Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Doctor Nahi Maseeha

Doctor Nahi Maseeha

ڈاکٹر نہیں مسیحا

کتنے مریض روز ہی ڈاکٹرز کے ہاتھوں میں جاتے ہیں لیکن کتنے مریضوں کو یہ احساس ہوتا ہو گا کہ ہمیں وی آئی پی ٹریٹ کیا جا رہا ہے۔ کتنے مریض یہ محسوس کرتے ہوں گے کہ ڈاکٹرز کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہوتا ہے جس میں وہ فریش چہرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے ہم سے ہمارا مرض دریافت کرتے ہیں، مختلف سوالات کرتے ہیں اور دوا تجویز کرتے ہیں یا متعلقہ شعبے میں ریفر کرتے ہیں۔

یہ ایک تھکا دینے والا عمل ہے لیکن ڈاکٹرز کے پیشے کا تقاضہ ہے کہ صاف ستھرے لباس اور ترو تازہ مسکراہٹ کے ساتھ پھر اگلے مریض کو اٹینڈ کرے۔ وہ بھی انسان ہے زندگی کی ذمہ داریاں اور لوازمات و فرائض ان کے ساتھ بھی لگے ہیں۔ دو سال پہلے ایک سفر میں ینگ ڈاکٹر صبا نے چار گھنٹے کا سفر میرے برابر والی سیٹ پہ کیا ان دنوں ینگ ڈاکٹرز کے ملک گیر احتجاج نے انہیں عوام کی طرف سے مسلسل پھٹکار کا نشانہ بنا رکھا تھا اس طویل سفر میں ہمارے درمیان زیادہ تر گفتگو انکے پیشے پہ ہوئی۔

ان دنوں شائد اسلام آباد کے ہی ایک معروف ہسپتال میں کسی پیشنٹ کے ولی نے لیڈی ڈاکٹر کے منہ پہ تھپڑ دے مارا تھا کہ وہ ہماری بات کیوں نہیں سن رہی۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا تھا کہ وہ ڈاکٹر اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہے اس وقت وہ اپنی ایک کولیگ کی طبعیت کی خرابی کے باعث ڈبل ڈیوٹی کر رہی تھی یعنی اپنی ڈیوٹی آف ہونے کے بعد کولیگ کے حصے کی ڈیوٹی کر رہی تھی۔

دوسرے شہر میں مقیم اسکی والدہ یا والد کی طبعیت انتہائی خراب تھی گھر سے بار بار فون آ رہے تھے کہ وہ بات کرنا چاہتے ہیں وہ مریضوں کے رش میں اٹینڈ نہیں کر پا رہی تھی جب اس کے پیرنٹ کی طبعیت زیادہ خراب ہوئی تو اسے رش میں ہی کال اٹینڈ کرنا پڑی۔ اسی وقت مریض کے تیمار دار نے ڈاکٹر کے منہ پہ تھپڑ دے مارا۔ اس کا ہاتھ بے اختیار اپنے گال پہ چلا گیا۔ گویا تھپڑ ابھی تک وہیں پڑا ہو پھر اس انسلٹ کے خلاف ہم سب نے احتجاج شروع کر دیا جو بڑھتے بڑھتے ملک گیر سطح تک چلا گیا۔

جانے اب وہ ننھی ڈاکٹر کہاں ہو گی؟ ڈاکٹر نگہت نسیم کی پوسٹ پہ کمنٹ کرتے ہوئے اچانک یہ سفر یاد آ گیا۔ اس نے کچھ توقف کیا اور گویا ہوئی پاکستان میں ڈاکٹر بننے کے لئے ایک طویل جدوجہد میٹرک کے دوران ہی شروع ہو جاتی ہے جس میں بچے کی زندگی روٹین لائف سے کٹ جاتی ہے اس کا کھانا پینا، سونا جاگنا، پہننا اوڑھنا، بیماری آزاری اور کبھی تو جینا مرنا تک سب اینٹری ٹسٹ کا میرٹ اچیو کرنے کے مطابق ہو جاتا ہے جو میرٹ پہ نہیں آ پاتے ان میں سے کئی ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں بچے اور اسکے والدین پہ یہ وقت بہت مشکل ہوتا ہے۔

بچے کو سروائیو کروانا والدین اور بہن بھائیوں کے لئے کڑا امتحان ہوتا ہے کبھی کبھی بطور ڈاکٹر اپنے کیرئر سے دستبردار ہونا بڑا ہی تکلیف دہ مرحلہ بن جاتا ہے۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری ملنے تک بے شمار قربانیاں بچہ اور اس کا خاندان دے چکا ہوتا ہے میرٹ کی خاطر بچہ خاندانی تقریبات تک قربان کر دیتا ہے۔ اس کے بعد ایسی انسلٹ کہ کوئی بھی مریض یا اس کا جذباتی جاہل وارث اٹھ کے ہزاروں کے مجمعے میں ڈاکٹر کے منہ پہ تھپڑ ہی رسید کر ڈالے۔

مریضوں کو لگتا ہے ڈاکٹر ہنس بول رہے ہیں تو انہیں ہماری تکلیف کا احساس ہی نہیں ہے۔ انہیں لگتا ہے یہ اس پیشہ ورانہ ہنسی کے درمیان ہمارے مرض کو اہمیت نہیں دے رہا بلکہ چٹکیوں میں اڑا رہا ہے۔ ہماری طرح ہمارا مرض پہن اوڑھ کے کیوں محسوس نہیں کر رہا؟ جبکہ ڈاکٹر کے اوپر دہرا بوجھ لدا ہوا ہے وہ کئی مریضوں کی بیماری محسوس کر کے سمجھ کے نسخہ لکھ رہا ہے، ہدایات دے رہا ہے اور ساتھ خود کو کمپوز کر کے بیٹھا ہے۔

اگر وہ ہمارا مرض محسوس کرتے کرتے ہماری طرح نحیف و نڈھال ہو جائے تو جو پیچھے ہزاروں کی لائین لگی ہے ان کی مسیحائی کون کرے گا؟ تروتازگی اور ہنسی مذاق مسیحائی کا تقاضہ ہے جس میں کام کی کلفت کو دھونا بھی مقصود ہوتا ہے۔ ورنہ ڈاکٹر کو بیمار پـڑنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ہاؤس جاب کے بعد جاب بڑی مشکل سے نصیب بنتی ہے کبھی کبھی دن رات کی ڈیوٹی ایک ساتھ کرنی پڑتی ہے۔

مریضوں سے کہنا ہے کہ ہم بڑی مشکل سے اور نیک دلی کے جذبے سے یہاں تک پہنچے ہیں دل میں مسیحائی کا درد رکھتے ہیں۔ ربّ نے ہمیں انسانیت کی خدمت کے لئے چنا ہے لیکن ہمارے والدین اور بہن بھائی بھی ہوتے ہیں کبھی انہیں بھی ہماری ضرورت ہوتی ہے جنہوں نے ہماری منزل تک پہنچنے کے دوران ڈھیروں قربانیاں دی ہوتی ہیں ہم پہ تھوڑا سا حق ان کا بھی ہوتا ہے ہمیں فرشتہ نہیں ایک انسان سمجھا جائے۔

Check Also

Pakistani Muashray Ke Nikamme Mard

By Khadija Bari