Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Muashrat

Muashrat

معاشرت

بڑی پیاری خاتون ہیں۔ چند ماہ پہلے انکا میسج آیا کہ کچھ پریشان ہوں کیا کال پہ بات ہو سکتی ہے، میں فارغ ہی تھی سو ہماری بات ہو گئی بعد از سلام دعا خیر و عافیت مدعا کی طرف متکلم ہوئیں زارا جی بہو کے رویے سے بہت پریشان ہوں کوئی مشورہ دیجیے بات چیت کے دوران اندازہ ہوا کہ خاصی سلجھی ہوئی صاف دماغ کی خاتون ہیں اور اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں۔

آمدن کے کچھ مستقل ذرائع ہیں تو گھر میں قدرے خوشحالی ہے۔ سنگل پیرنٹ ہیں بڑی مشکل سے بیٹے کو پروان چڑھایا تھا، ہر ممکن حد تک اچھی تربیت کی مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھایا چند ماہ پہلے بڑے چاؤ چونچلے سے بیاہ کر دیا۔ بہو کا رویہ عجیب لیا دیا سا ہے، بس وہ ہو اور شوہر گھر میں مکس ہی نہیں ہو رہی بیٹا گھر میں ایک روپیہ تک نہیں دیتا صبح میں ناشتہ بناتی ہوں۔

ہم سب کر لیتے ہیں بیٹے کو اپنے آفس کے لئے نکلنا ہوتا ہے۔ بہو اسے بھیجنے کے چکر میں ساتھ ہی کمرے میں چلی جاتی ہے اور پھر واپس نہیں نکلتی۔ جھاڑو برتن کے لئے ہیلپر آتی ہے، گھر میں مزید کوئی کام نہیں ہوتا۔ بہو کو اتنا بھی پتہ نہیں چلتا کہ ناشتے کی میز ہی سمیٹ لے جو برتن جہاں پڑا ہے وہیں پڑا رہے گا میں نہ کہوں یا نہ اٹھاؤں تو بھلے دس دن پڑا رہے۔

اگر کہہ دوں تو اٹھا لے گی ورنہ نہیں بچی اچھی ادب آداب والی ہے۔ مگر احساس سے عاری اسے گھر کی کسی ذمہ داری کو اٹھانے کا کوئی خیال ہی نہیں ہے، کام کہیں تو کر دیتی ہے البتہ خود سے کچھ نہیں کرتی میں سوچتی ہوں کہہ کے کروایا تو کیا کروایا اور ایسے کب تک چلے گا۔ نہ ہی بیٹا اسے کچھ کہتا ہے اوپر سے بیٹے کا رویہ اتنا روکھا سوکھا ہوتا جا رہا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کیا کہوں گھر میں بدمزگی نہ ہو۔

میں نے انہیں بولنے کا موقعہ دیا بیچ بیچ میں کوئی سوال پوچھا معلوم ہوا ڈگری مکمل نہیں ہوئی تھی کہ شادی ہوگئی فائنلز شادی کے بعد دئیے میں وقت دیتی رہی پیپرز دے رہی ہے۔ لیکن اب تو بالکل فری ہے اب اسے ہاتھ بٹانا چاہئے میں نئے زمانے کی ماں ہوں احساس کرتی ہوں، خواہ مخواہ کی چپقلش نہیں پالتی ہمارا تین چار افراد کا کام ہی کتنا ہوتا ہے میں سب کر سکتی ہوں ہیلپر بھی ہے۔

لیکن اسے تو دیکھنا ہی ہوتا ہے، بس کبھی کبھی تھک جاتی ہوں تو اس دن بہو گھر دیکھ لیا کرے، مجھے سمجھ آگئی کہ مسٔلہ کہاں ہے۔ آجکل ڈگری کے حصول کی تعلیم ایک دوڑ ہے، اس میں بچیوں کو گھر کا کام کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا اپنے سکول، کالج، اکیڈمی اور یونیورسٹی سے آنے کے بعد وقت ہی نہیں بچتا کہ بچیاں گھر کے کاموں میں ہاتھ ڈالیں۔

وین رش کی وجہ سے اور ادارے کی دوری کے حساب سے عموماً پانچ چھ یا سات بجے گھر چھوڑتی ہے۔ بچیاں بچے اس قدر تھکے ہوتے ہیں کہ بس بستر پہ گر جاتے ہیں، ویک اینڈ بھی ہفتے بھر کی جمع کی ہوئی نیند پوری کرنے میں خرچ ہو جاتا ہے۔ گھر میں کیا ہو رہا ہے کام کیسے ہوتے ہیں بچیوں کو معلوم ہی نہیں۔ ہمارے وقت میں اتنی پروفیشنل ڈگریاں نہیں تھیں ہم جلدی یعنی ڈھائی تین بجے گھر پہنچ جاتے تھے۔

جہاں مائیں سو بکھیڑے بکھیر کے بیٹھی ہوتی تھیں معمول کے کاموں کے علاوہ کبھی رضائیوں میں ڈورے ڈالے جا رہے ہوتے کبھی گندم پین کے لئے نکلی ہوتی، کبھی اناج کا ذخیرہ سوکھنے کو ڈالا ہوتا کھانا پینا کرنے کے بعد ہم بھی آٹومیٹکلی کود جاتے ایک کام کو عملی طور پہ کرنے سے دس کاموں کا چج آجاتا ہے۔ اب تو نہ رضائیاں گھروں میں بنتی ہیں نہ گندم کی صفائیاں ہوتی ہیں، بس بازار سے آٹا آجاتا ہے، بڑا تیر مار لیا تو چکی کا آٹا تلاش کر لیا۔

دوسری بات جو انہیں پوچھی کہ بیٹے کا رویہ شادی سے پہلے کیسا تھا، انہوں نے جواب دیا وہ شادی سے پہلے بھی ایسا ہی چپ چپیتا اور لئے دئیے رہتا تھا، جاب ہو چکی تھی۔ لیکن گھر کے اخراجات میں حصہ نہیں ڈالتا تھا، گھر سے یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے گھر میں کمرہ بند، ایسے ہی گھر سے جاب اور جاب سے گھر میں کمرہ بند، دوسری وجہ بھی پکڑی گئی کہ بیٹے کو معلوم ہی نہیں۔

گھر میں کیا کام کاج ہوتے ہیں، گھر داری کیسے ہوتی ہے تو وہ بیوی کو کیا کہے گا ایک بات سب سے اہم ہے۔ جس کی طرف ہم توجہ نہیں کرتے کہ گھر میں جو رویہ ہمارے بیٹے کا تھا، بہو کا بھی ویسا ہی ہوگا، اگر بیٹا گھلنے ملنے والا ہوگا تو بہو بھی سب میں مل بیٹھے گی بیٹا الگ تھلگ رہے گا تو بیوی بھی کونے میں لگی رہے گی انہیں کہا کہ بیٹے کے جانے کے بعد آپ بچی کو خود آواز دے کے بلا لیا کریں۔

صفائی کے دوران ہیلپر کی رکھوالی کر لے۔ ظہرانے کی تیاری میں آپ کا ہاتھ بٹا دے یا خود کچھ چھوٹی موٹی کم محنت والی کوکنگ کر لے۔ رہی گھر میں خرچ نہ دینے والی بات تو وہ پہلے بھی کب دے رہا تھا یہ بھی دیکھیے کہ اب نئی نویلی بیوی کا خرچ بھی اٹھا رہا ہے۔ الوداعیہ کلمات کے بعد انہوں نے بڑی بے دلی سے فون بند کر دیا مجھے افسوس ہوا کہ میں انکی کوئی مدد نہیں کر سکی یا انہوں نے میری بات کو اہمیت نہیں دی۔

تین چار ہفتوں بعد انکی دوبارہ کال آئی کہ مجھے سمجھ آگئی تھی غلطی کہاں ہو رہی ہے بچہ تو پہلے ہی لئے دئیے رہتا تھا، گھر میں پہلے بھی اللہ کا شکر تھا تو مجھے اس سے روہے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی اب بھی نہیں دے رہا تو کمی تو نہیں آرہی، دیکھا جائے تو بیوی کا خرچ اٹھا رہا ہے میرے اوپر کوئی بار نہیں ہے میرے بیٹے کا گھر بس گیا ہے یہ بڑے کرم کی بات ہے۔

بچی کا واقعی کوئی قصور نہیں ہے تھوڑا تھوڑا کہنا شروع کیا ہے اب کافی حد تک معالات ٹھیک ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی ہماری نسل کی مائیں پڑھی لکھی اور سمجھدار ہیں معاملات حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ خواہ مخواہ کے کینے نہیں پالتیں گھر داری بھی ایک سائنس ہی ہے ایک کام بچوں کے سامنے ہوتا ہی نہیں انہیں کیا معلوم کیسے کیا جاتا ہے دوسرا معاملات اب بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔

یعنی بیٹا گھر میں کچھ خرچ نہیں کر رہا ویسا ہی گریز پا سا ہے۔ بہو بھی ہل نہیں جوت رہی بس خاتون پڑھی لکھی اور سمجھدار ہیں۔ انہوں نے خود کو سمجھا لیا اور اپنا ذہن ہلکا پھلکا کر لیا۔ اب بیٹا اور نئی دلہن انکے اس شاندار عمل کا انہیں کیا فیڈ بیک دیتے ہیں یہ دیکھنا ہے معاشرے کی سمتیں، جہتیں اور رجحانات ایسے ہی ترتیب میں آتے ہیں۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar