Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Muashre Ko Achi Saasein Do

Muashre Ko Achi Saasein Do

معاشرے کو اچھی ساسیں دو

کہتے ہیں ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے بالکل سچ ہے۔ اختلاف کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے لیکن ایک دوسری تربیت گاہ کی طرف کبھی کسی نے غور نہیں فرمایا وہ لڑکی کی ساس اور سسرال ہوتا ہے۔ ایک تربیت ماں کرتی ہے جو اپنے گھر، اپنے خاندان، اپنے معاشرے کے حساب سے ہوتی ہے۔ ماں پوری کوشش بھی کرتی ہے کہ بچی کو اگلے گھر جانے کے لئے ذہنی طور پہ تیار کرے۔

اچھا یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ تربیت کوئی نصاب کی کتاب نہیں ہے کہ ایک ہی نصاب جیسی تربیت ہو گی۔ تربیت ہمارے اردگرد کا ماحول، ہماری صحبت اور کبھی ہمارے حالات سے کشید ہوتی ہے۔ شادی کے بعد تربیت ساس کرتی ہے جیسے ماں پرائمری سکول تو ساس و سسرال ہائیر ایجوکیشن۔ ساس بہو کے ساتھ جو عمل روا رکھے گی وہ بہو کی تربیت ہو گی۔

آپ دیکھ لیں کہ آپ کیا تربیت کر رہی ہیں؟ اگر تو آپ نے بہو کو طعن تشنع سے چھلنی کئے رکھا اسکی زندگی عذاب بنا دی، یہی بہو جب ساس بنے گی تو دو آتشہ بن چکی ہو گی اور اپنے والی ساس پہ بھی بھاری پڑے گی۔ اسے بار بار جتایا جاتا ہے کہ تم غلط ہو، تمہاری ہر بات الٹی ہے، تمہاری تربیت درست نہیں ہوئی۔ اس کی اتنی ٹیوننگ کی جاتی ہے کہ پھر جب وہ خود ساس بنتی ہے تو اسے ہر الٹا، سیدھا نظر آنا شروع ہو چکا ہوتا ہے۔

ایک قریبی عزیزہ جو اب ساس کے درجۂ اعلیٰ پہ فائز ہیں اور وہی کچھ کر رہی ہیں جو انکی ساس ماضی قریب میں انکے ساتھ کر چکی ہیں، سے وجہ پوچھی تو جواب ملا میں جب بہو تھی مجھ پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ مجھے دن رات جتلایا گیا کہ میں غلط ہوں، میری تربیت غلط ہے۔ میں انکے گھر کے اس قابل بھی نہ تھی کہ نوکرانی رکھی جاتی۔

میری زندگی حرام کر دی گئی میں نے سب کچھ برداشت کیا۔ میری ساس اور سسرالی الزام تراشی کی حد کر دیتے تھے۔ اب میں وہی کچھ کر رہی ہوں تو کیا غلط ہے؟ پھر میرا وقت آیا میں اپنی نند کی بیٹی کو بہو بنا لائی۔ اب میں بتاؤں گی کہ وہ سب کیسے غلط تھے۔ ہم نے منہ بند کر لیا عزیزہ کے اندر ایک اچھا دھاری ناگن کنڈلی مارے بیٹھی ہے۔

ساسوں کا ایک بہت چھوٹا طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا میں بہو کے ساتھ وہ نہیں کروں گی پھر یہاں یہ ستم ہوتا ہے کہ بہو کا پاؤں بھاری ہو جاتا ہے (دوسرے معنوں میں) وہ سسرال والوں کو تگنی کا ناچ نچانے لگتی ہے اور ساسوں کا یہ اچھا طبقہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ جب میں بہو تھی تو ساس اچھی نہیں ملی اب ساس بنی ہوں بہو اچھی نہیں ملی میری تو قسمت ہی پھوٹی ہوئی ہے معاشرہ بھی اس قول کو لے کے خوب مذاق اڑاتا ہے۔

معاشرے میں ایک طرف چپ چاپ وہ ساسیں بھی رکھی ہیں جن کا سسرال میں بہت عزت و احترام کیا گیا، سر آنکھوں پہ بٹھایا گیا اور انہوں نے وہی احترام وہی عزت اپنی بہو کو لوٹایا۔ اسے اپنے گھر کی بنیاد اور اپنی نسلوں کی امین سمجھا یعنی جو اچھی تربیت سسرال نے کی تھی وہی تربیت معاشرے میں پھیلائی اپنی، اپنے گھر کی زندگی خوشگوار رکھی۔ ہماری معاشرت میں اگر یہ عنصر شامل ہو جائے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

ہم گھر میں ایک بے جان ضرورت کا سامان لاتے ہیں تب بھی پہلے جگہ منتخب کرتے ہیں اور وہ کونا اس سامان کے لئے مختص کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ بہو جو جیتی جاگتی سانس لیتی جاندار ہے اس کے لئے پہلے دل میں گنجائش پیدا کی جانی چاہئے بہو گھر میں لانے سے پہلے آپ تھوڑی سی اپنی تربیت کیجئیے۔ خود سے سوال کیجئیے کیا آپ بیٹے میں شراکت برداشت کر سکتی ہیں، کیا اپنے کچن میں گھر میں مداخلت برداشت کر سکتی ہیں؟

بہو کو اپنی راجدھانی کے تخت پہ بٹھا کے خود رفتہ رفتہ معزول ہو سکتی ہیں، ریٹائرمنٹ لے سکتی ہیں یا خود کو ایکٹو رکھتے ہوئے اس کی دست راست بن سکتی ہیں۔ اگر وہ اہل ہے تو اپنے اختیارات اسے منتقل کر سکتی ہیں۔ ساس اور سسرال کئی سال تک ایک لڑکی کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کے اور ٹارچر کر کر کے اسے نیم پاگل بنا دیتے ہیں پھر اسے وہی سب کچھ ٹھیک لگنے لگتا ہے اس میں ماں کا کیا قصور ہے؟ جب تک لڑکی ماں کے گھر میں تھی تو ان عملی سیاستوں سے آزاد تھی پڑھائی کر رہی تھی۔

عائلی و عملی زندگی میں تربیت تو ساس امی کرتی ہیں۔ آپ بہو کو جیسا دیکھنا چاہتی ہیں پہلے ویسا عمل اسے کر کے دکھائیے، اسے سپیس دیجیۓ، اسے اپنے گھر کے طور طریقے محبت سے سکھلائیے وہ سیکھنے کی عمر میں ہے ذہین ہے سیکھ جائے گی لیکن اگر آپ پہلے دن سے لٹھ لے کے پڑ جائیں گی کہ ماں نے کیا سکھایا ہے تو آپ ہی کے لئے مشکل ہو گی۔

بہو بدک جائے گی ہر کام آپ سے پوچھ پوچھ کے اور کانپتے ہاتھوں سے کرے گی اسکے اندر کبھی اعتماد نہیں آئے گا اور اس کے اندر ایک ناگن بننے کا عمل شروع ہو چکا ہو گا۔ اس لئے آج سے ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ تم معاشرے کو اچھی ساسیں دو تاکہ معاشرہ تمہیں اچھی بہوویں لوٹائے۔

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz