Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shaheen Kamal/
  4. Bonsai (2)

Bonsai (2)

بونسائی (2)

پھوپھی اس دن ڈرائیور کے بجائے خالد بھائی کے ساتھ آئیں تھیں۔ وہ عموماً ہمارے اور محمود چچا کے گھر اکیلی ہی آیا کرتی تھیں۔ اس دن جانے کیا بات تھی کہ خالد بھائی کی آنکھیں بہت بول رہی تھی اور وہ آنگن پار بنے باتھ روم جاتے ہوئے کچن میں رکے اور مجھے کامیابی کی خصوصی مبارک باد دی اور میری ذہانت کے ساتھ ساتھ حسن کی بھی تعریف کر دی اور یوں میرے نادان دل نے ڈوپٹے کے پلو میں آس کے کئی جگنو باندھ لیے۔

تیج تہوار اور خوشی غمی میں خالد بھائی سے آمنا سامنا ہوتا ہی رہتا تھا اور انہوں نے اب آنے بہانے ہمارے گھر اپنی آمدورفت بھی شروع کر دی تھی۔ ہر ملاقات آس کے دیپک میں امید کا مزید تیل انڈھیل دیتی اور ان کا ایک خوش کن جملہ مجھے مہینوں شاد رکھتا۔ اس دوران خالد بھائی انجینئرنگ کر کے پھوپھا کے بزنس میں شامل ہو چکے تھے۔ اس کہانی کا کلائمکس پھوپھی کی پانچویں بیٹی نویدہ جو میری ہی ہم عمر تھی کی منگنی پر ہوا۔

میں ان دنوں ڈاؤ میڈیکل کالج کے تھرڈ پروفیشن میں تھی اور ہم سب بڑی خوشی خوشی نویدہ کی منگنی میں شریک تھے۔ حسبِ معمول خالد میرے آگے پیچھے تھے۔ فنکشن ختم ہو چکا تھا اور ہم لوگوں کو بھی گھر واپسی کے لیے نکلنا تھا۔ پھوپھی جانے کہاں تھیں؟ ابا نے کہا کہ دیکھو اندر ہوں گی ان سے مل لیں تو گھر کے لیے نکلیں۔ میں انہیں ڈھونڈتی ہوئی ان کے بیڈ روم تک پہنچی تو اندر سے پھوپھی کی تیز لہجے میں کسی کو جھڑکنے کی آواز باہر تک آ رہی تھی۔

"یہ عشق عاشقی کا بھوت اپنے سر سے اتار دو۔ اگر یہ دل بہلاوا ہے، محض وقت گزاری تو مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ جوانی میں سب لڑکے یہ کرتے ہیں مگر یہ خواب میں بھی مت سوچنا کہ مدحت کو میں اپنی بہو بناؤں گی کہ تمہارے لیے میرے خواب بہت اونچے ہیں۔ میں ٹٹ پونجیوں میں تم کو بیاہنے والی نہیں خواہ وہ میری سگی بھتیجی ہی کیوں نہ ہو۔ "

یہ الفاظ نہیں تیزاب تھے۔ پھوپھی اگر خالد کو مجھ سے شادی کے لیے منع کرتیں تو شاید مجھے اتنا برا نہیں لگتا مگر ان کی سوچ کی گراوٹ نے تو مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا۔ میں خاموشی سے واپس لان میں آ گئ۔ تھوڑی ہی دیر بعد پھوپھی بھی باہر آ گی اور ہنس ہنس کر ہم لوگوں کو رخصت کیا۔ میں نے قصداً ان کی طرف دیکھنے سے گریز کیا کہ کہیں میری آنکھوں سے وہ سارا بھید نہ پا جائیں۔

اس دن کے بعد خالد پھر کبھی ہمارے گھر نہیں آئے۔ ابا نے دو تین بار خالد کے نہ آنے پر تشویش کا اظہار بھی کیا شاید وہ بھی میری طرح خوش گمانی میں مبتلا تھے مگر تلخ حقیقت نے جلد ہی اپنا آپ منوا لیا۔ میں نے اپنے آپ کو بہت سنبھالا پر کم عمری کا گھاؤ تھا اس لیے دیر پا ہی رہا۔ بقول گھر والوں کے میں بہت سنجیدہ ہو گئ تھی۔ اب میں انہیں کیا بتاتی کہ یہ سنجیدگی میری رنجیدگی کا نقاب ہے۔

پھر وقت بہت تیز بہت تیز چلا، آگے پیچھے اماں ابا گزر گئے اور گھر کی کل ذمہ داری میرے شانوں پر آگئی۔ میں ان دنوں جناح ہسپتال میں کام کرتی تھی پھر قسمت سے مجھے آسٹریلیا میں اسکالرشپ مل گئی اور میں سڈنی آ گئ۔ دونوں بہنوں اور بھائی کو سیٹل کرتے کرتے میرے بالوں میں چاندی جھلکنے لگی مگر دل جہاں ٹھہرا تھا ابھی تک وہیں حنوط تھا۔ میں جب جب پاکستان جاتی پھوپھی سے بہت اہتمام سے ملنے جاتی۔ جانے میں کیا دیکھنے اور سننے کی متمنی تھی؟

