Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Tanha Chand

Tanha Chand

تنہا چاند

میرا نام ستارہ ہے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ چار دن بعد یعنی بیس ستمبر کو میری عمر پینتیس برس ہو جائے گی۔ جب میں تین سال کی تھی تو میرے پپا ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ایکسپائر ہو گئے تھے۔ ماں نے پھر شادی نہیں کی سو میں تنہا رہ گئی۔ میں اپنے بارے میں حتمی طور پہ کچھ بھی نہیں جانتی۔ آئینہ بتاتا ہے میں ایک خوبصورت اور دل کش لڑکی ہوں۔

ہاہا پینتیس برس کی عمر میں خود کو لڑکی کہنے پہ آپ کو ہنسی تو آئی ہو گی لیکن میری اب تک شادی نہیں ہو سکی اس لئے میں خود کو ہمیشہ لڑکی ہونے کا مارجن دیتی ہوں، آپ بھی دے دیجیے۔ دنیا میں ایک عورت کے کم ہونے اور ایک لڑکی کے زیادہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں شروع ہی سے گوری رنگت، سنہری بالوں والی ایک خوبصورت لڑکی تھی لیکن مجھے دوست بنانے کبھی نہیں آئے۔

جماعت میں لڑکیاں ہمیشہ جوڑی جوڑی بن کے رہتی ہیں یا پھر گروپ بنا کے لیکن جانے کیا وجہ تھی میری کسی سے بھی دو دن سے زیادہ دوستی نہیں رہتی تھی۔ کوئی بھی لڑکی مجھے دو دن سے زیادہ برداشت نہیں کرتی تھی تیسرے دن وہ لڑکی کسی اور کے ساتھ کپل بن کے گھومنے لگتی اور میں پھر اکیلی ہو جاتی اور اگر کسی گروپ میں بیٹھنے کی کوشش کرتی تو وہ چڑیوں کی طرح ٹھونگیں مار مار کے مجھے نکال دیتیں۔

میں اپنے خوابوں میں اچھی اچھی لڑکیوں کو اپنی سہیلی بنا کے دیکھتی۔ ان کے ساتھ کیش، ہائیڈ اینڈ سیک، برف پانی، پکڑم پکڑائی اونچ نیچ کھیلتی۔ آنکھ کھلتی تو میں بالکل اکیلی ہوتی یونہی اکیلے رہتے رہتے میں نے جونئیر سکول پاس کر لیا۔ سکول میں میں نے اوورآل ٹاپ کیا تھا اب میرا ہائی سکول کے کیمپس میں ایڈمیشن ہونا تھا میری آنکھوں میں کئی خواب سجے تھے ٹاپ کرنے سے زیادہ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ ہائی سکول میں سب لڑکیاں نئی ہوں گی جن میں سے بہت سی میری دوست بن جائیں گی۔

لیکن میرے نصیب میں دوستی کا رشتہ نہیں تھا یا شائد میری کیمسٹری میں سے کوئی ایسی بدبو نکلتی تھی جو کسی لڑکی کو میرا دوست بننے نہیں دیتی تھی۔ اکیلے رہتے رہتے میں نے میٹرک بھی کر لیا مجھے کچھ صبر بھی آ گیا تھا۔ لڑکیاں اور ٹیچرز جب میرے بارے میں بات کرتیں تو یہ حوالہ دیتیں وہ جس کی کوئی دوست نہیں ہے میرا دل پھٹ سا جاتا لیکن میں صبر کے گھونٹ بھرنا سیکھ چکی تھی۔

ہم کالج میں آ گئے، اب لڑکیاں آپس میں ذومعنی گفتگو کرتیں ایک دوسری کے کانوں میں جانے کیا پھس پھس کرتیں۔ شرماتیں، لجاتیں اور ایک دوسری کو چھیڑتیں، قہقہے لگاتیں۔ مجھے کبھی پتہ نہیں چلا کہ لڑکیاں آپس میں کیا باتیں کرتی ہیں انکے کیا سیکرٹس ہیں؟ میرا تو کوئی سیکرٹ ہی نہیں تھا میں سب کے سامنے کھلی کتاب تھی پھر بھی میری عجیب قسمت تھی میری یہاں بھی کوئی دوست نہیں بن سکی۔

کالج سے نکلے تو کئی لڑکیوں کی شادیاں ہو گئیں، کئی ڈگری کے حصول کے لئے یونیورسٹیز میں چلی گئیں میرا اکیڈمک ریکارڈ ہمیشہ سے +A ہوتا تھا اسلئے میں اپنا کیرئیر بنانا چاہتی تھی۔ میری ماں کو میری شادی کی بہت فکر رہنے لگی تھی انہوں نے ایک دو رشتے سرسری سے دیکھے بھی لیکن بات سنجیدگی کی طرف نہیں جا سکی۔ میری ڈگری ہو گئی اور ساتھ ہی جاب بھی۔ اب ماں کے بستر میں کانٹے اگ آئے ساری رات کروٹیں بدلتی رہتی۔

کئی لوگوں سے رشتے کے لئے کہا، کئی گھر تک آئے۔ اب میں بھی چاہتی تھی شادی ہو جائے لیکن بات نہیں بن سکی۔ میں ٹرے بھر بھر کے اور ٹرالیاں گھسیٹ گھسیٹ کے تھکنے لگی، مجھ میں کوئی خامی نہیں تھی معاشی حالات بھی سیٹ تھے لیکن شائد میری کیمسٹری میں گندھی وہ بدبو لوگوں کو میرے پاس سے بھگا دیتی تھی۔ میں اپنے پاؤں گھما گھما کے دیکھتی کہیں میں پچھل پیری تو نہیں تھی جو میری اچھی خاصی خوبصورتی کے باوجود لوگ پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتے تھے کہ پتھر کے نہ ہو جائیں۔

ماں نے کئی بار دبے لفظوں میں کہا کہ کسی کولیگ سے ہی کوئی بات چلا لوں۔ کسی کو پسند کر لوں یا کسی کو پسند آ جاؤں خود ہی پیش قدمی کر لوں تاکہ وہ میرے فرض کی ادائیگی سے فارغ ہو کے آرام سے مر سکے۔ جس دن ماں نے پہلی بار یہ بات کہی مجھے بہت عجیب لگا تھا لیکن شائد اب وہ بھی تھک چکی تھیں۔ اب ماں کی سوالیہ نظریں روز میرا تعاقب کرتیں۔ کبھی کبھی ماں چڑ جاتی ہیں کہ لڑکیاں تو سنبھالے نہیں سنبھلتی گھر سے بھاگ جاتی ہیں تم سے ایک لڑکا نہیں ٹھیک کیا جا سکا۔ لڑکا ہے ٹھیلے پہ بکتا کوئی پھل نہیں جسے تلوا کے شاپر میں بند کر کے لے آؤں۔

کیا بتاؤں ماں کو کہ میں ازلی بد نصیب ہوں میرے مقدر کا چاند میری پیدائش کے وقت سے ہی گہنایا ہوا ہے۔ میرے ساتھ سووں کولیگز ہیں میری آنکھوں کے سامنے ہی کتنوں کی آپس میں سیٹنگز ہوئی تھیں کئی ایک دوسرے کو لائینیں مارتے رہتے ہیں۔ چار برسوں میں چھ کولیگز نے آپس میں شادیاں بھی کر لیں لیکن میری طرف نہ کسی کا دھیان پڑا نہ میں نے خود کوئی کوشش کی۔ مجھے طریقہ ہی کب آتا تھا بلکہ مجھے لگتا ہے شادی کے پیام کی پہل ہمیشہ لڑکے کی طرف سے ہونی چاہئے۔

ایک دو برس میں بالوں میں چاندی اترنے لگے گی لوگ پہلے بھی ترس ہی کھاتے ہیں پھر مزید کھانے لگیں گے۔ اگر مجھ میں کوئی جسمانی نقص ہوتا تو شائد صبر کر لیتی لیکن مجھ بے عیب کے مقدر کی ٹیڑھ نے اب تک میرے لئے کوئی گھر بننے نہیں دیا۔ مجھے لگتا ہے میں ازلوں کی تنہا، تنہا ہی رہوں گی میری کہانی لکھ دیجیے کہ کچھ میرے جیسے سیاہ نصیب بھی ہوتے ہیں، جن کے مقدر کی سیاہی انکی زندگی میں غم کی رات کی طرح ٹھہر جاتی ہے۔

Check Also

Kashmiriyon Se Bjp Kyun Darti Hai?

By Wusat Ullah Khan