Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Be Eman

Be Eman

بے ایمان

اب تو سیلاب اتر گیا ہے۔ لیکن اپنے پیچھے پانی اور کیچڑ میں لت پت بربادی کی لاکھوں کہانیاں چھوڑ گیا ہے۔ جو کم و بیش ایک صدی تک سینہ بہ سینہ دہرائی جائیں گی یہ ہولناک بربادی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے پچھلے مہینے سیلاب ٹھاٹھيں مار رہا تھا۔ جانے کتنے لوگ اس سیلاب میں بہہ گئے کئیوں کا مال ڈنگر فصلیں اور اسباب، کئیوں کے کچے پکے کوٹھے اور جھونپڑیاں ڈھے گئیں لیکن میں تعمیر ہوگیا۔

ٹھہریئے پہلے میں اپنا تعارف کروا دوں میں سلیم احمد اعوان سکنہ، ضلع، کا رہنے والا ہوں ہم ٹھیکے پی زمین لیتے ہیں اور وائی بیجی کرتے ہیں کاشت کاری نرا جوکھم کا کام ہے۔ جس میں صرف دو وقت کی روٹی کے لئے خون پسینہ بہانا پڑتا ہے۔ لیکن ہمیں کسی اور کارے کا وَل بھی تو نہیں آتا سو یہ کام ہماری مجبوری بھی ہے، زندگی کی ضروریات مشکل سے پوری ہوتی ہیں۔

اس لئے ہماری زندگی میں خواہشات کی تکمیل کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکی بلکہ خواہش کیا ہے۔ ہم نسلوں سے نہیں جانتے۔ جیسے کہ جب میں میٹرک میں تھا تو اپنے ایک کلاس فیلو جیسا مہنگا بیگ لینا چاہتا تھا، فٹ بال کٹ لینا چاہتا تھا اور ایک ہیوی بائیک، لیکن یہ تمام خواہشات ایسی تھیں کہ میں خواب میں بھی صرف سوچ ہی سکتا تھا۔

میٹرک کے بعد ایف ایس سی کرنا تو چاہتا تھا، لیکن پرانے بیگ اور شوز کے ساتھ نہیں بلکہ مجھے ایڈیڈاس کے شوز چاہئیں تھے۔ چاہے لنڈے سے ہی مل جاتے، لیکن ہماری اتنی اوقات نہیں تھی کہ ہمارے چھوٹے سے علاقے میں اس کوالٹی کا لنڈا بھی ممکن ہوتا چھوٹی جگہوں میں تو لنڈے کے نام پہ چیتھڑے ہی بھیجے جاتے ہیں، سنا تھا لاہور کراچی اور اسلام آباد سے ایسی برانڈڈ چیزیں آسانی سے مل جاتی ہیں۔

لیکن ہماری اتنی اوقات نہیں تھی کہ اتنا بھاڑا خرچ کر کے کسی بڑے شہر میں شاپنگ کے لئے جاتے۔ ہمارے لئے جوتے پہننے کا مقصد صرف پیروں کی برہنگی ڈھانپنا ہوتا ہے۔ فیشن کرنا یا پیروں کو آرام دینا نہیں ماضی قریب یعنی صرف تین عشرے پیچھے ہمارے اجداد کو معمولی سی سواری بھی میسر نہیں تھی، خوشی غمی میں کہیں جاتے وقت جوتے بغل میں داب لیتے تھے یا سر پہ رکھ لیتے کہ گھس نہ جائیں۔

ایسے میں ہمارے اجداد کی ترقی ضرویات تک ہو سکی تھی، یعنی پلاسٹک نائلون کے سستے چپل اب مستقل پہن لئے جاتے ہیں اور آسائشات کی عیاشی شائد ہماری اگلی نسل کے نصیب میں ہو۔ البتہ شدید غربت کے باوجود انٹر نیٹ نے پوری دنیا کو ہماری مٹھی میں زبردستی ہی پکڑا دیا ہے۔ حالیہ سیلاب آیا اور ہر طرف ایک تباہی سی پِھر گئی کچھ مصیبت زدگان مدد کے لئے پکار رہے تھے تو بہت سے بڑھ چڑھ کے مدد بھی کر رہے تھے۔

اور یہ سب کچھ طوفان کے ریلے میں اس تیزی سے ہو رہا ہے۔ جیسے ایک دن میں ایک سال بیت رہا ہو میں یہ تمام بربادی اور مدد کی اپیلیں سوشل میڈیا پہ دیکھتا رہتا تھا، کچھ درد مند رضا کار سیلاب میں اترے اور دور دراز پھنسے ہوئے لوگوں کی امداد کرنے لگے روزانہ ہی دردمندی سے مدد کی اپیلیں ہوتیں اور لوگ دئیے گئے نمبروں پہ لاکھوں روپے بھیجنے لگے۔

راشد حبیب میرا بچپن کا دوست تھا، حد درجہ لالچی ہوشیار ابن الوقت اور کمینہ بھی تھا، غربت سب کو کمینہ بنا دیتی ہے۔ غریب کو چہرے اور نیت پہچاننے کی الگ سے حس لگی ہوتی ہے، جسے میں ساتویں حس سمجھتا ہوں اسکی آنکھ میں ہر وقت دوسروں سے ایک حریص سی توقع لگی رہتی ہے، وہ بھی لوٹ کھسوٹ کی اس محفل میں آگے آگے تھا۔

اس جیسے پانچ چھ لونڈے لپاڈوں نے رضاکاروں کی ٹیم بنائی اور دکھاوے کے لئے چھوٹی موٹی مدد کر کے ویڈیو اپ لوڈ کر دیتے ساتھ ہی ڈونیشن کے لئے اپنے نمبر اور اکاؤنٹس شئیر کر دیتے۔ سکرین کے پیچھے حیوان ہے شیطان ہے یا رحمان سامنے سے سب ایک جیسے ہی نیک دل شہزادے نظر آتے ہیں، نیتوں کے حال اللہ کے ہاں ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ ہم انسان تو غفلت میں پڑے ہیں، اکا دکا لوگ امدادی رقوم بھیج دیتے۔

لیکن جوں جوں میڈیا نےسیلاب کی تباہ کاریاں اور ہولناکیاں دکھانا شروع کیں سوشل میڈیا پہ آگ لگ گئی لوگ امداد کے نام پہ اندھا دھند رقم پھینکنے لگے۔ مسجدوں میں تمام دن اپیلیں کی جارہی تھی، ہمارے جیسی چھوٹی اور غریب آبادی میں بھی جہاں راشد حبیب جیسے کمینہ فطرت تھے وہیں دریا دل بھی موجود تھے، اپنے استعمال کی اشیاء تک مسجد کے پھٹوں پہ گٹھڑیاں باندھ کے رکھ جاتے پہ لوگ دوسرے لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن کبھی تحقیق نہیں کرتے اگر تحقیق کریں تو ہی مدد اصل حق داروں تک پہنچ پاتی ہے۔ راشد حبیب اور اسکی ٹیم نقد کے علاوہ بھی جو اچھا مال آتا اچھے اچھے کمبل رضائیاں میٹرس برتن اور کھانے پینے کے ڈبہ بند پیک اسے چھانٹ کے گھر لے جاتے اور کاٹھ کباڑ سیلاب زدگان تک پہنچا دیتے ساتھ ہی ویڈیو بھی ریکارڈ کر لیتے ان پندرہ دنوں میں انکے گھر میں سال بھر کا رزق اور سو سال کا سامان جمع ہو چکا تھا۔

میں کئی دن تک یہ تماشہ دیکھتا رہا لوٹ مار کی اس بہتی گنگا نے میرے دل میں دفن کئی خواب زندہ کر دئیے میرے دل میں بھی کمینگی، بے ایمانی اور اپنی حسرتوں کی تکمیل کلبلانے لگی میرے دماغ میں ایک ملگجا سا منصوبہ پنپنے لگا میں نے ایک جوا کھیلنے کا فیصلہ کرلیا۔ راشد حبیب نے سیلاب زدگان پہ اپنی بنائی ایک ویڈیو میرے ساتھ شئیر کی جس میں سیلاب زدگان بہتے ہی جارہے تھے۔

عورتیں اور بچے چیخ رہے تھے، انکے سامنے انکے گھر بہہ رہے تھے، میں نے اسے سوشل میڈیا پہ ڈال کے مدد کی اپیل کر دی۔ راشد حبیب کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس نے کہا جتنا مال بنا سکتے ہو بنا لو ہمارے دن ایسے ہی پھریں گے۔ اگرچہ مجھے کوئی نہیں جانتا تھا، لیکن لوگوں کے دل حالیہ بربادی سے اتنے پسیجے ہوئے تھے کہ اگلے چند گھنٹوں میں میرے اکاؤنٹ میں بیس ہزار روپے کی خطیر رقم آگئی۔

سوشل میڈیا پہ ہر کسی کو اپنے حصے کے بے وقوف مل ہی جاتے ہیں میرا دل بلیوں اچھلنے لگا اور مٹھی گرم ہوتے ہی حوصلے کو تپ چڑھ گئی میں راشد حبیب کی بنائی ویڈیوز کے ساتھ اپنا ایزی پیسہ اکاؤنٹ شئیر کر دیتا اور امداد کی گرم جوش سی اپیل بھی۔ ہفتے بھر میں میرے پاس دو لاکھ روہے کی خطیر رقم جمع ہو چکی تھی، مجھے اپنا موبائل کسی آہنی سیف سے مشابہ لگنے لگا۔

جیسے مسلم بازار کے صرافے اپنی سیف کو پچھلے کمرے میں چھپا کے رکھتے ہیں۔ اسی طرح مجھے لگتا موبائل کو کسی تجوری تالے میں رکھا کروں ورنہ کوئی رقم چرا لے گا۔ میرے دل میں تھپک تھپک کے سلائی ہوئی خوابیدہ خواہشیں انگڑائیاں لے لے کے جاگ رہی تھیں۔ مجھ سے صبر نہیں ہورہا تھا کہ کس طرح اپنی بچپن کی دبی حسرتوں اور خواہشات کو پایہ تکمیل تک لے جاؤں میں ابا سے ضروری کام کی اجازت لے کے میانوالی نکل گیا۔

آج پھٹیچر لاری میں مجھے بے حد گرمی لگ رہی تھی۔ جو اس سے پہلے کبھی نہیں لگی تھی، ایک عورت کا بچہ رو رو کے لاری سر پہ اٹھائے ہوئے تھا۔ مجھے اسکی چیخ پکار بھی بے حد بری لگ رہی تھی دل چاہ رہا تھا، اس ماں بیٹے کو چلتی لاری سے باہر پھینک دوں جو میرے جوشیلے ارمانوں کو یکسو ہونے نہیں دے رہے تھے۔ جیب بھری تو مرضی کے بنا ہوتا کوئی بھی کام بے حد گراں گزرتا ہے یہ ادراک مجھے آج پہلی بار ہوا۔

سب سے پہلے اڈے سے ملتانی قلفیاں اور ڈھوڈا کھا کے تسکین حاصل کی ٹھنڈی بوتل سے ہیاس بجھائی پھر گھوم پھر کے دل کھول کے خریداری کی دو جوڑی نوک والے جوتے خریدے فیشن کے مطابق کراس باڈی لی، لیکن مجھے چیزوں کی کوالٹی کی پہچان بھی نہیں تھی دکاندار مجھے میرے حلیے بلکہ اوقات کے مطابق کم قیمت چیزیں دکھاتے جنہیں میں نے پسند نہ ہونے کے باوجود مال مفت سے خرید لیا کئی کھانے پینے کی اشیاء لے گھر جانا چاہتا تھا۔

لیکن مجھے یقین تھا ابا میری چھترول کر ڈالے گا اس لئے چپکے سے یہ تمام سامان راشد حبیب کی کچی بیٹھک میں چھپا دیا۔ راشد حبیب اب کہیں کچے کے خطرناک اور ہولناک ترین علاقے میں جانے کا پلان بنا ریا تھا، مجھے بھی ساتھ چلنے کی دعوت دے دی ہم سب کا لالچ بے حد بڑھ چکا تھا۔ سمجھیے ہمارے منہ کو خون لگ چکا تھا ہم سندھ کی طرف نکل گئے اور بھی کئی رضا کار امدادی پارٹیاں میدان عمل میں تھیں۔

ہمیں معلوم تھا ان میں آدھے بھی مخلص نہیں تھے، سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے نکلے ہوئے تھے، ہم بھی نکل پڑے ہم بڑے اور ٹھاٹھیں مارتے سیلابی ریلوں کی تلاش میں تھے تاکہ اچھی پردرد سی ویڈیو بنے اور اسی حساب سے امداد ملے۔ راستے میں مصیبت میں پھنسے لوگوں کو چھوڑ کر ہم بڑے سیلابوں کی تلاش میں تھے لالچ اور ہوس نے ہمیں بالکل اندھا کر دیا تھا۔

