Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Jo Tanha Kar Gayi Mujh Ko

Jo Tanha Kar Gayi Mujh Ko

جو تنہا کر گئی مجھ کو

میرے پاس اوپر تلے تین کتابیں ایسی پہنچی ہیں جو بیوی کی محبت بلکہ اس کے عشق میں فنا ہو کے لکھی گئی ہیں۔ تینوں میری سائڈ ٹیبل پہ ایک قیمتی متاع کی طرح رکھی ہیں ان میں بند عشق کی اس معراج نے مجھے گنگ کر دیا۔ یہ تینوں ہی شخص بیوی کی محبت میں یوں فنا ہوئے کہ اس کے چلے جانے کے بعد اس کے ساتھ کا ایک ایک دن، ایک ایک گھنٹہ اور ایک ایک منٹ ایک ایک لمحہ اپنے ساتھ رکھا۔

جیسے اپنی شریک حیات کو اس کے جانے کے بعد بھی شعوری طور پر سچ مچ اپنی حیات میں شریک رکھتے ہوں تینوں مرد اپنی فطرت میں مجھے سونے جیسے سنہرے اور کھاٹی لگے اور پھر اپنی اس کھوج خلش کی تسلی کے لئے کتاب ہی لکھ ڈالی۔ کہاں ہوتے ہیں ایسے عشق و وفا کی مٹی سے گندھے شوہر۔ میرے دل نے مجھے کئی تاویلیں دیں کہ وفا کی مٹی سے تو عورت کا خمیر اٹھایا گیا ہے، وفا تو مشرقی عورت کا وصف ہے مرد تو چار چار کی رٹ کے بعد حوروں کا پہلو میسر آنے کی خوشنما حرص بھی رکھتا ہے۔

پہلی کتاب سردیوں میں موصول ہوئی تھی جو پاک فوج کے جوان کی بیوی سے محبت کی داستان حیات اس کے اپنے قلم سے ہے۔ کتاب زیادہ ضخیم نہیں ہے سرما کی دھوپ میں ٹیرس پہ بیٹھ کے فرصت کے فقط دو گھنٹوں میں کتاب پڑھ ڈالی لیکن تبصرے کی جرات نہیں ہو پائی۔ اس میں جذب اور وارفتگی کی جو خوشبو ہے تبصرہ اس زعفرانی خوشبو سے لکھے جانے کا متقاضی تھا۔

پاک فوج کے یہ جوان سہیل پرواز ہیں اس سے پہلے ان کے سوپر ڈوپر ناول "ڈھاکہ میں آؤں گا" پہ ریویو دیا تھا جو محترم مصنف کو بے حد پسند آیا۔ مختلف گروپس اور اخبارات میں پبلش ہوا ناول میرے دل سے بہت قریب تھا۔ اس کا پلاٹ، اسکی زبان اور اسکی معاشرت واقعات سب میں نے اپنے گھر میں اپنے والدین سے سن رکھے تھے اس سے جو فطری لگاؤ تھا اس کا تذکرہ کتاب پر تبصرے کے ضمن میں لکھ چکی ہوں۔ یہ آغا جی سے میرا پہلا تعارف تھا۔

سہیل پرواز جو فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ادب کے معروف حلقوں میں اب آغا جی کہلاتے ہیں انہوں نے ایک دن اچانک فرمائش کر ڈالی کہ "جو تنہا کر گئی مجھ کو" میری ایک اور کتاب ہے میری خواہش ہے آپ اس کتاب پہ بھی تبصرہ کریں۔ میں نے فرمانبرداری میں حامی تو بھر لی لیکن جب کتاب پـڑھی تو گنگ رہ گئی۔ محبت کے اس مینار پہ کیا تبصرہ ہو میرے قلم کو چپ لگ گئی، کئی ماہ کے لئے گونگا ہو گیا۔ میں کسی بھی اور کتاب پہ تبصرہ نہیں کر پائی بظاہر بیوی سے محبت کی سادہ سی داستان ہے۔ آئی لو یو کہیں نہیں لکھا لیکن کتاب چیخ چیخ کر آئی لو یو کا ورد کرتی ہے۔

بیوی سے محبت کے جذبات کی ترجمانی جیسے کی گئی تھی کیا میں اپنے تبصرے پہ اس کا عکس دکھا سکوں گی یا حق ادا کر سکوں گی؟ دل کہتا تھا یہ بھاری ذمہ داری ہے اگر میرا قلم انکی خواہش کی بجا طور پہ ترجمانی نہ کر سکا تو مصنف کے محبت سے معمور دل کو ٹھیس پہنچے گی۔ ان کا دل اپنی لامحدود محبت کا ایک لامحدود پیمانہ ہے۔ میرے قلم میں اتنی وسعت کہاں کہ اس لامحدودیت کی گہرائی کو پکڑ سکے۔ لیکن قرض تو قرض ہوتا ہے چکانا پڑتا ہے سو آج دل نے ذرا سی آمادگی ظاہر کی تو مجھے اظہار کی جرات مل گئی۔

آغا جی بڑے وضع دار شخص ہیں۔ ایک دو بار یاد دہانی کے بعد خاموش ہو گئے جب سے وہ خاموش ہوئے میرے اوپر دن بدن انکی وضع داری کا بوجھ بڑھنے لگا۔ کسی ہنستے مسکراتے روشن چہرے کے پیچھے چھپے شخص نے دل کے اندر کیسے کیسے گھاؤ چھپا رکھے ہیں، یہ بھرم ایک بہت خاص محبت سے گندھا دل والا ہی رکھ سکتا ہے۔ کوئی ذرا سی محبت سے پیش آئے تو اس پہ نظر کرم کے ڈونگرے برسا دیتے ہیں انکی محبتوں کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ انسٹا گرام کی ایک معمولی سی جانکاری کے بعد مجھ کم مایہ کو استانی جی کا لقب دے رکھا ہے۔

رخسانہ بیوی کے درجہ کو پہنچنے سے پہلے آغا جی کی سیکنڈ کزن تھیں جنہیں انہوں نے اپنی پڑھائی کی مصروفیت میں کبھی دیکھا تک نہ تھا اور میٹرک میں نانی کی زبانی صرف اس کا نام سن کے اسکی محبت میں مبتلا ہو گئے۔ رخسانہ جب مصنف کی منظور نظر اور محبوبہ بنیں تو انہوں نے وارفتگی کی حد کر دی۔ انہوں نے بیوی کے ساتھ کو کسی دیوانے کی طرح لمحہ لمحہ جیا ہے۔

کتاب رخسانہ کے ہی گرد گھومتی ہے۔ عموماََ جسے اتنا چاہا جائے اس کی عمر کم ہوتی ہے یہاں بھی یہی ہوا اور مصنف کی محبوب بیوی کینسر میں مبتلا ہو کے جان ہار گئیں۔ کتاب میں آغا جی نے نام سننے کے دن سے لیکر آج تک اپنی شریک حیات سے قابل رشک محبت کی ہے، اسکے ساتھ کے لمحے لمحے کو پوروں پہ تسبیح کی طرح گنا ہے۔ جب انہوں نے اپنے گھونسلے کے تنکے جوڑے اپنی فیملی بنائی اس سے ملاقات کے احوال، اپنی نوکری کی بندشیں سب میں شریک حیات کے لئے ایک بے تابی اور وارفتگی نظر آتی ہے۔

میں نے گیلی آنکھوں سے کتاب کا ٹائٹل ایک بار پھر غور سے دیکھا۔ ایک شخص کی محبت، مان، دھیان اور بھروسے نے اس چہرے کو کتنا خاص بنا دیا ہے۔ رخسانہ کے چہرے کی ایک ایک لکیر بول رہی ہے کہ اسے زندگی میں بے پناہ چاہا گیا ہے۔ محبت کی کن من میں بھیگتے ہوئے تاج محل بنانا تو بس ایک بادشاہ کے حصے میں ہی آیا لیکن اپنی محبت کو کتاب میں قید کر کے امر کر دینا بھی محبت کی معراج ہے کتاب کو کب فنا کا ڈر ہے۔

مصنف نے زندگی کا بیشتر حصہ اسلام آباد میں گزارا لیکن شریک حیات کھونے کے بعد شہر ہی چھوڑ دیا۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں اپنی شریک حیات کے جانے کا غم کسی کل چین نہیں لینے دیتا۔ انہوں نے بیوی کی محبت میں فنا ہو کے جو غزل لکھی خود کئی بار گنگناتے ہوئے اسے مشہور پلے بیک سنگر انور رفیع کی خوبصورت آواز میں گوانے کا اہتمام بھی کیا۔

میں نے وہ پرسوز غزل سنی جس کا ایک مصرعہ ہی کتاب کا عنوان بنا غزل بول رہی ہے یا مصنف کا دل چراغ بنا لَو دے رہا ہے میں فیصلہ نہیں کر سکی۔ بس کتاب رات بھر میرے سرہانے مہکتی رہی اور انور رفیع کی دھیمے سروں میں گائی غزل کانوں میں بجتی رہی۔

فسردہ کر گئی مجھ کو، شکستہ کر گئی مجھ کو

کہ جس نے ساتھ دینا تھا، تنہا کر گئی مجھ کو۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar