1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sultan Ahmed/
  4. Akhri Aath Ghante

Akhri Aath Ghante

آخری آٹھ گھنٹے

یہ کہانی ایک انٹرویو سے شروع ہوتی ہے جس میں ایک انتہائی کامیاب ملازمت پیشہ شخص فخر سے اپنی کمپنی کی طرف سے دی جانے والی مراعات اور پرکشش تنخواہ کا ذکر کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اس کی ایک گھنٹے کی تنخواہ 500 ڈالر بنتی ہے۔ وہ شخص اپنی ملازمت سے مکمل طور پر مطمئن اور خوشحال ہے۔ وہ ایک اچھی زندگی گزار رہا ہے، اس کا بیٹا اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے، اس کی بیوی اور وہ چیرٹی بھی کرتے ہیں اور مہنگائی انہیں ڈسنے سے قاصر ہے۔

اسی شام یہ شخص جب اپنی لگژری گاڑی میں سوار ہو کر گھر پہنچتا ہے تو اس کا بیٹا دروازے پر اس کا منتظر ہوتا ہے۔ وہ آگے بڑھ کر بیٹے کو اٹھا کر ہے اور گھر میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کا بیٹا اس سے 50 ڈالر مانگتا ہے۔ وہ شخص حیرت سے بیٹے کو دیکھ کر اپنے والٹ سے 50 ڈالر کا نوٹ نکال کر ہوا میں لہراتا ہے، پھر اپنے بیٹے کو تھماتے ہوئے مسکرا کر کہتا ہے کہ تمہیں اس کی کیا ضرورت پیش آگئی؟

اس کا بیٹا وہ 50 ڈالر اپنے پاس پہلے سے موجود 450 ڈالر میں شامل کرکے اپنے باپ کی طرف بڑھا کر کہتا ہے کہ یہ لیں آپ کے ایک گھنٹے کی قیمت۔ اسے اپنے والد کا ایک گھنٹہ خریدنا ہے جس میں وہ صرف اپنے بیٹے کو وقت دے، اس کے ساتھ کھیلے، اسے پیار کرے اور اس کی دن بھر کی مصروفیت سنے۔ اپنے بیٹے کا جواب سن کر اسے اپنے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی اور سر پر آسمان ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

آج کی دنیا میں کسی بھی خطے، علاقے، پیشے یا صنعت سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کے لیے تشویش کا ایک بڑا مسئلہ کام کی زندگی میں توازن یعنی ورک لائف بیلنس ہے۔ لوگ اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی دونوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ایک خوشگوار متوازن زندگی کے حصول کے لیے ہر ممکن آپشن تلاش کرنے کی سخت کوشش کرتے ہیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت خواہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کسی بھی سطح پر کیوں نہ ہوں، اس مقصد کو حاصل کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔

عمومی طور پر ایک ملازمت پیشہ شخص اوسطاً 12 گھنٹے دفتر یا سفر میں گزارتا ہے۔ باقی 12 گھنٹے کا بیلنس یا تو سونے (8 گھنٹے) یا روزانہ کی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ، ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں لوگوں کو اہم کام کی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے گھر کے کوٹے سے وقت نکالنا پڑتا ہے اور اس پر صرف ہونے والا وقت ان کی نیند یا ذاتی سرگرمیوں سے کٹ جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، دفتر میں ایک مصروف دن گزارنے کے بعد، زندگی کی ذاتی یا سماجی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے وقت نہیں بچتا۔ مزید برآں، وقت کی یہی کمی ایک طرف صحت جیسی نعمت میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے تو دوسری طرف رشتوں سے دوری کی بڑی وجہ۔

8-8-8 کا اصول مندرجہ بالا مسئلہ کا ایک مؤثر حل ہے۔ اگر یہ مسئلہ کو مکمل طور پر حل نہیں کرسکتا ہے تو بھی نتائج کافی مثبت ہوں گے۔ یہ اصول بنیادی طور پر ٹائم مینجمنٹ کی ایک ٹیکنیک ہے جس کے مطابق ایک شخص کو 8 گھنٹے کام پر، 8 گھنٹے سونے کے لیے اور 8 گھنٹے اپنی ذاتی اور سماجی سرگرمیوں کے لیے گزارنا چاہیے۔ آخر کے آٹھ گھنٹے تین حصوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ اس میں 3 ایف ہیں یعنی فرینڈ، فیملی اور فیتھ۔ 3 ایچ ہیں یعنی ہیلتھ، ہائجین اور ہوبی(مشغلہ) اور 3 ایس ہیں یعنی سول (soul)، سروس اور اسمائل۔

ہم اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں پہلے کہ ان آٹھ گھنٹوں کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں جو ہمارے کام یا ملازمت کی جگہ پر گزرتے ہیں، یہ آٹھ گھنٹے ایسا کام کرتے ہوئے گزرتے ہیں جو ہم دوسروں کے لیے کرتے ہیں۔ ہم ان کی کوالٹی پر کمپرومائز نہیں کرنا چاہتے۔ یہ وہ آٹھ گھنٹے ہیں جو ہم نے ضرور پورے کرنے ہیں۔ دوسرے آٹھ گھنٹے سونے اور آرام کے لیے وقف ہونے چاہیے۔ اگرچہ اس سے کم میں بھی گزارا ہو سکتا ہے مگر اس کا تاوان ہماری صحت کو ادا کرنا پڑے گا۔

نیند کی کمی بھی ایک بیماری ہے۔ نیند کی کمی کام، اسکول، ڈرائیونگ اور سماجی کام میں مداخلت کر سکتی ہے۔ آپ کو سیکھنے، توجہ مرکوز کرنے اور ردعمل ظاہر کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ یہ غلط فیصلے بھی کروا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو دوسرے لوگوں کے جذبات اور ردعمل کا فیصلہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ نیند کی کمی جسم اور ذہن دونوں کے لیے مہلک ہے۔

تیسرے اور آخری آٹھ گھنٹے انتہائی اہم ہیں، ہماری اصل زندگی یہی ہیں جو ہم نے جینی ہے۔ پہلے آٹھ گھنٹے روپیہ پیسہ کمانے کے لیے ضروری ہیں تو دوسرے آٹھ گھنٹے آرام کرنے کے لیے۔ آخری آٹھ گھنٹے اس کمائی ہوئی دولت اور آرام کرکے حاصل کی گئی توانائی کو انجوائے کرنے کے ہیں۔ انہی آٹھ گھنٹوں میں ہماری فیملی اور فرینڈز شامل ہیں اور یہ دونوں ہمارے لیے اینٹی بائیوٹک کا کام کرتے ہیں۔ یہ دکھوں کا مداوہ ہیں اور خوشیوں میں سانجھے دار۔ انہی سے زندگی کے سارے رنگ، ذائقے، خوشبوئیں اور بہاریں ہیں۔ اگر ہماری زندگی کی بیلنس شیٹ میں ان کا حصہ نہیں ہے تو یہ بیلنس شیٹ منفی ہے۔

مذہب کا کوٹہ بھی انہی آخری آٹھ گھنٹوں میں شامل ہے، اس سے جڑے رہنا بھی ضروری۔ قدرت نے ہر عبادت کو وقت کے ساتھ نتھی کیا ہے، نماز کے اوقات کار طے ہیں اور یہ وقت پر ادا کی جائے گی، روزے اپنے مقررہ وقت پر ہی فرض ہوں گے۔ اسی طرح زکوۃ کی فرضیت بھی وقت کے ساتھ متعین ہے اور حج کی ادائیگی بھی وقت کے ساتھ جڑی ہے۔ یوں وقت کے ساتھ قدرت نے عبادت کو جوڑ کر یہ واضح میسج دیا ہے کہ زندگی میں بیلنس ضروری ہے۔ صحت و صفائی اور من پسند سرگرمیاں یا مشاغل بھی انہی آٹھ گھنٹوں میں شامل ہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے جیسے انمول موتی یہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ محض صفائی ستھرائی کا اہتمام ہی صحت جیسی انمول نعمت کے حصول میں مددگار ہے۔

پہلے کے آٹھ گھنٹے جو کام یا ملازمت پر گزارنے ہیں یا سونے والے آٹھ گھنٹے، دونوں کو بھرپور انداز میں پورا کرنے کے لیے صحت کا ہونا ضروری ہے بصورت دیگر ہماری نیند ایک خواب اور ملازمت ایک عذاب بن جائیں گے۔ قدرت نے زندگی کو تنوع میں پیدا کیا ہے، اس میں کسی ایک کام کے مسلسل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس سے انسانی دماغ بور ہو جاتا ہے اور اسے سکون کی تلاش کے لیے کسی نہ کسی مشغلے کو اپنانا پڑتا ہے۔ زندگی میں ایسی ہلکی پھلکی سرگرمیاں اور مشغلے وہ سیڑھیاں ہیں جن پر روزانہ چڑھ کر ہم صحت کے درخت تک پہنچ کر اس کا پھل انجوائے کر سکتے ہیں۔

آخر کے ہی آٹھ گھنٹوں میں ہمارا ذاتی وقت بھی قید ہے جو عموما دیگر مصروفیات میں فیاضی سے بانٹ دیا جاتا ہے۔ ہمارا ایک رشتہ خود سے بھی ہے جسے برقرار رکھنے اور نبھانے کے لیے خود احتسابی کرنی ضروری ہے، اسی میں روح کی پاکیزگی چھپی ہے۔ روح صاف ستھری ہوگی تبھی انسان دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی سعی کرےگا۔ خوشی ایک ایسا عمل جس کے دوسری طرف اطمینان ہے اور مدد کے دوسرے سرے پر نیکی ہے۔ یہ ہمارے مذہب کا افتخار ہے کہ اس نے مسکراہٹ کو بھی صدقہ قرار دیا ہے۔

اپنے مصروف وقت میں مسکراہٹ کی تھراپی بھی شامل رہنی چاہیئے اس سے نہ صرف چہرے کے مسلز توانا رہتے ہیں بلکہ ذہن پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ زندگی گھڑی کی سوئیاں دیکھ کر نہیں گزاری جا سکتی، نہ ہی یہ کوئی کیلنڈر ہے کہ جسے روز وقت کی پابندی کے ساتھ تبدیل کرنا پڑے مگر اس زندگی میں بیلنس ہی اصل بیلنس شیٹ ہے ورنہ حیات تو جانوروں کو بھی عطا کی گئی ہے۔

Check Also

Zindagi Ka Khoya Hua Sira

By Javed Chaudhry