1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Ur Rehman
  4. Sara Muamla Ikhtiyar Ka Hai

Sara Muamla Ikhtiyar Ka Hai

سارا معاملہ اختیار کا ہے

کراچی کے بقائی ہسپتال میں اپنے ایک عزیز کے ساتھ تھا، انہیں جگر کا عارضہ لاحق تھا۔ وہاں دو بیڈ تھے۔ دوسرے بیڈ پر ایک صاحب ایڈمٹ ہوئے۔ بدن بولی سے زی وقار لگتے تھے۔ تخاطب بھی پُرلطف اور باادب تھا۔ میں وہیں صوفے پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ وقفے وقفے سے کچھ نرس اور ڈاکٹر آتے اور ان سے مسکراتے ہوئے حال دریافت کرتے۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور استفسار کیا کہ کیا آپ یہاں اکثر آتے ہیں، سبھی آپ کو کیسے جانتے ہیں؟

کہنے لگے۔

میں ڈاکٹر ہوں اور یہاں ڈیوٹی کرتا رہا ہوں۔ بیمار نہیں ہوں بس ذرا چھٹی گزارنے اور پرسکون رہنے کا اِرادہ ہوا تو یہاں داخل ہوگیا۔ تین دن تک کوئی کام، کوئی میٹنگ، کوئی عزیز رشتہ دار، کوئی موبائل فون اور کوئی گھر والا نہیں ہوگا۔ میں یہاں پرسکون چھٹی گزارنے آیا ہوں۔

عجب ڈاکٹر تھا۔ اس سے پہلے میں نے ہسپتال کے بستر کو ہمیشہ کٹھن و دشوار مقام سمجھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی اس گفتگو نے مجھے سکھایا کہ کربناک جگہ اور ناگوار مقام کوئی بھی ہو، اگر اختیاری ہو تو نعمت ہے، تعیش ہے، مقامِ شوق ہے۔ یہاں میرے پاس میر کا دیوان ہے، اس میں ایک جگہ یہی درج ہے کہ

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا۔

تو ہسپتال کا بستر ہی کیوں نہ ہو اگر اسے پرسکون وقت گزاری سمجھ لیا جائے تو چہرہ بشاش ہو جاتا ہے۔ بس وہم و خیال کی بات ہے، سمجھ لینے کی بات ہے، جو سمجھ لیا جائے وہی اصل ہوتا ہے۔

یہ دس سال پہلے ملنے والے ڈاکٹر صاحب آج نجانے کہاں ہوں گے، مگر انہوں نے جو سبق سکھایا تھا وہ آج میرا بنیادی سرمایہ ہے۔ میں آج ویسے ہی بستر پر ہوں اور یہ ہسپتال اس سے کئی بہتر ہے یعنی میں اس سے بڑے ہوٹل میں، اس سے بڑی تقریب میں ہوں اور سچ پوچھیں تو اتنی نرس اور ڈاکٹر ان سے ملنے نہیں آتی تھیں جتنی دن بھر میں میری خیریت اور صحت دریافت کرنے آتی ہیں۔ میں یہاں شوق سے آیا ہوں اور مسکرا کر آیا ہوں، سمجھیں چُھٹی منانے آیا ہوں۔ سٹاف سے مزاق بھی کر لیتا ہوں۔ وہ مجھے دیکھ کر افسوس ناک چہرہ بناتے ہیں میں انہیں دیکھ کر مسکراتا ہوں اور انہیں آتے دیکھتا ہوں تو پوچھتا ہوں

اور جان من آج مجھ میں کتنے اضافی چھید کرو گے؟

جب میڈیسن لا کر کہتے ہیں کہ آپ کی دو تین گولیاں ہیں تو کہتا ہوں کہ بچپن سے دو ہی ہیں تین نجانے کس کی ہوتی ہیں۔ یہ سن کر وہ ہنس دیتے ہیں کہتے ہیں تم عجب درویش ہو۔ لیکن میں درویش تب ہوتا جب علاج سے بے نیاز ہو کر گھر بیٹھا رہتا۔ سب چھوڑ چھاڑ دیتا۔ میں تو یہاں چھٹی انجوائے کر رہا ہوں۔ مزے لگے ہوئے ہیں۔

Check Also

Muhabbat Se Kab Tak Bhago Ge?

By Qurratulain Shoaib