Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. The Terminal

The Terminal

دی ٹرمینل

"مسٹر چوہدری آپ جہاز میں سوار نہیں ہو سکتے" خاتون کے چہرے پر سختی تھی، میں نے حیران ہو کر پوچھا "کیوں؟ " اس نے جواب دیا "آپ کے ملک میں جنگ ہو رہی ہے، ائیر پورٹس بند ہیں اور ہماری سول ایوی ایشن نے پاکستانی مسافروں کے سفر پر پابندی لگا دی ہے" میں حیرت اور پریشانی کے سمندر میں ڈوب گیا " کیا پاکستان میں واقعی جنگ ہو چکی ہے؟ کیا انڈیا نے پاکستان پر حملہ کر دیا؟ یا پھر طالبان ملک پر قابض ہو چکے ہیں " میرے پاس بے شمار سوال تھے مگر کوئی شخص تبلیسی ائیر پورٹ پر ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے موجود نہیں تھا۔

میں نے خاتون سے عرض کیا " آپ مجھے گلف کے کسی ملک میں جانے دیں، میں وہاں سے فلائیٹ لے لوں گا" اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور آہستہ آواز میں بولی " آپ کے پاس گلف کے کسی ملک کا ویزا نہیں، آپ تبلیسی سے صرف امریکا، برطانیہ یا یورپ جا سکتے ہیں " میں نے عرض کیا "میں دوبئی، دوہا یا ابوظہبی کے ائیرپورٹ سے ٹرانزٹ ویزا لے لوں گا" اس نے کندھے اچکا کر معذرت کر لی، اس کا کہنا تھا "ہم آپ کو ویزے کے بغیرجہاز میں سوار نہیں کر سکتے"۔

میں کائونٹر سے پیچھے ہٹا اور خود کو چند لمحوں کے لیے بے وطن محسوس کرنے لگا، میں جارجیا میں تھا، یہ میرا ملک نہیں تھا، یہ لوگ مجھے کسی بھی وقت ملک چھوڑنے کا حکم دے سکتے تھے، میں پاکستان واپس نہیں جا سکتا تھا، میرے ملک میں جنگ چھڑ چکی تھی، ائیر لائین مجھے پاکستان کے کسی شہر کا کنکشن دینے کے لیے تیار نہیں تھی، میرے پاس امریکا، برطانیہ اور یورپ کا ویزا تھا مگر میں وہاں جانا نہیں چاہتا تھا، پیر سے جمعرات تک میرا "لائیو شو" ہوتا ہے، میں نے ہر صورت پیر کی شام تک اسلام آباد پہنچنا تھا مگر میرے لیے واپسی کے دروازے بند ہو چکے تھے، میں نے لیپ ٹاپ کھولا، انٹرنیٹ کے سگنل آئے اور پاکستان سے بری خبروں کی آمد شروع ہوگئی۔

کراچی ائیرپورٹ پر قبضہ ہو چکا ہے، دہشت گردوں نے جہازوں پر حملے کر دیے، ائیر پورٹ سے دھوئیں اور آگ کے مرغولے اٹھ رہے ہیں اوردنیا بھر کا میڈیا چیخ رہا ہے، انٹرنیشنل میڈیا تبصرہ کر رہا تھا " دنیا میں جہاز اغواء ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں پورا ائیرپورٹ ہائی جیک ہو گیا" میں جوں جوں تبصرے پڑھتا رہا میں خود کو ہالی ووڈ کی فلم "دی ٹرمینل" کا کردار محسوس کرتا رہا، یہ سٹیون اسپیل برگ کی انتہائی خوبصورت فلم تھی، فلم کا کردار میری طرح ائیر پورٹ پہنچتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے تمہارا ملک ختم ہو چکا ہے، تم اب کسی ملک کے شہری نہیں ہو اور یوں وہ ائیر پورٹ بلکہ ٹرمینل تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔

یہ سچی کہانی تھی، اس کہانی کا کردار وکٹر نیوارسکی 9 ماہ ائیر پورٹ پر محصور رہا تھا، مجھے محسوس ہوا میں بھی "ٹرمینل" کا کردار بن چکا ہوں، میں اب کسی ملک کا شہری نہیں رہا، میں خوف کا شکار ہو گیا، میں فوراً "اے ٹی ایم مشین" پر گیا، اے ٹی ایم کارڈ چیک کیا، اے ٹی ایم کارڈ چل رہا تھا، کافی شاپ پر گیا، کافی آرڈر کی، کریڈٹ کارڈ دیا، کارڈ چارج ہو گیا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا "میں ابھی بھکاری نہیں بنا" فون آن کیا، فون پر سگنل آ رہے تھے، میں ائیر لائین کے بوتھ پر گیا اور یورپ، استنبول اور لندن کی فلائیٹس کی معلومات لینا شروع کیں، پتہ چلا اگلی شام تک یورپ کی کوئی فلائیٹ دستیاب نہیں، میں ائیر پورٹ سے باہر آگیا۔

