Tuesday, 23 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abid Mehmood Azaam/
  4. Mashaikh Aur Peer

Mashaikh Aur Peer

مشائخ اور پیر

مشائخ اور پیروں کی خدمت میں ہدایا پیش کرنے کی روایت ہمارے ہاں پرانی ہے، تحائف دینا منع بھی نہیں، لیکن میرا خیال ہے اچھے خاصے مالدار پیروں اور مشائخ کو ہدیے دینے کی بجائے ضرورت مند اور مستحق افراد کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ پہلے مشائخ اور پیر دولت جمع کرنے کو برا سمجھتے تھے۔ جو ملتا صبر شکر کرتے۔ اب تو معاملہ ہی الگ ہے۔ بیشتر کے پاس زندگی کی ہر سہولت و آسائش اور بہت سی دولت ہوتی ہے۔ عقیدت مند ان کی دولت میں دن بدن اضافہ کرتے جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے انگلینڈ میں مقیم پاکستانی پیروں کی دولت سے متعلق رپورٹ پڑھی، حیران رہ گیا۔ ایک ایک پیر صاحب کی دولت کا تخمینہ کئی کئی سو ارب روپے لگایا گیا۔ یہ تو صرف چند پیروں کی فہرست تھی۔ پاکستان اور دنیا بھر میں یہ بڑا منافع بخش بزنس ہے اور وہ بھی روپیہ لگائے بغیر۔ اچھا خاصا بینک بیلنس اور پراپرٹی تو غریب پیروں کے پاس بھی ہے۔ ظاہر ہے یہ دولت انہوں نے محنت سے تو نہیں کمائی ہوتی۔ عقیدت مندوں سے ہدایا کی صورت میں ملتی ہے۔

اگر مشائخ اور پیروں میں سے کوئی غریب ہو تو ہدیہ یا کسی اور مد میں ان کی مدد ضرور کرنی چاہیے، لیکن مالدار پیروں اور مشائخ کو ہدیے دینے کی بجائے غریب لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔ ہر علاقے میں بہت سے ضرورت مند اور مستحق افراد مل جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس کھانا لینے کے پیسے نہیں، پہننے کے لیے کپڑے نہیں، رہنے کو گھر نہیں۔ یہ لوگ یقیناً زیادہ مستحق ہیں۔

آئمہ مساجد کی مدد کر دیں، بیشتر کے مالی حالات اچھے نہیں ہوتے۔ دینی مدارس کے مدرسین کے ساتھ ہدیے کی صورت میں تعاون کیا جا سکتا ہے۔ ان سے زیادہ مستحق کون ہوسکتا ہے۔ ان کی تنخواہیں بہت ہی کم ہوتی ہیں۔ ضروریات ان کی بھی ہوتی ہیں، لیکن افسوس اگر کوئی مدد کرنا چاہتا ہے تو وہ بھی مہتمم کی خدمت میں ہی ہدیے پیش کرتا ہے۔ مدرسین پھر محروم رہ جاتے ہیں۔ مہتمم پہلے ہی مدرسین سے کئی گنا اچھی زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور ہدیہ بھی اسے ہی ملتا ہے۔

مدرسین کے مقابلے میں مہتمم کو ہر طرح کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ صرف مہتمم ہی نہیں، ان کے صاحبزادوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ ان کے صاحبزادے کسی دوسرے شہر میں بھی چلے جائیں تو ان کے مہتمم والد کی وجہ سے انہیں پورا پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ ایوارڈ یافتہ مہتمم صاحب کا صاحبزادہ دوستوں کے ساتھ سرد علاقوں کی سیر کو گیا، ایک مدرسہ میں کچھ دن ان کے قیام و طعام کے اہتمام کا حکم صادر ہوا، کمی پر مدرسہ انتظامیہ کی سرزنش بھی ہوئی۔ کسی بڑے سے بڑے مدرس کے بچوں کو ایسا پروٹوکول نہیں دیا جاتا۔

کسی مدرسہ کے بزرگ مدرس کا صاحبزادہ کسی بڑے مدرسہ میں چلا جائے، کسی بڑی شخصیت سے ملے، اسے اس عزت کا عشر عشیر بھی نہیں ملتا جو مہتمم کے صاحبزادے کو ملتی ہے۔ صاحبزادوں کو چھوڑیں، خود چالیس سال مدرسہ میں تدریس کرنے والا مدرس بھی کسی مدرسہ میں جائے، کسی شخصیت سے ملے، اسے مہتمم کے مقابلے میں بہت کم عزت ملتی ہے۔ دین کی خدمت دونوں کریں، لیکن عزت مہتمم اور ان کے صاحبزادوں کے حصے میں آئے۔ یہ تو ناانصافی ہے۔

Check Also

Adbi Kehkashaen

By Rehmat Aziz Khan