مصیبت زدگان کی ویڈیو بناتے ہوئے ہم تین پیچھے تھے اور تین آگے ایک بڑے سیلابی ریلے میں راشد حبیب اور اسکے دو ساتھی اچانک بہہ گئے ابھی تھے، ابھی نہیں تھے، خوف سے ہماری بتیاں گل ہوگئیں ہم چیختے ہوئے الٹے قدموں بھاگے ایسا تو ہم نے سوچا تک نہیں تھا، سیلابی ریلا اتنا تند تھا کہ ان تینوں کو میلوں دور لے جاتا کبھی نہ ملنے کے لئے ایک پورا دن ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا کریں۔

پھر اپنے بیگ اٹھا کے واپس ہولئے تینوں گھروں میں کہرام مچ گیا انکے گھر والوں کا دل کر رہا تھا، ہمیں کچا چبا جائیں یا ہمیں بھی انکے ساتھ ہی غرقاب ہوجانا چاہئے تھا۔ انکے گھروں میں اسی جمع کئے گئے اسباب کی پھوڑیاں بچھ گئیں لاش تھی نہ جنازے گٹھلیوں پہ بھی کیا پـڑھتے سب بیٹھتے اور انکے ملنے کی دعا کے ساتھ گپ شپ کر کے گھر چلے جاتے۔

ہمیں معلوم تھا سیلاب کے دیو نے انہیں جیسے ایک ہی نوالے میں نگلا تھا اب ان کا ملنا محال تھا۔ میانوالی سے خریدا ہوا سامان میرے لئے بے معنی ہو چکا تھا، سیلاب کے دیو نے اب پھولی ہوئی اور کبھی کیچڑ میں لت پت ناقابل شناخت لاشیں اگلنا شروع کر دی تھیں، جس دن سیلاب نے پہلی پھولی ہوئی پانچ لاشیں اگلیں میرے وجود کو زلزلے نے آلیا مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ موت و حیات میں کتنا کم فاصلہ ہے۔

ایک سیکنڈ کا بھی نہیں۔ راشد حبیب اور باقی دونوں رضاکاروں کی لاشیں ملیں تھیں نہ ملنے کا امکان تھا، لیکن انکے گھر والے پرامید تھے کہ کسی معجزے کے زور سے وہ لوگ زندہ سلامت واپس آجائیں گے۔ لیکن جسطرح بپھرے ہوئے سیلاب نے پٹخنی دے کے انہیں نگلا تھا، اس منظر کی دہشت آج بھی رونگھٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ سلامتی ممکن ہی نہیں ہے۔

مجھے دنیا داری سے بالکل رغبت نہیں رہی کئی کئی دن بھوک نہیں لگتی پچھلے جمعہ کو وہ سامان میں چپ چاپ سیلاب زدگان کے بچوں میں بانٹ آیا تھا اور روپے ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد کے امام کو ضامن بنا کے اسکی ہتھیلی پہ رکھ آیا تھا، میں نے اپنے پیروں کے چپل تک مسجد کے مختصر صحن میں اتار دئیے اور اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پہ چلتا ہوا ننگے پیر ہی اڈے کو چل دیا۔

لیکن دل کو کسی کل چین نہیں کاش راشد حبیب اور اسکے دوستوں کی لاشیں مل جائیں شائد انہیں قبر میں اتار کے سکون مل سکے۔ میری کہانی سے شائد کسی کو عبرت ملے اور ابھی بھی جو ایسے دو نمبر لوگ اپنے عزائم کے لئے رضاکاری کر رہے ہیں۔ رب انہیں چھانٹ دے لوگ اندھا دھند امداد نہ کریں، بلکہ پہلے تحقیق کرلیں تاکہ انسانیت کے اصلی رضاکاروں کو کھل کے کام کرنے کا موقعہ ملے سکے۔ مجھے سیلاب سے یہی سبق ملا دنیا، دنیادداری اور انسان سب فانی ہیں سب فانی ہیں۔

Check Also

Neela Thotha

By Amer Farooq