Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aisha Yousuf/
  4. Aik Aur Asrar?

Aik Aur Asrar?

ایک اور اسرار؟

اکثر ہم دوسروں سے ہی پراسرار واقعات سنتے آئے ہیں جیسا کہ پچھلی تحریر میں میں نے ایک محیر العقول واقعہ تحریر کیا لیکن کبھی کبھی ہم بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ زیر نظر واقعات حقیقت پر مبنی ہیں یہ واقعہ پچھلے دنوں میرے ساتھ پیش آیا۔

یہ کچھ دن قبل اتوار کے روز کا واقعہ ہے جب ہم بچوں کو لے کر ایک فیملی پارک چلے گئے۔ چھوٹی بیٹی اپنے بابا کے ساتھ جھولوں کی طرف چلی گئی جبکہ میں، بڑی بیٹی اور بیٹا پارک کی دوسری طرف بمپنگ کارز کے حصے میں چلے گئے۔ گاڑیوں کی سواری کے بعد ہم مخصوص جگہ پر ان دونوں کا انتظار کرنے لگے۔ یہ حصہ قدرے سنسان اور ویران نظر آرہا تھا۔ اس کے ایک کونے میں ایک پرانا سا کھنڈر نما مکان بنا ہوا تھا جو غالباً کسی چوکیدار کی رہائش یا اسٹور روم لگ رہا تھا۔

میں نے خاص توجہ نہیں دی لیکن اچانک اس کمرے سے کچھ عجیب سی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے تجسس کے ہاتھوں آگے بڑھ کر کمرے پر لٹکے پردے کی جھری سے جھانکا۔ اندر مدہم سی روشنی میں کچھ شور و غل مچا ہوا تھا جیسے کچھ لوگ موجود ہوں۔ جانے کیوں میں، بیٹا اور بیٹی جھجکتے ہوئے اندر داخل ہوگئے جبکہ میں ان سب معاملات سے بہت دور رہتی ہوں اور بہت ڈرتی ہوں لیکن ایسا معلوم ہورہا تھا کہ وہ آوازیں ہمیں ایک ٹرانس میں اندر کھینچ رہی ہیں۔

اندر ایک کشادہ سی راہداری تھی۔ زیرو کے بلب کی مدہم پیلی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ہال کے بغلی طرف دو تین کمرے بنا ہوئے تھے جہاں سے شور کی آوازیں آ رہی تھیں بیٹی اور بیٹا ایک سحر میں مجھ سے چمٹے اندر بڑھتے چلے جارہے تھے۔ میں ایک تنگ سی راہداری میں داخل ہوئی ادھر ایک طرف کچی قبر بنی ہوئی تھی اچانک پیچھے سے ایک انسانی آواز پر میں پلٹی اور میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔

سامنے ایک سفید بالوں والا شخص ہاتھ میں کلہاڑی تھامے میرے پیچھے کھڑا تھا۔ بچے زور سے چیخے اور مجھ سے مزید لپٹ گئے یقیناً یہ پارک کا مالی ہے میں نے دل میں سوچا اور ہمت کرکے کہا: "بابا جی! ہم غلطی سے ادھر آگئے۔ آپ سامنے سے ہٹ جائیں ہمیں باہر جانا ہے"۔

وہ ادھیڑ عمر بوڑھا خاموشی سے مجھے گھورنے لگا سچی بات تو یہ ہے کہ میرا بھی خون خشک ہورہا تھا اور رہ رہ کر پچھتا رہی تھی کہ اندر کیوں آئی مگر بچے جو پہلے ہی کانپ رہے تھے ان کی وجہ سے ہمت کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ اس پراسرار بوڑھے کو نظر انداز کر کے میں ہمت کرکے تیزی سے بچوں کو تھامے باہر کی طرف بڑھی اور بابا صحن کی طرف نکل گئی۔ اب بس باہر تک دوڑ لگانی تھی لیکن یہ کیا؟ بیٹی تو میرے ساتھ تھی مگر بیٹا نہیں۔

اتنے میں پیچھے سے بیٹے کے چیخنے کی آواز آئی میری تو جان ہی نکل گئی کہ بیٹا اندر ہی رہ گیا اور بری طرح چیخ رہا تھا۔ ادھر وہ منحوس بوڑھا بھی موجود تھا۔ ادھر بیٹی چیخ رہی تھی۔ اچانک سامنے کے کمروں سے دو تین آدمی ماسک لگائے باہر آگئے ان کے ہاتھ میں کچھ عجیب سے اوزار تھے اور وہ آوازیں ان ہی کمروں سے آرہی تھیں۔ میں تیزی سے راہداری کے اندر گئی اور بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر باہر دوڑ لگادی۔ باہر وہ آدمی اور پراسرار بوڑھا کسی اجنبی زبان اور لہجے میں مجھ سے کچھ کہنے لگے۔ میں نے جی کڑا کرکے ڈانٹ لگائی۔ "خاموش ہو جاؤ، دیکھتے نہیں بچے ڈر رہے ہیں"۔

جواباً وہ زور زور سے کچھ کہنے لگے جو میری سمجھ سے باہر تھا۔ آخر میں راہداری پار کرکے داخلی دروازے پر آگئی۔ اچانک بیٹے نے توجہ دلائی کہ بیٹی ہمارے ساتھ نہیں ہے میں نے سوچا وہ باہر بھاگ گئی ہوگی، مگر تشویش تو مجھے بھی تھی۔ بیٹا اور میں اسے با آواز بلند آوازیں دینے لگے۔ اتنے میں باہر سے آواز آئی "ماما میں باہر آگئی ہوں "۔

یہ سنتے ہی ہم بھی فوراً ہانپتے کانپتے باہر آگئے۔ میری نظر شوہر پر پڑی جو ہمیں ڈھونڈ رہے تھے ہم لوگ دوڑ کر ان کے پاس پہنچے اور سانسیں بحال کیں۔ اف! میں تصور بھی نہیں کرسکتی کہ دوبارہ ایسی جگہ جانے کی حماقت کروں۔ شوہر سوال کرنے لگے کہ کیوں بچوں کو لے کر؟ وہ مجھ سے سوال کر رہے تھے۔۔

۔۔ اور سوال تو بنتے ہیں۔ وہ پراسرار کھنڈر، وہ لوگ، آوازیں۔ سوال اٹھیں گے تو جواب بھی ڈھونڈنے ہوں گے۔۔ چاہے واپس جا کر ہی ڈھونڈنے ہوں۔۔

۔۔ بمپنگ کارز سے فارغ ہوکر ہم لوگ مخصوص کونے میں کھڑے شوہر اور بیٹی کا انتظار کر رہے تھے کہ ہماری نظر ایک طرف بنے مکان پر پڑی۔ اس پر کھوپڑیوں اور ڈھانچوں کے نشان بنے ہوئے تھے۔ ایک طرف بڑا سا بینر لگا تھا "House of Nun "، دوسری طرف ایک پوسٹر پر لکھا تھا"devil destination" کمزور دل افراد اپنی زمہ داری پر اندر جائیں۔ ٹکٹ صرف سو روپیہ فی کس۔

خوفناک میوزک کی آوازیں باہر تک آ رہی تھیں۔ اب ہمارا دل للچایا اور ٹکٹ لے کر گیٹ کیپر تک جا پہنچے۔ "بھائی اندر موجود بھوت لوگوں کو ٹچ تو نہیں کرتے"۔ ہمارا سوال صاف تھا۔ "باجی! نہیں کرتے، آپ ان کو چھیڑیں گی تو ہی چھیڑیں گے"۔ گیٹ کیپر نے اس سے بھی صاف جواب دیا۔

"اچھا ہم اکیلے نہیں جائیں گے کوئی اور فیملی بھی ساتھ بھیجیں"۔ ہم نے اصرار کیا۔

"باجی ایک وقت میں ایک ہی فیملی جائے گی۔ ویسے بھی جتنے زیادہ لوگ ہوں اتنے ہی دھکے لگیں گے آپ کو"۔۔ اب ہم کیا بتاتے کہ ہم اور ہماری اولاد اصلی بھوتوں کے ساتھ ساتھ نقلی بھوتوں سے بھی اتنا ہی ڈرتے ہیں۔

ڈرتے ڈرتے اندر قدم دھرے۔ اندر کچھ بھول بھلیاں قسم کی راہداری کے بعد ایک تنگ سی گلی تھی۔ اس کے اطراف باڑھ کے پیچھے سب سے پہلے ہمیں ایک پراسرار بابا جی ملے جن کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی۔ میرے بیٹے کی تو وہیں ہمت جواب دے گئی۔ " ماما میں باہر جارہا ہوں۔ "

