Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shahzad Malik/
  4. Be Ghari Azaab Hai Ya Rab

Be Ghari Azaab Hai Ya Rab

بے گھری عذاب ہے یا رب

قیام پاکستان کے بعد بھارت میں رہ جانے والے اپنے نئے گھر کے بدلے میں ابا جی نے کلیم داخل کرایا تو شاہ پور صدر میں حکومت کی طرف سے ایک بڑا گھر ابا جی کو الاٹ کردیا گیا۔ اگرچہ ہمارا پورا خاندان گوجرانوالہ کے گاؤں چک رامداس میں قیام پذیر ہو چکا تھا اور اباجی کی کوشش بھی یہی تھی کہ اگر حکومت کی طرف سے گھر ملنا ہے تو گوجرانوالہ شہر میں ملے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جب ابا جی کی پوسٹنگ شاہ پور میں تھی تو اس دوران کلیم پر گھر بھی ادھر ہی الاٹ ہوگیا اور ہم کرائے کے گھر سے اپنے گھر میں منتقل ہو گئے۔

گھر بہت بڑا اور خوبصورت طرز تعمیر کا حامل تین منزلہ تھا، بڑے سے صحن کے ایک طرف سڑک اور داخلی دروازے کے اطراف تین کمرے تھے دوسری طرف دو کمرے اور ان کے آگے چھوٹا سا برآمدہ تھا تیسری طرف باورچی خانہ اور اس کے ساتھ ایک کمرہ تھا۔ کونے میں غسل خانہ تھا چوتھی طرف دیوار میں صرف دروازہ تھا جو باہر گلی میں کھلتا تھا مگر جو ہمیشہ بند ہی رہتا تھا۔ پہلی منزل پر ایک طرف نیچے والے کمروں کے اوپر دو کمرے اور ان کے آگے برآمدہ تھا دوسری طرف صرف لکڑی کی بڑی بڑی محرابوں والا برآمدہ تھا سب سے اوپر چھت پر سڑک کی طرف بارہ دری کی طرز کا ایک بڑا سا کمرہ تھا جس کے چاروں طرف بڑے بڑے دروازے کمرے کے گرد بنی بالکونیوں میں کھلتے تھے۔

گھر کی تعمیر میں لکڑی کا بہت اچھا استعمال ہوا تھا دروازے کھڑکیاں برآمدوں کی محرابیں اور ریلنگ سب لکڑی کے تھے۔ میں اگرچہ بہت چھوٹی تھی لیکن اس گھر کی تفصیل مجھے یاد ہے اتنا بڑا گھر ملنے کی خوشی تو سب کو تھی مگر شہر کے کرائے کے گھر جیسی رونق نہیں تھی وہ بارونق اور گہما گہمی والے بازار میں واقع تھا اور یہ نیا گھر صدر کے علاقے میں تھا چند گھروں کی لائن کے سامنے وسیع میدان تھا۔

دونوں چچا جان بھی جہاں اپنے الگ الگ کمرے ملنے پر خوش تھے وہاں اس علاقے کے سکون اور خاموشی میں شہر کی رونق کے لئے اداس بھی تھے لیکن اپنا گھر ہونے کا احساس بڑا طمانیت بخش تھا۔ دونوں چچا تو ہمارے ساتھ ہی تھے ابا جی نے بڑی کوشش کی کہ ماں جی اور بابا جی بھی ہمارے پاس ہی آجائیں تاکہ پوری فیملی اکٹھی رہے اتنے بڑے گھر میں جگہ کی کوئی کمی نہ تھی لیکن بابا جی نہیں مانے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابا جی تو سرکاری ملازم ہیں ہر دو تین سال بعد ایک سے دوسرے شہر میں تبادلہ ہوتا رہے گا وہ نہ تو ساتھ ساتھ گھسٹتے پھریں گے نہ ہی شاہ پور صدر کے اس اتنے بڑے گھر میں اکیلے رہ سکیں گے۔ چک رامداس میں تو پورا خاندان آباد ہے وہ بھی وہاں ہی رہیں گے بابا جی کو زمین بھی چک رامداس میں ہی الاٹ ہوچکی تھی اس لئے وہ گاؤں چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئے۔ دونوں چچا جان شہر کے سکول میں جاتے رہے مجھے ابا جی نے صدر کے گورنمنٹ کرلز ہائی سکول میں داخل کرا دیا زندگی اپنی ڈگر پر چلنے لگی۔

ابا جی کے دفتر میں ان کے ایک ساتھی تھے جنہیں سب لوگ شاہ جی کہہ کر پکارتے تھے عیال دار آدمی تھے بھارت سے ہی ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ دفتر کی تنخواہ میں گھر کا کرایہ دینے کے بعد بڑی تنگی سے گذارہ کرتے تھے کلیم کا مکان ان کے والد کے نام دوسرے شہر میں الاٹ ہوا تھا جہاں والدین اور باقی بہن بھائی رہتے تھے۔ شاہ جی کی پوزیشن ایسی تھی کہ وہ مستقل ایک ہی جگہ رہنے والے تھے جگہ جگہ تبادلے والی ملازمت نہیں تھی۔ شہر میں کرایہ ذیادہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے شہر کے مضافات میں گھر لے رکھا تھا جہاں سے وہ سائیکل پر دفتر آتے جاتے تھے نہایت شریف اور نیک دل آدمی تھے ابا جی کی ان کے ساتھ بڑی دوستی ہوگئی تھی۔

نئے گھر میں رہتے ہوئے چھ سات ماہ ہو چکے تھے مگر کسی کا دل نہیں لگتا تھا۔ گھر ہماری ضرورت سے بہت بڑا تھا نچلی منزل کے ایک طرف والے کمرے ہی ہم سب کے لئے کافی تھے دوسری طرف کا حصہ اور اوپر والی منزل خالی پڑے تھے سب سے اوپر والا بارہ دری نما کمرہ ہوا دار ہونے کی وجہ سے گرمی میں دونوں چچا اور میں وہاں وقت گذارا کرتے تھے باقی خالی گھر بھائیں بھائیں کرتا رہتا تھا۔

ایک دن ابا جی دفتر سے آئے تو کسی گہری سوچ میں پڑے ہوئے تھے امی جان کے پوچھنے پر بولے کہ شاہ جی آج بہت پریشان تھے اتنی دور سے روزانہ سائیکل پر آنے سے ان کی کمر میں درد رہنے لگا ہے۔ پبلک سواری پر آنے جانے کی گنجائش نہیں ہے سمجھ نہیں پارہا کہ اس مسئلے کا کیا حل کروں ان کی بات نے ابا جی کو بھی پریشان کر دیا۔ گھر آکر بھی وہ اسی سوچ میں گم تھے کہ اپنے شریف اور مخلص دوست کی پریشانی کا کیا حل کروں اچانک جیسے انہیں کسی خیال نے چونکا دیا۔ انہوں نے امی جان سے مشورہ کیا کہ ہمارا یہ گھر ہماری ضرورت سے بہت بڑا ہے والدین یہاں آنے اور رہنے کے لئے راضی نہیں ہیں ہم نے بھی یہاں مستقل نہیں رہنا تو کیوں نہ ہم اپنے گھر کا ایک حصہ شاہ جی کو رہنے کے لئے دے دیں امی نے اپنی پرائیویسی خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تو وقتی طور پر چپ ہوگئے۔

امی جان اتنے بڑے گھر کی دیکھ بھال اور اپنے اکیلے پن سے عاجز تو آئی ہوئی تھیں سوچتی رہیں کہ اگر دو کمروں اور برآمدے والا اوپر نیچے کا حصہ الگ کرکے شاہ جی کو دے دیا جائے تو پھر ہمیں کوئی مشکل نہ ہوگی بلکہ رونق ہوجائے گی۔ امی نے ابا جی کو یہ حل پیش کیا تو وہ خوش ہوگئے۔ شاہ جی کو اپنے گھر آجانے کی پیش کش کی تو وہ فرط جذبات سے رونے لگ گئے انہیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ دنیا میں ایسے بے لوث لوگ بھی ہوتے ہیں جو بغیر کسی مطلب کے یوں دوسروں کی مشکل حل کر سکتے ہیں مگر ابا جی اپنے بچپن اور نو جوانی کے دنوں میں اپنے والدین کو بے گھری کا عذاب جھیلتے ہوئے دیکھ چکے تھے اس لئے وہ شاہ جی کی مصیبت کا اندازہ لگا سکتے تھے اور اب جب کہ ان کے پاس رہنے کے لئے اپنی ضرورت سے ذیادہ جگہ تھی تو وہ ایک نیک ایماندار اور شریف انسان کو اس عذاب سے نکالنا چاہتے تھے امی اور ابا جی نے کھلے دل سے یہ فیصلہ کیا اور شاہ جی نے احسان مندی کے جذبات کے ساتھ اس پیشکش کو قبول کر لیا۔