خالد بظاہر اپنے کنبے میں مگن تھے مگر آنکھیں کچھ اور ہی کہتی تھیں اور میں ان آنکھوں کو پڑھنے سے گریزاں کہ میری زندگی میں بہت سی خزائیں آ کر گزر چکی تھیں۔ پھوپھا کے گزرنے کے بعد اب وہی خاندان کے سربراہ تھے اور ان کی بیگم نے پھوپھی کی جگہ لے لی تھی۔ پھوپھی اب بہت ضعیف تھیں اور کسی معزول حکمران کی طرح شکستہ۔ سنا یہی کہ بڑے گھر کی مطلق العنان بیٹی ان کو پانی کے لیے بھی نہیں پوچھتی تھی۔

دو سال پہلے جب میں پاکستان گئ تھی تو پھوپھی بڑی دل گیر سی لگیں اور جانے کیوں میرا ہاتھ پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر روئیں۔ اس دن انہوں نے ابا اور محمود چچا کو بھی بہت یاد کیا اور مجھے اپنی بہو نہ بنانے کے پچھتاوے کا اقرار بھی کیا۔ پر گیا وقت کب لوٹتا ہے؟ میری واپسی کے دو مہینے بعد ان کی بھی سناؤنی آ گئ۔ میں مانتی ہوں کہ یہ میری حماقت ہے کہ خالد کی حقیقت جان کر بھی میں ان کی اسیر رہی۔

وہ چاہتے تو میرے حق میں اسٹینڈ لے سکتے تھے کہ اپنی بات منوانے کے لیے ان کے پاس اپنے اکلوتے پن کا ٹرم کارڈ تھا پر جانے وہ بزدل عاشق تھے یا زر پرست، میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی۔ میری چوٹ کھائی ہوئی انا اور ضد نے دن رات کی جان توڑ محنت سے مجھے معاشی طور پر تو پھوپھی کے ہم پلہ کر دیا تھا کہ میں سڈنی کی ٹاپ کی anesthesiologist تھی۔ اب میں ٹٹ پونجیاں نہیں رہی تھی بلکہ بہت دولت مند، پر دل اب بھی خالی کا خالی۔

مجھے تو اس دولت کا مصرف بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا پر شکر کہ میرے بینک کا فائنانس ایڈوائزر بہت منجھا ہوا تھا اور میرے پیسے کو بہت ہشیاری سے مینج کرتا تھا۔ میں نے بہترین انٹریر ڈیزائنر سے مل کر پانچ دنوں کے اندر اندر گھر کا ڈیکور از سرے نو تبدیل کروا دیا۔ جب جامی واپس آئے تو گھر ان کے لیے ایک انبساط بھرا سرپرائز تھا۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور گھر کی سجاوٹ کو بہت سراہا۔

میں نے کہا کہ اگر پچھلی سجاوٹ اتنی بری لگی تھی تو مجھے ٹوک دیتے۔ کہنے لگے ایک آدھ دفعہ تمہیں کہا تو تھا مگر تم اتنی خوش اور پرجوش تھیں کہ مجھے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں لگا۔ ویسے بھی گھر تو عورت کا ہوتا ہے سو اس کو سجانا بنانا اسی کو زیب دیتا ہے۔ میں تمہاری خوشی میں خوش ہوں۔ ان کے اس جملے پر مجھے ایسا لگا جیسے میرا برسوں کا ٹھٹھرا ہوا دل یکلخت پگھل گیا ہو۔

رات میں چاندنی کے سائے تلے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میں نے انہیں خالد کے بارے میں سب کچھ بتا دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ شاید وہ اب بھی دل میں ہے۔ جامی بخدا حیران کن شخصیت ہیں۔ مزے سے کہنے لگے "سنئیے میری خاتون اول دل کے چار خانے ہوتے ہیں اگر خالد کسی کونے کھدرے میں پڑا ہے تو پڑا رہنے دیجیے۔ آپ کا کیا بگاڑتا ہے؟ آپ نہ تو اسے یاد کرنے کا آزار اٹھائیے اور نہ ہی اس کو بھولنے کے جوکھم میں اپنی جان کھپائیے۔

میں ویسے بھی صحرا کا بیٹا ہوں سو اونٹ کی خصلت بھی رکھتا ہوں اور آپ کے خیمہء دل میں سر ڈال ہی چکا ہوں لہٰذا عنقریب میں ہی میں وہاں موجود ہوں گا، ٹرسٹ می۔ " شکر اس ربّ کا جس نے مجھے ایسا کھلے ذہن کا فہیم دلبر عطا کیا۔ واقعی مجھے کوئی کشٹ اٹھانے کی ضرورت نہیں کہ یہ یک طرفہ چاہت جو عرصے سے لائف سپورٹ پر ہے اب شاید خود ہی ختم ہو جائے۔

آج میں واقعی move on کر چکی ہوں اور میرے دل میں جامی کی محبت کا دیا روشن ہو گیا ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اس روشنی میں میری باقی ماندہ زندگی کا سفر پر اعتماد اور آرام دہ ہے۔ سچ اب تو بے حساب شکر کے ساتھ بس ایک ہلکا سا شکوہ ہے۔

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے۔

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar