Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Ur Rehman
  4. Dorahe Heran Kun Hote Hain

Dorahe Heran Kun Hote Hain

دوراہے حیران کن ہوتے ہیں

برسوں پہلے کی بات ہے، درخت پہ چڑھتے ہوئے تنے سے شاخوں پر پہنچتا اور وہاں دو ٹہنیاں برابر جسامت کی موجود ہوتیں تو وہیں دوراہے پہ بیٹھ جایا کرتا تھا۔ راہ چننا کبھی بھی مسئلہ نہیں ہوتا تھا پریشانی یہ ہوتی تھی کہ ایک راستہ چنتے ہوئے دوسرے کو ترک کرنے کا افسوس ساتھ رہتا۔ تب دونوں شاخوں پہ کچھ وقت گزاری کر لی جاتی تھی۔

زندگی مگر درخت کا تنا نہیں ہوتی، یہاں دونوں راہوں پہ کھیلا نہیں جا سکتا۔

عمومی طور پر تیز بارشوں میں چڑیا بھیگ کر آنگن میں اتر آتی ہے بوندوں کی ماری، جاڑے سے آفسردہ، گھونسلے سے دور، گرمی کی تلاش میں اتری یہ چڑیا مجھ بچے کے ہاتھ لگتی ہے تو اسے تولیے سے سکھا کر حفاظت کے لئے پنجرے میں رکھ دیتا ہوں۔ رات گزرتی ہے اگلا دن آتا ہے تو دوراہا سامنے ہوتا ہے۔ اسے آزاد کیا جائے یا اپنے پاس رکھا جائے۔ وہ پرندہ اڑ سکتا تھا مگر ڈر تھا کہ آزاد کیا تو کسی بلی کا شکار ہو جائے گا۔ اس دوراہے پر مجھ بچے نے کہا کہ ایک دو دن چڑیا سے مزید کھیلا جانا چاہئے۔ دن بھر چڑیا کو کھلایا پلایا، پھر رات آئی اور صبح ہوئی۔ پنجرے کے پاس چڑیا کے پَر بکھرے تھے۔ بلی اپنا لقمہ اُچک چکی تھی۔ دوراہا غلط ہوگیا تھا اور زندگی دوسرا موقع دینے کی روادار نہیں تھی۔ دوراہے اسی لئے حیران کن ہوتے ہیں۔

پروفیشنل زندگی کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ ایک پراجیکٹ پر کچھ مہینے کام کیا، مکمل ہوا تو رقم دینے والا کوئی جواری ذہن کا بندا نکلا۔ کہنے لگا پانچ لاکھ نقد لے جاؤ یا یہ سکہ اچھالتے ہیں۔ ٹاس کرتے ہیں۔ تم جیتے تو تیس لاکھ تمہارے، ہار گئے تو کچھ نہ ملے گا۔ یہ عجیب دوراہا تھا۔ ایک طرف لالچ اور طمع تھی دوسری طرف کچھ مہینے کی محنت تھی۔ یہاں آ کر کیلکولیشن اور لاجک کے ساتھ جذبات اور حرص مل جاتے ہیں۔ ڈر بھی ساتھ ہی شامل ہوتا ہے۔ یہ دوراہے دہرائے نہیں جا سکتے۔ سکے کے دو اطراف فیصلہ کرتے ہیں کہ آئیندہ زندگی کیسی ہوگی۔ دھات کا یہ ٹکڑا ہمارے ساتھ ساتھ ہم سے جڑے دوستوں، گھر والوں اور رشتہ داروں کے مستقبل کو بدلنے کی صلاحیت لئے ہوتا ہے۔

ہماری خواہشات خسرو کے دوراہے چاہتی ہے۔ خسرو بازی پریم کی جو میں کھیلی پی کے سنگ، جیت گئی تو پیا مورے، جو میں ہاری پی کے سنگ۔ مگر زندگی خسرو نہیں، بلکہ جواری کے سکے سامنے رکھتی ہے۔ بدلے میں چڑیا اور بلی کا کھیل پیش کرتی ہے۔ ان دوراہوں پہ شجر کی ٹہنی کی طرح بیٹھا بھی نہیں جا سکتا۔ وقت کا دریا اتنی مہلت نہیں دیتا کہ زیادہ سوچا جائے۔ اور جتنا بھی زیادہ سوچ لیا جائے چناؤ دریا کے کسی ایک کنارے کا کرنا ہی پڑتا ہے۔

ہم کشتی کو دو کناروں پہ بیک وقت نہیں اتار سکتے۔ یکے بعد دیگرے بھی نہیں اتار سکتے۔ پانچ لاکھ اور تیس لاکھ میں بہت فرق نہ ہوتا تو فیصلہ بھی آسان ہوتا۔ شطرنج یہی سکھاتا ہے کہ ہر ایک قدم مستقبل پر اثر انداز ہوتا ہے، اور ہر جیت ہار کے زمہ دار صرف ہم ہوتے ہیں۔ سکہ ہمارا فیصلہ کر سکتا ہے مگر یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ سکے کو اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے دیں یا نہ دیں۔

دوراہے اسی لئے حیران کن ہوتے ہیں۔

Check Also

Heera Mandi

By Sanober Nazir