چند دنوں بعد شاہ جی کی فیملی ہمارے گھر کے آدھے حصے میں منتقل ہوگئی گھر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے پکی دیواریں کھڑی کرنے کی بجائے نچلے برآمدے کے آگے چق کا پردہ بنا دیا گیا شاہ جی کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ دو بڑے بیٹے جو میرے دونوں چچاؤں کے ہم عمر ہی تھے وہ اوپر والے کمروں میں اور دو بیٹیاں اور سب سے چھوٹا بیٹا جو تین چار سال کا تھا۔ شاہ جی اور ان کی بیگم نیچے والے کمروں میں ٹھہر گئے میرے چچا اپنے ہم عمر دوستوں کو پا کر بہت خوش تھے۔ ان کی بیٹیاں بھی مجھ سے اور چھوٹے بھائی سے بہت پیار کرتی تھیں شاہ جی کی بیوی بہت با اخلاق ملنسار اور ہمدرد خاتون تھیں اور تھوڑے ہی عرصے میں امی اور وہ سگی بہنوں کی طرح ایک دوسری کی دکھ سکھ کی ساتھی بن گئیں۔

ابا جی اور شاہ جی تو پہلے سے ہی دوست اور کولیگ تھے ان لوگوں کے آنے سے گھر میں رونق اور گہما گہمی ہوگئی صبح ابا جی اور شاہ جی اکٹھے دفتر جاتے دونوں چچا اور شاہ جی کے دونوں بیٹے سکول چلے جاتے امی اور شاہ جی کی بیگم جنہیں میں خالہ جی کہتی تھی کام کاج سے فارغ ہوکر گپیں لگاتیں۔ وہ امی جان سے عمر میں کافی بڑی تھیں اور بالکل بڑی بہنوں سے بھی بڑھ کر ماں کی طرح امی کا خیال رکھنے لگیں۔ ان کے آنے سے امی کو بھی بہت ڈھارس ہوگئی ہم دو خاندان جن کا آپس میں کوئی رشتہ نہ تھا وہ سید ہم اعوان وہ پانی پت کے مہاجر اور ہم پنجابی وہ شاہ پور میں مستقل رہائش رکھنے کا ارادہ رکھنے والے اور ہمارے ابا جی جن کا شاہ پور سے صرف ملازمت کی وجہ سے وقتی تعلق مگر ہم دو گھرانوں کا آپس کا سلوک دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان لوگوں میں کوئی رشتہ اور تعلق نہیں ہے۔

امی جان شاہ جی سے پردہ کرتی تھیں دونوں بڑے لڑکوں سے اگرچہ پردہ نہیں کرتی تھی کہ وہ میرے چچا لوگوں جیسے ہی تھے مگر وہ دونوں ذیادہ تر اوپر اپنے کمروں تک ہی محدود رہتے۔ خالہ جی ابا جی سے پردہ تو نہیں کرتی تھیں تاہم ان کی موجودگی میں ہمارے پورشن میں نہیں آتی تھیں یوں ایک دوسرے کی پرائیویسی میں مخل ہوئے بغیر بہترین تعلقات کے ساتھ ہمارا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا ان کے ساتھ رہتے ہوئے کئی بار ایسے واقعات ہوئے کہ وہ ہمارے لئے فرشتۂ رحمت ثابت ہوئے ان کا احوال پھر بیان کروں گی۔

Check Also

Nineties Ke Ashiq

By Khateeb Ahmad