میں زندگی میں ہر قسم کے خوف سے گزرا ہوں لیکن بے وطنی کا وہ ایک گھنٹہ انتہائی خوفناک تجربہ تھا، مجھے محسوس ہوا بے وطنی سے بڑی کوئی ذلت نہیں ہوتی، شاید بے وطنی کا یہی وہ مکروہ احساس تھا جس نے بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو وطن واپسی کے لیے ہر قسم کے سمجھوتے پر مجبور کر دیا تھا اور شاید یہ وہ احساس تھا جس سے مجبور ہو کر ایڈمرل منصور الحق نے خود کو پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا۔

رستاولی تبلیسی کی "شانزے لیزے" ہے، یہ انتہائی پر رونق شاہراہ ہے، اس سڑک کے ایک موڑ پر فوڈاسٹریٹ ہے، اس فوڈ اسٹریٹ میں کیفے اور ریستوران ہیں، یہ انتہائی پر رونق اور آباد جگہ ہے، میں وہاں پہنچا اور ایک کافی شاپ میں بیٹھ گیا، مجھے رہ رہ کر پاکستان یاد آ رہا تھا، ہم نے اس ملک کا کیا حال بنا دیا، ہم پوری دنیا میں اچھوت بن کر رہ گئے ہیں، ہم ویزا مانگیں تو دنیا کے چھوٹے چھوٹے غریب ملک بھی ہمیں ویزے نہیں دیتے، ویزا مل جائے تو ہم جب تک پولیو سرٹیفکیٹ پیش نہیں کرتے ہم اپنے ملک سے باہر نہیں جا سکتے، ہم دوسرے ملکوں میں جائیں تو ہمارے جہازوں کو "مین ٹرمینلز" سے دور کھڑا کیا جاتا ہے، ہمیں بسوں میں سوار کر کے امیگریشن کائونٹرز تک لایا جاتا ہے۔

امیگریشن آفیسر دس دس بار ہمیں اور ہمارے پاسپورٹس کا مشاہدہ کرتے ہیں، ہمارے سامان کو کتوں کو سونگھایا جاتا ہے، کسٹم حکام ہماری تلاشی لیتے ہیں، ہم ہوٹل میں جائیں تو ہم سے پیسے پہلے وصول کیے جاتے ہیں اور کمرے بعد میں دیے جاتے ہیں، ہم ریستورانوں میں بیٹھیں تو لوگ ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں، گورے ہمارے ملک میں قدم نہیں رکھتے، یہ پاکستانی اداروں یا کمپنیوں سے معاہدے کے لیے دوبئی آتے ہیں اور ہماری کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز، ہمارے چیئرمین، ڈی جی اور وزراء معاہدوں پر دستخط کے لیے دوبئی جاتے ہیں، پاکستان کے زیادہ تر امیر اور خوشحال لوگ دھڑا دھڑ دوسرے ممالک کی شہریت لے رہے ہیں، مشرقی یورپ، دوبئی، کینیڈا، لاطینی امریکا، دوبئی اور مشرق بعید نے پاکستان جیسے ملکوں کی دولت کھینچنے کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھا دیے ہیں۔

آپ ان ممالک میں ستر اسی لاکھ روپے کی جائیداد خرید لیں تو یہ آپ کو ملک میں رہنے کی اجازت دے دیتے ہیں، پاکستانی اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہم لوگ خوف کی وجہ سے کاروبار بند کر کے رقم پراپرٹی میں لگا رہے ہیں، یہ ملک ہے یا آسیب۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کا کیا حال کر دیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں، موت کا خوف ہماری نفسیات کا حصہ بن چکا ہے؟ ہم میں سے ہر شخص خوف کا کمبل اوڑھ کر سوتا ہے اور خوف کا کمبل سرکا کر اٹھتا ہے، ہم لوگ آخر کب تک اس فضا میں زندگی گزاریں گے، کیا یہ زندگی ہے؟ اور کیا ہم لوگ خوف کے اسی موسم میں زندگی گزارتے رہیں گے؟ کیا یہ ہمارا مقدر ہے؟ اگر ہاں تو ہمیں قسمت کے اس پھیر سے باہر کون نکالے گا؟ میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔

تبلیسی میں دو پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہوئی، شاہد رسول کا تعلق سندھ کے شہر سانگھڑ سے ہے، یہ لوگ فیصل آباد سے سندھ میں سیٹل ہوئے ہیں، شاہد رسول کے والد جوانی میں فوت ہو گئے، یہ خاندان میں بڑا تھا، یہ عین جوانی میں ملک سے باہر آ گیا، ہانگ کانگ سے دھکے کھاتا ہوا کیوبا پہنچا، وہاں سے یورپ آیا، ہالینڈ، اسپین اور لندن میں زندگی کا رگڑا کھایا، پولینڈ میں شادی کی اور آخر میں تبلیسی میں ڈیرہ ڈال لیا، اس کی کہانی دردناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔

یہ تبلیسی میں دس کمروں کا چھوٹا سا ہوٹل چلا رہا ہے، یہ زندگی سے مطمئن ہے لیکن یہ بے چارہ پاکستان نہیں جا سکتا، یہ گیارہ سال سے پاکستان نہیں آیا، کیوں نہیں آیا، یہ بھی ایک عجیب کہانی ہے، یہ کامیاب ہو گیا تو برادری میں حسد پیدا ہو گیا، کسی رشتے دار نے کسی خفیہ ادارے کو جھوٹی رپورٹ بھجوا دی، یہ پولینڈ میں تھا، خفیہ ادارے کے لوگ اس کے گائوں گئے اور اس کے دو بھائیوں کو اٹھا کر لے گئے، یہ ان سے صرف ایک سوال پوچھتے تھے، شاہد رسول باہر کیا کر رہا ہے اور اس کے بعد انھیں تشدد کا نشانہ بناتے، اس تشدد نے اس کے دونوں بھائیوں کو ناکارہ بنا دیا، یہ بے چارے اب کام کاج کے قابل نہیں رہے، شاہد رسول پریشان ہے، وہ بار بار پوچھ رہا تھا، میں نے پولینڈ میں رہ کر پاکستان میں ایسا کیا جرم کر دیا کہ خفیہ ادارے میرے بھائیوں کو اٹھا کر لے گئے؟

یہ اور اس کا خاندان خوفزدہ ہے، یہ پاکستان آیا تو شاید اسے گرفتار کر لیا جائے اور یہ وہ خوف ہے جس کی وجہ سے اس نے گیارہ سال سے ملک میں قدم نہیں رکھا، یہ مجھے ملا تو میں نے سوچنا شروع کیا، یہ بے چارہ اپنی بوڑھی ماں اور بھائیوں سے ملاقات کے لیے پاکستان کیسے آ سکے گا؟ پاکستان کا کوئی ادارہ اس سوال کا جواب دے سکتا ہے؟ دوسرے پاکستانی الفت علی ہیں، یہ اوکاڑہ کے رہنے والے ہیں، والدین غریب تھے، پورا خاندان ایک کمرے کے مکان میں رہتا تھا، تعلیم حاصل کی، پی ایچ ڈی کی اور بزنس شروع کر دیا، اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور یہ بین الاقوامی بزنس مین بن گئے، ملائشیا، انڈونیشیا اور گلف میں بزنس پھیل گیا، یہ کامیابی ان کے لیے مسئلہ بن گئی۔

اوکاڑہ میں ان کے بیٹے کو تاوان کے لیے اغواء کر لیا گیا، بیٹے کو بڑی مشکل سے چھڑایا اور یہ ملک سے باہر شفٹ ہو گئے، دو بیٹے "فارایسٹ" میں کام کرتے ہیں اور یہ جارجیا میں رہتے ہیں، یہ تبلیسی میں دو ریستوران چلا رہے ہیں، فیکٹری لگانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں، یہ ابوظہبی اور تبلیسی دو شہروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، یہ صرف دو مثالیں ہیں، آپ اگر ملک سے باہر جائیں تو آپ کو دنیا کے ہر کونے میں ایسے سیکڑوں ہزاروں پاکستانی ملیں گے جو اسی ذہنی اور نفسیاتی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔

میرا خیال ہے، ہم نے اگر ملک کو ٹرمینل بنانے کا سلسلہ بند نہ کیا، ہم نے اگر ملک کے تمام کینسر ختم کرنے کا فیصلہ نہ کیا تو ہم ملک کے تمام کارآمد لوگ کھو بیٹھیں گے اور پیچھے صرف وہ اچھوت رہ جائیں گے جن سے ملنے کے لیے کوئی آئے گا اور نہ ہی یہ کسی سے ملاقات کے لیے جا سکیں گے، کیا ہم پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں، جہاں کوئی آئے اور نہ ہی کوئی واپس جا سکے؟ اگر ہاں تو پھر ست بسم اللہ ہماری منزل اب زیادہ دور نہیں اور ہم اگر پاکستان کو پرامن ملک دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بڑے فیصلے کرنا ہوں گے مگر سوال یہ ہے یہ بڑے فیصلے کرے گا کون؟ کیونکہ دنیا کا کوئی چھوٹا شخص بڑا فیصلہ نہیں کر سکتا اور ہمارا ملک چھوٹے لوگوں کے نرغے میں آچکا ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Google, Facebook Aur Eman Bil Ghaib

By Basharat Hamid