Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Maaz Bin Mahmood/
  4. Aik Hatdharam Muashra

Aik Hatdharam Muashra

ایک ہٹ دھرم معاشرہ

حج کا موقعہ، کفن کی سی شبیہ دیتا احرام اور اتحاد بین المسلمین۔ یہ سب پیروں تلے روند ڈالا گیا جب میدان عرفات میں چند پاکستانی حاجیوں نے تحریک انصاف کا جھنڈا فخر سے بلند کیا اور گو نواز گو کے نعرے لگائے۔ ہمارے حجاج کرام نے حج جیسی خالص مذہبی و مقدس عبادت کو اپنے سیاسی زہر سے ناپاک کر ڈالا۔ یہ ایک گھناؤنی حرکت تھی کیونکہ حشر کے دن بھی کسی انسان کو اس کے ماں، باپ، بہن یا بھائی تک سے نسبت نہ ہو گی۔ اس ہیبت ناک دن بھی اگر کوئی نسبت ہوئی تو وہ فقت دین اسلام کے ماننے والے کی ہی ہو گی۔ پھر تحریک انصاف سے نسبت وہ بھی عرفات کے میدان میں؟ آخر کیوں؟

یہ سوال مجھ سمیت چند ناقدین تحریک انصاف نے اپنے سوشل میڈیا پہ اٹھایا۔ ردعمل میں کافی دلچسپ مگر بے شرمی، ے غیرتی اور ہٹ دھرمی سے بھرپور جوابات سامنے آئے۔ چند معتدل ترین حضرات نے اسے ایک انفرادی عمل قرار دیا اور اس کا نزلہ خان صاحب پہ نا گرانے کی گزارش کی۔ اگرچہ ہم نے خان صاحب کو نہیں بلکہ ایسی حرکت کرنے اور اس کا دفاع کرنے والوں کو رگیدا تھا، پھر بھی افسوس یہی رہا کہ سوائے ایک دوست کے کسی نیوٹران نے اس شرمناک عمل کو ببانگ دہل غلط کہنا مناسب نہ سمجھا۔

مقلدین و مریدین کی ایک اور قسم نے ہمیں فتوے جاری کرنے کی مشین ثابت کرتے ہوے اس عمل کو برا کہنے سے باز رہنے کی دھمکی دی۔ ساتھ ہی یہ معصومانہ سوال بھی داغ ڈالا کہ آخر اس میں غلط ہی کیا ہے، نواز ہے ہی اتنا برا۔ ہمارے بندوں نے عرفات میں اپنا جھنڈا ہی تو اٹھایا ہے، کوئی قتل تھوڑی ہی کیا ہے۔ اس قسم کے لوگوں سے بحث کرنا ہم نے ایسا ہی سمجھا جیسے گلیلی گلیلیو کے زمانے میں پوپ سے زمین کے گول ہونے کے بارے میں بحث بحث کرنا۔ ایک جوان نے تو خان صاحب کو ولی اللہ کہہ کر قصہ ہی ختم کر ڈالا۔ نتیجتاً ہم نے لب سی لینے ہی میں عافیت سمجھی۔

الغرض، ہر مقلد نے اپنی اپنی عقلی بساط کے مطابق اس معاملے میں تحریک انصاف کا دفاع کرنے کی پوری کوشش کی۔ کس مقلد کا ضمیر کتنا مطمئن رہا یہ بات فقط اللہ جانتا ہے کہ وہی دلوں کا حال جاننے والا ہے۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی سنتا نہیں لہذا اس موقع پر اس ہٹ دھرم معاشرے سے ایسا سوال کرنا شاید میری ہی غلطی تھی۔ لیکن ایک بات میں ضرور کرونگا۔ میں قدرت کے ایک خاص پیٹرن کے طابع ہونے کا قائل ہوں، جس کے تحت ہر عروج کو ایک زوال ضرور آتا ہے۔ اس پہ تفصیلی کالم پھر کسی دن مگر یہ حقیقت ہے۔ اس ہٹ دھرم معاشرے کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر چڑھتے سورج کے مقدر میں غروب ہونے امر ہے۔ ہر طفل نے ایک دن جوان ہونے کے بعد پھر اسی طفلانہ بڑھاپے میں پہنچنا ہوتا ہے۔ ہر پیدائش کے بعد ایک موت اور اس کے بعد پھر ایک پیدائش بھی برحق ہے۔ ہر شجر نے زمین کا سینہ چیر کے پھر اسی زمین میں دفن ہونا ہوتا ہے۔۔

میرے عزیز انصافی ہموطنوں، کیا تمھیں لگتا ہے کہ خان صاحب نامی اس انسان کو کبھی زوال نہ آئے گا؟

Check Also

Sattar Faizi Ki Kahani Bhukhi Kutiya

By Rehmat Aziz Khan