Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Maaz Bin Mahmood/
  4. Masala Bhari Tareekh

Masala Bhari Tareekh

مصالحہ بھری تاریخ

قارئین کرام، برصغیر پاک و ہند بہت سی وجوہات کی بنا پر دنیا کے دیگر خطوں سے منفرد رہا ہے۔ ان وجوہات میں سے ایک وجہ ہمارے یہاں کے مصالحہ جات بھی ہیں ۔ ازمنہ قدیم میں دنیا بھر سے تاجر حضرات برصغیر پاک و ہند کی یاترا محض مصالحہ جات کی خرید کے قصد سے کیا کرتے تھے۔ مورخین کی ریسرچ کے مطابق یورپ سے کر چین تک تجارتی قافلوں کے ہندوستان تک کے سفر کی ایک بڑی وجہ انہی مصالحہ جات کی خرید ہوا کرتی تھی۔

مرچ اور مصالحہ جات کی تاثیر چونکہ گرم ہوتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے باسی اپنی طبیعت میں شدت پسندی کا واضح میلان رکھتے ہیں ۔ آپ ماضی کے دریچوں میں چلے جائیے اور کسی پٹ سے جھانک کر دیکھیے۔ آپ کو یہی خطہ سکندر اعظم کی عظیم فتوحات کے سلسلے کو تابوت میں بھیجتا دکھائی دے گا۔ کسی اور کھڑکی میں نظر دوڑائے۔ آپ کو محمود غزنوی محض سونے اور چاندی کی لوٹ مار کے لیے سومنات کے مقام پہ لگ بھگ پچاس ہزار ہندوؤں کو جہنم رسید کرتے ہوئے ایک عظیم الشان جہاد کرتا نظر آئے گا۔ آپ کو مہابھارت کے قصے بھی یہیں سے منسلک ملیں گے۔ آگے چلا جائے تو حجاج بن یوسف جیسی سخت گیر شخصیت کے زیر اثر محمد بن قاسم جیسا نرم خو کردار بھی 17 سال کی عمر میں دیگر مذاہب کو تہہ تیغ کرتا دکھے گا۔

ازبکستان کے چنگیزی خون کا حامل تیمور، پشاور کے راستے خطے میں داخل ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے منگول ریاست کے ٹرانس کے زیر اثر بر صغیر میں سیف الاسلام بن کر مٹی کا رنگ سرخ کر ڈالتا ہے(یہ اور بات ہے کہ تیمور لنگ مصر اور شام میں موجود اپنے ہی مسلم مملوک بھائیوں کی شکست فاش کا تمغہ بھی اپنے سینے پر سجائے تاریخ کے صفحات پہ گشت کرتا ملتا ہے)۔ قریب 3 صدیوں پر محیط ملکی سلطنت آخرکار انگریز سامراج کے ہاتھوں ڈھا دی جاتی ہے اور اس کی وجہ بھی بہرحال مصالحہ جات سے تعلق۔۔ کہ انگریز بھی اسی مصالحے کی تجارت کے بہانے بر صغیر میں داخل ہوا۔ گورے کو مصالحے کی حدت راس آجاتی ہے اور یوں کشت و خون کا بازار گرم کرنے کی ذمےداری ملکہ برطانیہ سنبھال لیتی ہیں ۔ 1857 کی ناکام۔ جنگ آزادی کے محرکات و نتائج بیشک ملکہ کے ماتھے پہ کلنک کا ٹہکا ہیں ۔۔ یہ اور بات ہے کہ وہ انہیں جھومر سمجھ کر سجی پھرتی ہیں ۔

معاملہ یہیں اختتام پذیر ہوتا تو شاید یہ اوراق سیاہ کرنے کی نوبت نہ آتی۔ بات آگے چلتی ہے اور ہند ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے۔ ہر ٹکڑا اپنی بساط کے مطابق اپنے آپ میں ایک مصالحے کی دوکان ہے۔ قارئین کی اکثریت چونکہ پاکستان سے ہے لہٰذا بھارت کی شو سنہا یا بنگلہ دیش کی مکتی باہنی کے قصے رقم۔ طراز کرنا کسی طور مناسب نہ ہو گا۔

مسلم نوزائیدہ مملکت، ملک خداداد، ماہ رمضان کا تحفہ۔۔ میرا پیارا پاکستان، جسے شروع ہی سے مصالحے کے بیوپاریوں نے دیوار کے ساتھ لگا ڈالا۔ قائد اعظم کے احسانات کا بدلہ ہم زہرخوری کی شکل میں انہیں سود کے ساتھ واپس دے ڈالتے ہیں ۔ فاطمہ جناح کی عفت و توقیر کے ساتھ زیادتی کے لیے جرنیل اول حدود کے اس پار جا ٹھہرتے ہیں جہان پہنچ کے لعنت ہی ان کا مقدر بنتی ہے۔ قابل ذکر ثقافت مگر کچھ یوں کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اسرائیل ابھی امریکا کے پیٹ میں ہے اور صیہونی طاقتیں ہمارے پیچھے لٹھ لے کہ نہیں پڑیں ۔

و ہی مصالحہ جات کا ہی اثر تھا کہ ہم نے اپنے محسنین کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کا تصور ہم آج محترم طاہر القادری ہا عزت مآب جناب آصف علی زرداری کے ساتھ چشم زدن میں بھی نہیں کر سکتے۔ دو قومی نظریے کے نام پہ بننے والی ریاست کو قوم نے دو دہائیوں کے اندر دو لخت کر ڈالا۔ گلی کے نکڑ پر پڑے گند کے ڈھیر کا الزام بھی صیہونی و مغربی طاقتوں پہ ڈالنے والے، اس دور کی غلاظت کا ملبہ کس پہ ڈالیں گے، اس سوال کے جواب کا کاتب ہمیشہ سے مشتاق ہی رہا۔

کچوکے خوب لگے، لیکن صاحب، وہ مصالحہ ہی کیا کہ جس کی تاثیر میں امن و سکون ہو۔ ضیاء ایک بار پھر جہاد کے نام پر برادر ملک افغانستان میں دخل اندازی کی ابتدا کر ڈالتے ہیں ۔ دوراندیشی کے فقدان کا اثر کچھ یہ کہ ایک غریب مگر خوش و خرم اور ترقی کی راہ پہ گامزن ریاست کو ہم 200 سال پیچھے پہاڑ کے غاروں میں دھکیل ڈالتے ہیں ۔ اب کہ یہ کام امریکہ بہادر کی سرپرستی میں کیا جاتا ہے اور بدلے میں ہمیں میزائل ملنے لگتے ہیں جنہیں ہم شب برات کے پٹاخوں کی بجائے غلطی سے اوجھڑی کیمپ میں پھوڑ ڈالتے ہیں ۔

جہاد افغانستان(اول) میں ہم (امریکہ بہادر پڑھا جائے) کامیاب ٹھہرتے ہیں اور یوں امریکہ بہادر ہماری بیش بہا خدمات کے صلے میں طالبان کا ناسور ہمارے گلے ڈال کے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ کینسر ہم خاموشی سے ملک کے ایک پسماندہ صوبے کی طرف منتقل کر ڈالتے ہیں ۔ اسی اثناء میں بھٹو نام کا ایک عظیم مقرر ہمارے درمیان ابھرتا ہے مگر جلد ہی ہم مصالحوں کی تاثیر سے مجبور اسے بھی راولپنڈی جیل میں تختہ دار کا جھولا جھلا ڈالتے ہیں ۔

ایوب کے بعد یحییٰ اور یحییٰ کے بعد ضیاء۔ ان صاحبان ہما نامی ملوکیت کا پرندہ بالآخر مشرف کے سر جا بیٹھتا ہے۔ اس بات پہ قیاس ہے کہ خود جا بیٹھا یا بٹھایا گیا۔ عصر حاضر کے بڑے بوڑھوں سے سنا کہ 1999 میں ٹخنہ پلٹ کاروائی کی منصوبہ بندی کئی ماہ پہلے شروع ہو چکی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔۔۔

مشرف چوکیدار ہو کر گھر کے سربراہ کو سعودیوں کے حوالے گھر چھوڑتا ہے اور پھر شروع ہوتا ہے عیاشیوں کا ایک لمبا سلسلہ۔ مشرف، شجاعت عظیم اور شوکت عزیز، موج مستی کے دوران امریکہ بہادر کی جنگ میں بھائی بندی کا فیصلہ کر ڈالتے ہیں اور یوں ہم طالبان نامی یاجوج ماجوج کے رحم و کرم پر آن پڑتے ہیں ۔

کہتے ہیں ہر اندھیری رات کے بعد ایک سورج ضرور طلوع ہوتا ہے۔ مسئلہ البتہ کچھ یہ رہا کہ رات اور دن یا چاند اور سورج کی تمیز کرنا دشوار ہو چلا۔ ضیاء یا بھٹو، نواز یا مشرف، یہ قوم آج تک اپنے دوست اور دشمن کے درمیان فرق نہ کر سکی۔ وجہ شاید وہی مصالحوں کی حدت ہے کہ ہر شخص اپنی ذات میں ایک کاملیت کی مثال بننے کے درپے ہے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ اپنی رائے پر کسی اور کی رائے کو ترجیح تو درکنار سنجیدگی سے سمجھنے تک کو تیار نہیں، پھر چاہے اپنی راےَ کتنی ہی چغد کیوں نہ ہو۔

قارئین کرام، یہ قوم آج بھی مصلحتوں کے زیر اثر شدت پسندی کے مرض میں مبتلا ہے۔ یہ اثر مجھے اور آپ کو اپنے حلقہ احباب میں کافی حد تک سرایت کرتا نظر آئے گا۔ آج آپ کو کتا شہید جیسے احمقانہ بیان کی تعریف کرنے والے بھی نظر آئینگے، تو جوش خطابت کی تائید کرنے والے بھی۔ دین الٰہی کے ماننے والے آج ہمارے شہدا کو مردار ثابت کرنے پہ تلے ہوے ہیں جبکہ دوسری جانب دین عمرانی کے مقلدین ایک ناجائز بچی کے باپ کو نبی پاک ﷺ کے القابات یعنی صادق و امین تک سے نوازنے کو تیار ہیں ۔ آپ کو لشکر جھنگوی کے پلیٹ فارم سے کفر کے فتووں کی صدا بھی سنائی دے گی اور لسانی بنیادوں پر روشنیوں کے شہر میں ہونے والا روزانہ کا قتل و عام بھی دکھائی دے گا۔

قارئین کرام، آخر میں خود احتسابی کی ابتدا کے لیے دو چھوٹے سے سوال۔ کیا اس قوم کا ہر فرد اپنی ذات میں ایک عامر لیاقت نہیں جس کا کام چٹنی، اچار اور چٹخاروں کا مزا لینے کے سوا کچھ بھی نہیں؟ کیا ہم مصالحہ جات کی خرید و فروخت اور ان کے اس خطرناک اثر سے کبھی باہر آ پاینگے؟

Check Also

State Of The Art Studio

By Syed Mehdi Bukhari