام کر رہے ہیں کہ اعمال کی آڑ میں، اسلامی و شرعی اور حدیث و سنت کے امور میں اپنی اپنی آوازیں یعنی اعمال ہی کی صورت میں گلا پھاڑ پھاڑ کے اونچا سے اونچا کرنے کی انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔

نتائج کی صورت میں قادیانیت بھی وقت نے دیکھی اور غامدیت بھی ابھر رہی ہے۔ کیا یہ سب ترفع صورت نہیں؟ اگر ہمیں دعائیں پوری کروانی ہیں، اقوام عالم میں عزت اور مقام کے متمنی ہیں، عائلی، معاشرتی اور انفرادی زندگیوں میں سکون چاہییے تو پھر ترفع صورت کے اس رویے کو سالم ترک کرنا ہو گا۔ ترفع الاصوات کو لگام دینی ہو گی اور اتباع رسول آنکھیں بند کر کے دل کے آنکھوں سے اپنانا ہو گی۔ خالی نعروں سے، جھنڈے اور محفل میلاد کے انعقاد سے بات نہیں بننے والی۔ ورنہ نہ ہمارا اس دنیا میں کوئی حصہ رہے گا اور نہ آخرت میں کچھ کام بنے گا۔

الله کرے کہ یہ باتیں ہمارے سمجھ و عمل میں آ جائیں۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar