Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Turkey Aur China Ki Lok Kahaniyan

Turkey Aur China Ki Lok Kahaniyan

ترکی اور چین کی لوک کہانیاں

لوک ورثے کے ایک کونے میں، کتابوں کا ایک سٹال دیکھا تو خوشگوار حیرت سے قدم وہیں رک گئے۔ وہا ں گلگت بلتستان کی لوک کہانیاں، ترکی کے قدیم قصے اور کہانیاں، چین کی قدیم حکایات اور چینی لوک کہانیوں جیسے مجموعے نظر آئے تو جی خوش ہوگیا۔ جاڑے کے دنوں میں لوک کہانیوں کے مجموعے ہاتھ آ جائیں، تو اس سے اچھی چیز کیا ہو سکتی ہے۔

اہلیہ اور بچے اپنی خریداری میں مصروف تھے، میری جیب میں جتنے پیسے تھے، میں نے کتابیں خرید لیں۔ کچھ کتابیں وہ تھیں، جو میں نے اپنی مرضی سے خریدیں اور کچھ وہ تھیں، جو سٹال مینیجر نے اپنی اجتہادی رائے سے خریداری کی فہرست میں زبردستی شامل کر لیں۔ میں نے اس آمرانہ انداز پر خاموش رہنا ہی مناسب جانا کیونکہ کتابوں کی قیمت میرے اندازے سے پانچ چھ گنا کم تھی اور اس جبر، کے باوجود گویا یہ مفت ہی ہاتھ آ رہی تھیں۔

ایک کہانی ترکی کے چرواہے کی تھی۔ چرواہے کے پاس ایک اچھی نسل کا کتا تھا جو انتہائی وفادار تھا اور چرواہے کی بھیڑوں کی حفاظت کرتا تھا۔ چرواہے نے اس کا نام ترابش رکھا ہواتھا۔ ترابش اتنا سمجھدار تھاکہ چرواہے کی غیر موجودگی میں خود ہی بھیڑوں کو چرنے کے لیے جنگل لے جاتااور شام کو ہانک کر واپس لے آتا۔ چرواہے نے اس کتے کو بھڑیے سے بچانے کے لیے ا س کے گلے میں لوہے کا ایک خول ڈال رکھا تھا تاکہ بھیڑیا حملہ بھی کرے تو اسے گردن سے نہ دبوچ سکے۔

ایک دن کتا بیمار ہوگیا۔ چرواہے نے اس کا بہت علاج کرایا مگر وہ بچ نہ سکا اور مر گیا۔ چرواہے کو بہت افسوس ہوا۔ ا س نے اسے نہلا دھلا کر وہاں لے جا کر دفن کر دیا، جہاں گائوں والے اپنے مردوں کو دفن کرتے تھے۔ کچھ لوگوں نے قاضی کو شکایت کر دی کہ اس نامعقول چرواہے نے کتے کو وہاں دفن کر دیا ہے جہاں ہمارے آبا و اجداد دفن ہیں۔

قاضی نے جب یہ سنا تو اسے سخت غصہ آیا، اس نے چرواہے کو اپنی عدالت میں طلب کیا اور گرج کر کہا او نا معقول انسان تم نے یہ کیا بے ہودہ حرکت کی ہے۔ تمیں اس کی کڑی سزا ملے گی۔

چرواہے نے ہاتھ جوڑ دیے اور کہا حضور!کیا بتائوں اس ترابش نام کے کتے نے میری کتنی خدمت کی۔ اس نے مجھے جو سکھ دیا، اس کے بدلے میں نے تیس بھیڑیں اس کے نام کر دی تھیں۔ ترابش نے مرنے سے پہلے مجھے کہا کہ دس بھیڑیں فروخت کر کے میرے کفن دفن پر لگا دینا اور دس بیچ کر اس کی رقم غریبوں میں بانٹ دینا۔

قاضی نے کہا: یہ تو بیس ہوئیں، باقی دس کہاں ہیں؟ چرواہے نے کہا:جناب میرے کتے نے ان کے بارے میں مجھے کچھ نہیں بتایا تا ہم میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ دس بھیڑیں میں آپ جیسے نیک اور ایماندار شخص کی نذر کر دوں گا۔ آپ یہ تحفہ قبول کیجیے۔

قاضی کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور اس نے کہا کیا نام تھا تمہارے کتے کا؟ چرواہے نے جواب دیا:ترابش۔ قاضی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے اور کہا:میں سب کو حکم دیتا ہوں کہ میرے ساتھ ہاتھ اٹھا کر ترابش کے لئے دعا کریں

***

ترکی کی ایک دوسری قدیم کہانی کا عنوان ہے:ہر معاملے کی گہرائی میں نہ جائو۔ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ترکی میں ایک کسان تھا جس کا نام عبدل تھا۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی مگر اس زمین سے اس کا گزارا نہیں ہوتا تھا۔ اس کی بیوی نے دو بھینیسں رکھی ہوئی تھیں، وہ ان کا دوودھ نکالتی اور دودھ سے گھی مکھن اور پنیر بناتی۔ کسان یہ دودھ اور پنیر شہر لے جاتا اور وہاں سے اس کے بدلے شہد خرید لاتا۔ گائوں میں شہد کی بہت مانگ تھی واپس آکر وہ شہد بیچ کر کافی رقم کما لیتا۔

مسئلہ یہ تھاکہ جب وہ شہر پہنچتا تو دربان اسے شہر کے دروازے پر روک لیتا کہ قاضی کے اجازت نامے کے بغیر تم شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایک مرتبہ عبدل مکھن اور پنیر کے تیس برتن لے کر شہر پہنچا تو دربان نے اسے روک لیا کہ تم قاضی کی اجازت کے بغیر شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ عبدل تھوڑی دیر سوچتا رہا، پھر اس نے کہا کہ دربان بھائی تم ایسا کرو ان برتنوں میں سے ایک برتن تم رکھ لو۔ دربان کو برتن میں سے تازہ پنیر کی مہک آرہی تھی، اس نے برتن رکھ لیا اور عبدل کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔

عبدل کا سارا مال بہت اچھا تھا، جلد ہی بک گیا، ا س نے اس رقم سے شہد خریدا اور واپس گائوں کو چل دیا۔ شہر کے دروازے پر اسے پھر دربان نے روک لیا کہ قاضی کی اجازت کے بغیر باہر نہیں جا سکتے۔ چنانچہ عبدل نے دربان کو شہد سے بھری بوتل پیش کی تب دربان نے اسے شہر سے باہر جانے دیا۔ گھر آ کر عبدل سوچتا رہا کہ اگر ایسے ہی دربان کورشوت دیتا رہا تو بہت نقصان ہو جائے گا، اگلے دن وہ سیدھا قاضی کے پاس پیش ہوگیا تاکہ قاضی صاحب کے پاس پیش ہو کر اجازت نامے کی درخواست کرے اور دربان کو رشوت دینے سے اس کی جان چھوٹ جائے۔ مگر قاضی اپنی کتابوں میں ایسے گم ہوگیا، جیسے بہت مصروف ہو۔ اس نے عبدل سے کہا آج وقت نہیں ہے کل آنا۔

اگلے روز عبدل پھر پیش ہوا مگر قاضی نے اسے پھر ٹال دیا۔ عبدل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا نیک دل قاضی ایسا کیوں کر رہا ہے۔ راستے میں اسے ایک بزرگ ملے انہوں نے بتایا کہ اس شہر میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، تم قاضی صاحب کوجا کر نذرانہ پیش کرو گے تو تب تمہارا کام ہو جائے گا۔

عبدل جس برتن میں پنیر لایا کرتا تھا، اس میں سے ایک برتن میں اس نے گوبر بھر لیا اور اوپر تھوڑی سی جگہ خالی رکھی۔ اس خالی جگہ میں اس نے ایسے پنیر ڈال دیا کہ دیکھنے سے یوں لگ رہا تھاجیسے سارا برتن پنیر سے بھرا ہوا ہو۔ اگلے دن وہ برتن لے کر قاضی کی خدمت میں پیش ہوگیا کہ حضور یہ ہمارے علاقے کی خاص سوغات ہے آپ اسے قبول فرمائیں۔ قاضی نے برتن لے کر ایک طرف رکھا اور پوچھالائو تمہاری درخواست کہاں ہے۔ عبدل سے درخواست سامنے رکھی تو قاضی نے اسے منظور کر کے اجازت نامے پر دستخط کر دیے۔ عبدل نے اجازت نامہ جیب میں رکھا اور پوچھا کہ حضور کیا پنیر لیے بغیر آپ میری درخواست پر دستخط نہیں کر سکتے تھے؟

قاضی نے کہا تمہارا کام ہوگیا، اب گھر جائو اور یاد رکھو معاملے کی گہرائی میں کبھی نہیں جانا چاہیے۔ عبدل نے قاضی کے دفتر سے باہر قدم رکھا اور اونچی آواز میں بولا: قاضی صاحب آپ بھی برتن کی گہرائی میں نہ جائیے گا۔

***

کہانیوں کے موسم میں قدیم کہانیاں ہاتھ آئیں، تو آپ کو سنا دیں۔ آپ بھی بس پڑھ کر لطف اندوز ہوں، زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں۔

Check Also

Nasri Nazm Badnam To Hogi

By Arshad Meraj