"ارے چلو کچھ نہیں ہوتا" ہم نے اسے کھینچا۔ اتنے میں دوسری طرف بنی کچی قبر سے ایک ہاتھ باہر نکل آیا ساتھ ہی کچھ مزید بھوت اور چڑیلیں ماسک لگائے پرفارمینس دینے میدان میں اتر آئے۔ تیز ہولناک میوزک اور ہاؤ ہو کی آوازوں سے دل دہل رہا تھا ہم نے بچوں کو لیا اور تنگ راستہ پار کیا۔ تنگ راستے کے دوسری طرف پہنچ کر پتہ چلا کہ بیٹے صاحب وہیں کھڑے چیخ رہے ہیں البتہ بیٹی ہمارے ساتھ آگئی ہے۔

بیٹی کو وہیں چھوڑ کر پھر بھوتوں کے درمیان سے گزر کر بیٹے کو لینے پہنچے جو بھوتوں کے نرغے میں تھا۔ پیچھے پیچھے بیٹی بھی ہم سے آ کر لپٹ گئی۔ اب ہم نے کلہاڑی والے بھوت کو ڈانٹا۔ " چھری تلے دم تو لو۔ دیکھ نہیں رہے بچے ڈر رہے ہیں۔ دور ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔ " یہ کہہ کر جو پلٹے تو ایک داڑھی والے بھوت کو سر پہ کھڑے پایا جن کو دیکھ کر ہم تینوں با آواز بلند چیخے لیکن وہ بھوت مطلب انکل اپنی بیٹی سمیت ہمیں گھورنے لگے پتہ چلا کہ وہ بھی یہاں ہماری طرح "انجوائے" کرنے آئے ہیں بہرحال اس بھوت بنگلے میں کسی ذی روح کو دیکھ کر کچھ ڈھارس بندھی۔

اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہم نے بیٹی سے کہا "تم انکل کے پیچھے پیچھے ایگزٹ ہو جاؤ میں بھائی کو لے کر آتی ہوں۔ کیونکہ بھوتوں کو نئی آسامی مل گئی ہے لہذا ان کو ڈرانے پر فوکس کریں گے "اب بیٹی جانے گئی یا نہیں ہم بمشکل تمام بیٹے کو لے کر تنگ راستے کے پار پہنچے تو پتہ چلا کہ بیٹی غائب ہے۔ اب ہم اتنے بدحواس تھے کہ یہ بھی نہیں نظر آیا کہ بیٹی دوسری طرف بنی ایگزٹ سے نکل گئی ہوگی۔ ہمیں لگا کہ باہر نکلنے کا بھی وہی راستہ ہے جو آنے کا تھا مطلب سارے خطرات کو دوبارہ پار کرنا۔ یعنی "اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے (دوبارہ)"۔

دوسری طرف ہمیں یہ ٹینشن کہ بیٹی کہیں کسی کونے میں بے ہوش نہ پڑی ہو۔ اب ہم اور صاحبزادے چیخ چیخ کر بھول بھلیوں میں بیٹی کو آوازیں دے رہے ہیں۔ دوسری طرف بھوت کہہ رہے ہیں "باجی جلدی باہر جائیں دوسروں کو بھی آنا ہے۔ آپ کا ٹکٹ پورا ہوگیا۔ "ہم نے پھر ڈانٹا " چپ ہو کر پرے ہو کر بیٹھو۔ خبردار جو کسی نے بچے کو ڈرایا، ہم اپنی بیٹی کو ڈھونڈ رہے ہیں"۔ اتنے resident evils سے نمٹنے اور لڑنے کے بعد ہم خود کو ہیروئن Alice سے کم سمجھنے پر تیار نہیں تھے کہ بھوتوں کے ساتھ ساتھ گیٹ کیپر بھی اندر آ کر بتا گیا کہ آپ کی بیٹی باہر پہنچ گئی ہے اب آپ بھی باہر چلی جائیں۔۔

ہم نے ایک نگاہ بھوتوں پر ڈالی جو ڈانٹ کھا کر انسان بن گئے تھے اور ماسک اتارے بیزاری سے ہمارے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ اب باہر سے بھی بیٹی کی آواز آگئی تھی تو ہم بھی ہانپتے کانپتے باہر آگئے اور فیملی کے پاس جا پہنچے۔ شوہر سوال کرنے لگے کہ کیوں بچوں کو لے کر بھوت بنگلے چلی گئیں جب اتنا ڈرتی ہو۔

اف میں تصور بھی نہیں کرسکتی کہ ایسی جگہ جانے کی حماقت دوبارہ کروں پر دل یہ کہہ رہا ہے کہ دوبارہ سہہ بارہ یہ حماقت کرنی ضرور چاہیئے کہ قسمے چس تو بڑی آئی۔۔!

Check Also

State Of The Art Studio

By Syed Mehdi Bukhari