Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Silai Wala Tikka

Silai Wala Tikka

سلائی والا ٹِکّا

پرانی مائیں بڑے ڈھنگ اور تہذیب سے بچے پالتی تھیں۔ بچہ کیا کھائے گا، کیا پہنے گا، کیا پڑھے گا، کب سوئے اور اٹھے گا یہ سب ماں باپ کے کرنے کے فیصلے ہوتے تھے۔ بچے چپ چاپ ترتیب دئیے ٹائم ٹیبل کو مان لیتے اور مستقبل کے لئے کھینچی گئی ان لکیروں کے راہی ہو جاتے یہ نہیں کہ اس زمانے میں بچے شریف ہوتے تھے اور اب کے بدمعاش ہیں بچے تب بھی قدرتی طور پہ شرارتی ہوتے تھے کوئی کم یا زیادہ۔

اس زمانے میں نہانے، دھونے کے بھی قرینے، قاعدے تھے۔ جمعہ کو جمعہ کی نماز ہونے سے پہلے پہلے اپنی مصروفیات پسِ پشت ڈال کے سب کا نہانا ضروری اور اہم ہوتا تھا۔ آگے پیچھے بچے کچا پکا خود نہا لیتے لیکن آٹھویں دن امی اپنے ہاتھوں سے رگڑ رگڑ کے نہلاتیں۔ امیاں بچوں کو نہلا دھلا کے کپڑے پہناتیں کنگھی، لوشن، کریم تک ٹھیک تھا جب سرمہ ڈالنے کی باری آتی ہمیں لگتا تیزاب کی سلائیاں ہیں جو جلاد ماں کے ہاتھ میں ہیں خوفزدہ سے ہو جاتے لیکن دم مارنے کی مجال نہ تھی۔

آداب فرزندی و اسماعیلی نبھاتے ہوئے چپ چاپ اوکھلی میں سر دے دیتے یعنی آنکھیں بند کر کے لائین میں لگ جاتے۔ امی سُرمچو پھیر پھیر کے ہم بچوں کی لائن ختم کر ڈالتیں۔ ہر گھر کے کم و بیش یہی حالات تھے جہاں بچے ذرا آنا کانی کرتے والدہ محترمائیں بچہ گھٹنے کے نیچے دابتیں جیسے قربانی کے جانور کو رکھا جاتا ہے اور تکبیر کی چھری کی طرح بسم اللہ بسم اللہ کرتے کند سلائی سے سرمہ آنکھوں میں پھرا دیتیں، بچہ گھٹنے کے بوجھ تلے چوں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اچھا اس سرمے کی بڑی کرامت تھی جونہی آنکھوں میں ڈلتا اسکی تاثیر مہدی حسن کی گائی غزل

؎

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی۔

کے مصداق پورے جسم میں پھیل جاتی، بچہ فرمانبردار فرمانبردار سا نظر آنے لگتا۔ آسمان پہ چڑھی سُدھ پتنگ جتنا فرمانبردار بچے کی سرمیلی آنکھوں میں شرم و حیا کسی کنواری کنیا کی طرح کوٹ کوٹ کے بھر جاتی اور بچے کی آنکھ سرمے کا سیاہ عبایہ اوڑھ کر دید لحاظ والی لگتی۔ اگر کسی بچے کی آنکھ بنا سرمے کے نظر آتی تو بچہ آنکھیں مٹکاتا ہوا بے دید اور دیدہ ہوائی ہوائی سا لگتا۔

دیکھنے والوں کو لگتا جیسے بچہ بنا مناسب ستر پوشی کے گھر سے باہر نکل آیا ہو یا پھر ستار چچا کی بیٹی بنا پردے کے باہر نکل آئی ہو۔ گھر میں آتی جاتی اور بعض دفعہ تو راہ چلتی بڑی بوڑھیاں ڈپٹ کر کاہل ماں کو بچے کی ننگی آنکھوں کا طعنہ دیتیں اور بڑے رسان سے ہدایت کرتیں کہ بچے کو سرمہ کیوں نہیں ڈالا؟ سرمہ ڈالا کرو آنکھیں بڑی اور روشن ہوتی ہیں، بینائی بڑھتی ہے، پلکیں لمبی اور گھنی و مضبوط ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

ایک خاص تکلیف دہ بات یہ بھی تھی کہ سرمے کے ساتھ نظر بٹو کا ٹیکا بھی سرمے کا ایک لازمی جز تھا جو عین رخسار کے درمیان لگایا جاتا ماؤں کا خیال تھا اس ٹیکے سے انکے چاند، چاندنی جیسے بچے بچی کی نظرِ بد دفع دور ہو جائے گی۔ (مثال کے لئے شہنیلہ بیگم والا کا فوٹو دیکھیے یا برصغیر کی مشہور مغنیہ نور جہاں کا رخسار) اور اگر کہیں جا رہے ہوتے جو ہمیشہ خاندان میں کسی کی خانہ آبادی کی تقریب ہوتی تو ہم سب بہن، بھائی اپنی کجلی کجراری آنکھوں میں شرم و حیا اور چپ کا تالہ اور گونگے کا گڑ وغیرہ کھائے لائین میں بیٹھ جاتے۔

ایک دوسرے کو چپکے چپکے کہنیاں تو مارتے لیکن سرمے کی بھر بھر سلائیوں سے اس روز آنکھیں مزید بوجھل سی نظر آتیں جو تقریب کی مناسبت سے والداؤں کی سخاوت اور دریا دلی کے سبب رتی ماشہ زیادہ ہی ڈالا جاتا۔ بچوں کے لئے آنکھوں کے بھاری پپوٹے اٹھانا قیامت ہو جاتا اس لئے باقی سب کو لگتا کتنے شریف اور دم سادھے بچے ہیں۔ جن کے بچے ذرا شرارتی ہوتے وہ خاموش بچوں والی والداؤں سے بچوں کو چپ شاہ بنانے کے گُر پوچھتیں جیسے بچے دربار پہ چڑھانے ہوں۔

کئی تو بچوں کو فرمانبردار بنانے کے لئے سچ مچ اندھوں کی مسجد کے مولوی صاحب سے تعویذ پہ تعویذ لاتیں اور چپکے چپکے بوتلوں میں حل کر کے بچوں کو پلاتیں، زیادہ ہوشیار مائیں خود ہی کُھرا نکال لیتیں کہ شائد سرمے کی تاثیر خون میں جا کے خون کو شرافت کی مار، مار کے ٹھنڈا کر چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے انکے شرارتی سہپتر تب بھی سرمہ نہ ڈلواتے۔

وہ اصل میں نرم دل اور پڑھی لکھی مائیں تھیں جو بچوں کی سیلف ریسپکٹ کا خیال رکھتی تھیں اس وقت تو خال خال ہی ملتی تھیں بلکہ خاصی کمیاب تھیں اور اپنی نرم دلی پہ محلے، برادری میں چھینپی جھینپی شرمندہ سی رہتی تھیں آخر کار زمانے کے انداز بدلے گئے اور جوانوں کو پیروں کی استادی کا شرف حاصل ہو گیا تو نرم دل ماؤں کا رواج پڑ گیا۔

زمانے نے ایک کلانچ آگے بھری تو بچوں کی آنکھوں سے سرمے کے ساتھ ساتھ دید، لحاظ اور شرم و حیا بھی اڑ گئی۔ سرمہ گردی کی مندرجہ بالا تمام شقیں بھگتنے کے بعد جب یہ نسل جوان ہوئی تو اب ان نرم دل شیرہ ٹپکاتی ماؤں کی لاٹ سنبھلے نہیں سنبھلتی۔ پچھلے وقتوں میں دس بارہ اور پندرہ بہن بھائیوں والی نسل نے فیصلہ کیا کہ اب بچوں کی تعداد ایک دو تین یا چار کی حد حدود میں رہے گی اور چار بچوں والے کثیر العیال کہلایا کریں گے۔

سائنس کی ترقی سے منصوبہ بندی کے نت نئے طریقے ایجاد ہو گئے کہ بھئی جسے جو آسان لگے وہ اختیار کر لے لیکن اس سے پاکستان کی آبادی میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہو سکی بلکہ آبادی کے لحاظ سے ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ مائیں اتنی نازک و نرم دل بن چکی ہیں ایک دو یا تین چار بچے تو پیدا کر لئے اب تربیت کرنی نہیں آ رہی۔ پہلے وقتوں میں دو چار تو تجرباتی طور پہ ہی آ جاتے تھے پھر پلاننگ والے چار چھ۔ پھر دو چار چھونگے کے۔

ان سیہکوانی کے بچوں کی تربیت میں مارکیٹ میں کئی کمپنیاں کھل گئی ہیں جو اپنی دکان کے ماتھے پہ اس دعوے کا بورڈ چپکا کے بیٹھی ہیں کہ بچے آپ پیدا کریں تربیت ہم کریں گے بھلا بتاؤ پیدا کرنے جیسا مشکل کام کر لیا ہے گھر کے بزرگوں کو کاٹھ کباڑ میں ڈال کے اب تربیت کے لئے ماہرین باہر سے بلائے جاویں گے؟ ماں کے سسٹم کے اندر بھی اللہ نے ایک انڈیکیٹر فٹ کر دیا ہے جو ماں کو بتاتا ہے کہ بچے کو کب کیا چاہئے یا بچہ کیوں رو رہا ہے؟

پھر یہ کام کوئی کمرشل ادارہ کیسے انجام دے سکتا ہے؟ لیکن بس جی رحم دل ماؤں کا رش پڑ گیا تو دکانداری بھی چل پڑی۔ چلئے ان دکانداروں کو تو چھوڑئیے بعض موقعہ شناس تو ماں باپ کو بھی تربیت دینے لگے ہیں کہ آپ والدین بننے والے ہیں تو پہلے اچھے والدین بننے کی تربیت حاصل کر لیجیے، لو جی متوقع مائیں آدابِ والدین سیکھنے چل پڑیں کمرشل اور باجماعت آداب سیکھنے سے بچہ گھر کی روایتی تربیت بھول جاتا ہے نتیجے میں ایک روبوٹ ہاتھ لگتا ہے۔

ان نئی ماؤں نے باجماعت گن سیکھ لئے اور کئی طرح کے چونچلے ایجاد کر لئے باپ، دادا، تایا، چاچا یا ماموں کوئی بھی بچے کو نہیں ڈانٹ سکتا گویا بچے کی سیلف رسپیکٹ کے لئے بچے کے سر سے زبردستی بزرگوں کا سایہ چھین لیا گیا کہ بچے کی ایک سیلف رسپیکٹ ہوتی ہے جسے مجروح کرنے سے بچے کی شخصیت کا ریت کا گھروندہ گر جائے گا۔ اب اس موئی سیلف رسپیکٹ کا اردو کے ذخیرے میں جانے کوئی متبادل ہے یا نہیں ہمیں اس وقت یاد نہیں آ رہا۔

بچے کو ڈانٹنا پڑ جائے تو کمرہ بند کر کے اسے جانے کون سے انرجی ڈرنک پلائے جاتے ہیں کہ بچے کی سیلف رسپیکٹ بِلڈ (build) ہو جائے۔ دو سال کا بچہ جس کپڑے پہ ہاتھ رکھے گا وہی لے کے دینا ہے چاہے بچہ جوکر لگے یا بے موسم کا کپڑا خریدنے کی ضد کرے۔ ہمارے عزیزوں کا دو سالہ بچہ جب شاپنگ کرنے جاتا ہے تو لڑکیوں والے جوتے کپڑے پسند کرتا ہے کیونکہ اس سے بڑی پانچ سالہ بہن جو بھی پسند کرے منے میاں وہی پسند کرتے ہیں۔

