Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Handsfree

Handsfree

ہینڈز فری

ہینڈز فری بھی سائنسدانوں کی خوب ایجاد ہیں کانوں میں ٹھونس کے آپ دنیا و مافیہا سے ہی فری ہو جاتے ہیں۔ اماں، باوا اور ارد گرد والے چیختے چلاتے رہیں ان کا حلق جالی دار ہو جائے گا آخر حلق میں سوراخ ہو جائیں گے لیکن صاحبِ ہینڈز فری سن کے نہیں دیں گے بلکہ آنکھیں موندھے سر دھنتے رہیں گے۔ یہی مناظر پبلک ٹرانسپورٹ پہ، شاپ کیپرز کے ہاں، مزدور، مستری کے کانوں میں جا بجا نظر آتے ہیں بلکہ گھسیارے اور چرواہے بھی بانسری کی رسیلی سنہری دھن چھوڑ کے کانوں میں ٹونٹیاں ڈالے گھاس کاٹتے اور بھینس، بکریاں چرایا کرتے ہیں۔

پرانے اور بھلے وقتوں میں ماؤں کو اگر ایک سے دوسری آواز دینی پڑ جاتی تو گدی پہ دھول جما کے پوچھا جاتا بی بی یا بابا کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے کیا۔ لاؤ کانوں کو تیزاب سے دھلوا لائیں۔ ہم تو کہیں گے بوڑھیوں کے کوسنوں سے انسپریشن لے کر ہی یہ علت ایجاد کی گئی ہے جسے دیکھو کان بند کئے سن دھن رہا ہے اور ردھم میں ٹانگیں بجا رہا ہے۔

اب یہ موئے ہینڈز فری اماں باوا کی جان کو آ گئے ہیں۔ ہر بات چیخ کے کیجیے یا دو گز دور بیٹھے بچے کو پکارنا ہے تو کال کیا کیجیے تب کہیں جا کے بچہ متوجہ ہو گا۔ اچھا ہینڈز فری کی بھی اپنی عجیب سی اوقات ہے جتنے نازک ہمارے کان کے پردۂ بصارت ہیں اتنے ہی نازک یہ ہینڈز فری ہیں جتنے مرضی مہنگے خرید لو کچھ ہی دنوں اور حد مہینوں میں ناکارہ یا کانے ہو جاتے ہیں یعنی ایک کان سے سنائی دیتا ہے ایک بند ہو جاتا ہے۔

اللہ معاف کرے چند سال پہلے تو بہت سے لوگ گروسری میں درجن بھر ہینڈز فری بھی خرید لاتے تھے اب بلیو ٹوتھ کے آنے سے کچھ قرار آیا ہے۔ شروع میں ہم اپنے گھر میں اس اضافی خرچے سے بڑے تنگ ہوئے ربّ کے دئیے دو کانوں کی نا شکری ہمیں ایک آنکھ نہ بھاتی بھئی ہم تو اپنے کانوں سے سننے کے عادی تھے یہ مستعارے، بے اعتبارے اور اکثر ادھارے کان ہمیں ایک کان اوہ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ بڑی مشکل سے اور رفتہ رفتہ عادی ہوئے ہیں عادی ہونے کا یہ مطلب ہر گز یہ نہ لیا جاوے کہ ہم بہ رضا و رغبت راضی ہو گئے ہیں۔

دیکھا جائے تو ہمیں ہینڈز فری کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمیں چوری چوری اور تنگ دلی سے گیت سننے کی لت نہیں ہے ہم گیت، غزل سنیں تو جی چاہتا ہے ارد گرد کی پوری دنیا ہمارے ساتھ گیت سنے اور انجوائے کرے لیکن یہ آجکل کی تھڑدلی نیو جنریشن کسی بھی عمل میں شراکت برداشت نہیں کرتی یہاں تک کہ گیت سننے میں بھی۔ گھر کی نیو جنریشن سے بعد از تحقیق معلوم ہوا کہ بھئی یہ تو ایٹی کیٹس ہیں کہ کمرہ یا بیڈ شئیر کرنے والے بھائی، بہن کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو کہ ہم کیا سن رہے ہیں؟

وہ ڈسٹرب ہو گا اس نے جو سننا ہو گا خود ہی سن لے گا میں اپنی پسند اس پہ تھوپ کے اسے اذیت میں مبتلا کیوں کروں؟ ہااااا ہئے ہک بک ہونے کے علاوہ کیا چارہ ہے اب۔ ایک ہم تھے کہ ایک ہی ٹیپ ریکارڈر اور ڈیک پہ پورا گھر کیا پورا محلہ محظوظ ہو لیتا تھا۔ سوچئے کتنی بجلی بچتی تھی۔ تبھی تو بجلی سستی تھی خیر یہ تو ایک الگ اور تکلیف دہ موضوع ہے اس پہ بھرپور روشنی کی ضرورت ہے۔

واپس مدعا یعنی ہینڈز فری پہ آتے ہیں روزانہ صفائی کے دوران کئی بار کچرے میں ہینڈز فری نکل آتے ہمیں قیمتی اور نئی اشیاء کی یہ ناقدری ہضم نہیں ہوتی تھی، سو ہم جھاڑ جھوڑ کے واپس رکھ دیتے سوچتے میڈ اپنے اندھے پن میں جھاڑو سے لپیٹ کر سمیٹ لائی ہے۔ کئی بار بچوں کو واپس کئے کہ بھئی آپکی کوئی قیمتی سی کام کی چیز کچرے میں لے جا رہی ہے، معلوم ہوتا ناکارہ ہیں ہر بار نت نئے ڈیزائین کے دیکھنے کو ملتے تھے۔

سو ہمیں کیا پہچان ہوتی ہم تو برس ہا برس ایک ہی اسیسری استعمال کرنے کے عادی ہیں، کچن میں ابھی تک جہیز کی اسیسریز ہی چل رہی ہیں۔ ہمیں تو یہ تبدیلی اور پیسے کی ناقدری سخت ناپسند ہے اور اشیاء کی تبدیلی سے استعمال کا محاروہ بھی بھول جاتے ہیں۔ بچوں نے بتایا کہ خراب ہیں، اتنی لش پش چیز خراب کیسے ہو سکتی ہے؟ ہم سوچ میں پڑ گئے چیک کیا تو کان بج اٹھے یعنی درست تھا جرح کرنے پہ معلوم پڑا کہ کہ کانا ہے یعنی ایک کان خراب ہوا ہے۔

ہیں یہ تو ہمارے کام کی چیز ہے بھئی ہمیں بھی کبھی کبھی ضرورت پڑتی تھی کسی کسی دوست کے چغلیوں والے میسجز سننے کی لیکن ہم چغلیاں بھی کان کھول کے سنتے ہیں دنیا و مافیہا سے بے خبری ہمیں برداشت نہیں سو ہمیں ایک کان والا ہینڈ فری بے حد کام کی چیز لگی۔ اب ہم کچرے میں سے اٹھا لاتے ہیں اور لپیٹ لپاٹ کے اپنی سائڈ ٹیبل پہ رکھ لیتے ہیں یعنی اب ہم سہیلیوں کے میسجز سنتے ہوئے گھر سے باخبر بھی رہ سکتے ہیں۔

سچی پوچھیں تو ہمیں گھر میں تاروں کا یہ بچھا جال سخت ناپسند ہے ہر چیز تاروں کی دوش پہ چارج ہو کے چلتی ہے بعید نہیں کہ کب ایسے چارجر ایجاد ہو جائیں کہ انسان بھی چائے کافی کی بجائے تاروں سے چارج ہوا کریں اور پیٹ بھرنے کے لئے بھی گھنٹہ دو گھنٹہ کان میں یا ناک میں کوئی نوز فری لگا کے چارج ہو جایا کریں۔ عوام کی سہولت کے لئے جگہ جگہ پبلک بوتھ بھی بن جاویں گے کہ جہاں لگے آپکی توانائی نچڑ رہی ہے آپ فوراََ خود کو چارج کر لیں۔

یا جب بیوی سے کہا جائے کہ مجھے سخت بھوک لگ رہی ہے کچھ کھانے کو دو بیگم کانوں سے ہینڈز فری نکال کے دو گھنٹے کے لئے آپ کو چارجر پہ ٹانگ دیں دو گھنٹے کے بعد بیوی بھول جائے اور حضرت اوور چارجنگ کے بعد پٹاخہ مار جائیں لو جی خس کم جہاں پاک اور کبھی جو نقاہت زدہ بیگم کا چارجر شوہر اتارنا بھول جائے تو بیوی ایکسٹرا چارجنگ سے موٹی ہو جائے اور پھر روزانہ چارجنگ کا دورانیہ کم کر کر کے ڈائیٹنگ فرمایا کریں۔ اس کمپیوٹر ایج سے کچھ بعید نہیں۔

Check Also

Pakistani Muashray Ke Nikamme Mard

By Khadija Bari