1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sultan Ahmed/
  4. Eid Ul Azha, Aik Azeem Muashi Sargarmi

Eid Ul Azha, Aik Azeem Muashi Sargarmi

عید الاضحی، ایک عظیم معاشی سرگرمی

عید الاضحی، ایک عظیم قربانی کی یاد، ایک فرمانبرداری کی بے مثال داستان، ایک سچے خواب کی تعبیر، ایک تہوار، ایک روایت، اجتماعیت، ایک درس، خوشی و سرشاری کی کیفیت، ایک سنّت، اورانفرادیت سے اجتماعیت تک عبادت۔

اس عید کی کئی جہتیں ہیں۔ یقینآ ان جہتوں میں مذہبیت کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس عید سے ہم انفرادی سے لے کر اجتماعی مقاصدو فوائد حاصل کرتے ہیں۔ آج ہم اس عید کے ان ثمرات پر گفتگو کرینگے جو اکثر پوشیدہ رہ جاتے ہیں یعنی معاشی ثمرات۔

بلا شبہ عید الاضحی ایک بہت بڑی معاشی سرگرمی بھی ہے۔ پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے اعدادو شمار کے مطابق 25 کروڑ ڈالرز کے جانور عید پر فروخت کیئے جاتے ہیں۔ اس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ رقم پاکستانی کرنسی میں 50 ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق 80 لاکھ سے زیادہ جانور عیدقربان پر فروخت کئے جاتےہیں۔ ان میں تین لاکھ سے زیادہ گائے بیل، پانچ لاکھ سے زیادہ بکرے، دس لاکھ سے زیادہ بھیڑیں اور ایک لاکھ سے زیادہ اونٹ فروخت کئے جاتے ہیں۔

یاد رہے کے یہ 50 ارب صرف جانوروں کی خریدو فروخت سے حاصل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بے شمار منڈیاں سڑکوں، چوراہوں، میدانوں اور گلی گلی محلے محلے اور گاؤں گاؤں سجتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ اسی طرح جانوروں کی کھال سے حاصل شدہ آمدنی اور کھال سے بننے والی مصنوعات بھی نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر خاطر خواہ زرمبادلہ میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ دوسری طرف جانور اندرون ملک سے منڈیوں تک لانے کے لئے گاڑیوں اور ایندھن کا استمعال اور ان سے وابستہ افراد اور خاندان۔۔ اس ضمن میں کروڑوں روپے کی سرگرمی جنم لیتی ہے۔

وقت کے ساتھ زمانہ کروٹیں بدلتا ہے اور رسم و رواج اور تہوار میں نت نئی جدتیں جڑتی چلی جاتی ہیں۔ عید الاضحی بھی ان جدتوں سے مستثنیٰ نہیں۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اپنے بکرے کے ساتھ سیلفی لینا، ویڈیوز پوسٹ کرنا، منڈی سے کورج دکھانا سب آجکل کا ٹرینڈ ہے۔ بالکل اسی طرح جانوروں کی سجاوٹ اور آسائش پر بھی خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک نئی انڈسٹری جنم لے چکی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے ادارے ناپید ہیں جو عیدین کے ان پہلووں پر باقاعدہ ریسرچ کرکے ڈیٹا مرتب کریں۔

آج بلاشبہ لاکھوں لوگ اس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر تہوار پر اسے کیش میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بڑی عید پر بلا مبالغہ 2 سے 3 ارب روپے اس مد میں خرچ کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح چارہ کا کاروبار، چھریاں، ٹوکے وغیرہ، چٹایاں، تمبو قناتیں، قیمہ بنانے کا کام، پائے بنانے کا کام، قصائی کی خدمات، صفائی کی خدمت پر مامور ملازمین اور بے شمار ایسی مصنوعات اور کام ہیں جن سے کثیر رقم گردش کرتی ہے اور معیشت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے۔ یہاں اس ضمن میں یہ بھی عرض ہے کے اگر صاحب حیثیت حضرات مہنگا جانورخرید لاتے ہیں تو حسن زن رکھتے ہوئے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس جانور کی قیمت کتنے لوگوں کی زندگی میں خیر لائے گی کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے جانوروں کے لئے کئی ملازمین رکھے جاتے ہیں جو بےچارے اپنی روزی روٹی کا سامان چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں۔

دنیا میں بہت سی مصنوعات لمیٹڈ ایڈیشنز میں بنتی ہیں، ان کے خریدار بھی کم ہی ہوتے ہیں۔ ان مصنوعات میں گھڑیاں قلم گاڑیاں موبائل فون مہنگے ملبوسات ہینڈ بیگز جوتے پرفیوم وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا کی مہنگی ترین گھڑی مشہور امریکی ریٹائرڈ باکسر فلویڈ مے ویدر کی ملکیت ہے، اس گھڑی کی مالیت اٹھارہ ملین ڈالر ہے یہ رقم پاکستانی کرنسی میں پانچ ارب 12 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کا مشہور امبانی گروپ جس کی بنیاد دیروبھائی امبانی نے رکھی، اسی دیرو بھائی امبانی کی 88 سالہ بیوی کوکیلابین امبانی کے پاس دنیا کا مہنگا ترین ہینڈ بیگ ہے۔ اسی امبانی گروپ کے موجودہ سربراہ مکیش امبانی جو کہ بھارت کا امیر ترین شخص ہے، کی بیوی نیتا امبانی کے پاس دنیا کا مہنگا ترین موبائل فون جس کی مالیت 48.5 ملین ڈالر(13 ارب روپے) ہے۔

مشہور فٹبالر رونالڈو دنیا کی مہنگی ترین کار کا مالک ہے۔ اب ذرا ان اداروں (کارخانوں) کے بارے میں سوچیں جو مہنگی اشیاء ایسے دولت مند لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو انہیں افورڈ کر سکتے ہیں، یہ ان لوگوں کا ہنر اور مہارت ہے جو دراصل وہ بیچتے ہیں۔ اسی طرح خوبصورت جانور پالنا، انہیں مہنگے داموں بیچنا اور خریدنا ایک "نارمل" عمل ہے جس سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ آخر میکڈونلڈز اور کے ایف سی کا کاروبار بھی تو دنیا بھر میں چل ہی رہا ہے اور ان کے گاہک عام انسان نہیں۔ باقی رہی بات نمود و نمائش اور دکھاوے کی تو دلوں کے حال اور نیتوں سے واقف خدا کی ذات ہے کہ جس کی بارگاہ میں نہ قربانی کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون۔

ہمارے ارد گرد ہی ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہیں خاص طور پر اس بڑی عید سے بڑی شدید چڑ محسوس ہوتی ہے، ان کے نزدیک ایک دن میں اتنے زیادہ جانوروں کا خون بہانا ظلم کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عید الاضحی کی نذرکیا جانے والا پیسہ انسانیت کی فلاح و بہبود پر استعمال ہونا چاہیے۔ تعصب اور نفرت کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو اس ایک دن کی معاشی سرگرمی سے دراصل انسانیت کی فلاح و بہبود ہی ممکن بنائی جا رہی ہے کہ نہ صرف ملک میں غرباء بلکہ ان دور دراز کے ملکوں تک بھی قربانی کا گوشت پہنچایا جاتا ہے جہاں بھوک اور افلاس انسانی جانیں لے رہے ہیں، اور خدائے رحمان کا یہ فرمان کہ قربانی کے ایام میں تمہارا کوئی صدقہ خیرات قربانی کے مثل نہیں ہو سکتا تو یہ خدائے برتر کا حکم بھی ہے کہ ان ایام میں اہتمام کے ساتھ قربانی کی جائے، اپنی انا، تعصب، نفرت، حسد اور ضد کو بھی قربان کر دیا جائے۔

ایسے نام نہاد انسانیت کے چیمپیئن یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مہنگا جانور خریدنے والے مخیر حضرات صدقہ و خیرات اور غریبوں کی مدد سے گریز کرتے ہیں۔ تصویر کا دوسرا اور بھیانک رخ بھی دیکھئے، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے FAO کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 83 ارب جانور غذا کے حصول اور شکار کے لیے ذبح یا ہلاک کیے جاتے ہیں، ان 83 ارب میں سے دس کروڑ جانور امریکہ میں ہلاک کیے جاتے ہیں۔ اسی رپورٹ میں یہ اندازہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تقریبا پچاس سے 167 ارب مچھلیاں انسانی غذا کے حصول کی نذر ہو جاتی ہیں۔ صرف امریکہ میں تھینکس گیونگ کے موقع پر 40 ملین ٹرکیز (فیل مرغ) ہلاک کیے جاتے ہیں۔

یہ اعداد و شمار دیکھنے اور پڑھنے میں اتنے خوفناک نظر آتے ہیں کہ انسان جانوروں کے حقوق کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے مگر قدرت نے اس دنیا میں بسنے والوں کے لیے ایک نظام مرتب کر رکھا ہے، آج ہم کروڑوں سال قبل فنا ہونے والے ڈائنوسار کی ہڈیوں کا نکلا ہوا تیل جسے زمین نے جذب کرکے اپنے اندر چھپائے رکھا، قدرت کے ایک پروسس کے تحت آج وہی تیل پیٹرول اور آئل کی شکل میں ہماری روزمرہ کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ اللہ تعالی نے حلال جانوروں کی نسل میں برکت رکھی ہے اور ان کی افزائش میں تیزی، انہیں انسان کے فائدے کے لیے پیدا فرمایا۔ اگر آج انسان چوپائے کھانا چھوڑ دے، تو یہ زمین چوپایوں سے اتنی زیادہ بھر جائے کہ انسان کا رہنا مشکل ہو جائے۔ جانوروں کے حقوق سے انکار ممکن نہیں، دین اسلام جو دین فطرت بھی ہے نے ہی سب سے پہلے جانوروں کے حقوق کا بھی ہمیں درس دیا۔ پھر بھی اگر جانوروں کے حقوق کے نام پر وسوسے ستائیں تو ہمیں سانس لینا بھی چھوڑنا ہوگا کہ آکسیجن میں بھی کئی قسم کے بیکٹیریا (جانور) پائے جاتے ہیں اور بیکٹریا بھی زندہ مخلوق ہی ہے۔

ہماری ٹیکس مانگتی حکومتیں اگر صرف عید کی اس معاشی سرگرمی کو نظم و ضبط میں لے آئیں تو اسے بھی روپوں کی اس بہتی گنگا میں سے اپنا حصّہ مل سکتا ہے۔ چونکہ اس معاشی سرگری میں زیادہ تر معمولات کیش میں اور فوری ہوتے ہیں لہذا بہت سا ٹیکس حکومت اکٹھا نہیں کر پاتی۔

ایک مہینے میں انجام پانے والی یہ سرگرمیاں 50 سے 70 ارب روپے کامعاشی سائیکل تشکیل دیتی ہیں۔ یہ تو صرف پاکستان کی عید کا احوال ہے ذرا 57 اسلامی ملکوں میں ہونے والی اس عظیم معاشی انقلابی سرگرمی کا اندازہ لگایئے تو یہ دنیا کے کئی سپر پاور ملکوں سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والا محض ایک فعل ہے۔ یقینآ اس سے ایک طرف تو اسلام کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں معاشی اہمیت کاپتہ چلتا ہے تو دوسری طرف بقر عید سے مملکت خداداد میں بسنے والے لا تعداد لوگوں کا بھلا ہوتا ہے اور ملک میں ایک جاندار معاشی سرگرمی جنم لیتی ہے اور ٹھنڈے چولہوں میں امید کی لو جلتی ہے۔

Check Also

Tajdeed e Deen

By Muhammad Irfan Nadeem