الماری کھول کے بچہ کھڑا کر دیا کہ بیٹا آج کیا پہنو گے؟ بچے کو کسی بری بھلی سے منع نہیں کرنا بچے کی پرسنیلٹی بلڈ نہیں ہو سکے گی۔ تو اب آپ ہی کہئے بچے کی من مانیاں اور بد تمیزیاں کیوں نہ بڑھیں؟ ایسی ہی ایک ماں ایک تقریب میں ملیں۔ ان کا انتہائی بد تمیز بچہ میزبان کے بچوں سمیت ہر کسی کے بچے کو مار رہا ہے یا زچ کر رہا ہے جیسے کسی اندرونی خلفشار میں مبتلا ہو اور دوسروں کو زچ کر کے محظوظ ہو رہا ہو۔

متاثرہ مائیں پھیکی سی مسکراہٹ سمیت دل کے سمندر میں اٹھتے مدو جزر پہ ضبط کا کڑا پہرہ باندھے توقع کر رہی ہیں کہ شائد بی بی اپنے سپوت کو منع کر لیں گی تقریب سے بھی حظ اٹھانے سے قاصر ہیں لیکن بچے کی والدہ محترمہ طمطراق سے بیٹھی ہیں بچے کو روک کے اسکی سیلف رسپیکٹ پر آنچ نہیں آنے دینا چاہتیں۔ ان ماؤں کو بھی پورے اعتماد سے لیکچر دے رہی ہیں کہ ہلکی سی روک ٹوک بھی بچے کی شخصیت میں ٹیڑھ پن پیدا کر دیتی ہے۔

ورکشاپ نمبر بارہ میں یہ بات سکھائی گئی تھی انہوں نے ناز سے بالوں کے گھونسلے کو تھپتھپایا بچے میں انرجی بھری ہوئی ہے ریلیز ہو جائے گی تو خود ہی بیٹھ جائے گا اتنے میں اس بھاگتے دوڑتے ایٹم بم نے کھانے کی پوری ٹیبل الٹ دی چکنے فرش پہ اسٹیل کے چمچوں کی جلترنگ بجی اور میٹھے و نمکین آپس میں دست و گریبان ہو گئے بلکہ یک جان و یک قالب ہو گئے۔

ماں نے زبان کے شیرے میں لپلپاتی ہلکی سی شرمندہ سی سرزنش کی بس بچے کی سیلف رسپیکٹ کا چاغی کے پہاڑوں کی طرح رنگ بدلا اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ چپات سے چماٹ ماں کے منہ پہ دے ماری اور ماں کے پارلر سے بنوائے گھونسلے کو مٹھیوں میں جکڑ لیا۔ ماں للیانے لگی پر اس نے گھونسلہ نہیں چھوڑا جب تک کے اسکی انرجی ریلیز نہیں ہو گئی۔ ساری ماؤں نے مڑ مڑ کے دیکھا اور تمسخر نگاہی سے پوچھا بی بی تمہاری اپنی سیلف رسپیکٹ کدھر ہے؟

معذرت بات کدھر سے کدھر کو نکل گئی چلیں وہیں سے پکڑتے ہیں اور سرمے کی افادیت پہ دوبارہ لوٹتے ہیں۔ ہاں جی تو اب کون کون اپنے بچوں کو یا خود کی انکھیوں کو سرمہ ڈالتا ہے کہ۔

سرمیلی انکھیو والے۔

سنا ہے تیری انکھیوں سے

رنگ برستے ہیں۔

Check Also

Tehreek e Azadi e Kashmir Par Likhi Gayi Mustanad Tareekhi Kitaben

By Professor Inam Ul Haq