Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Yasin/
  4. Madrasa Farahi Aik Munfarid Zawiya e Nazar Kaise?

Madrasa Farahi Aik Munfarid Zawiya e Nazar Kaise?

مدرسہ فراہی ایک منفرد زاویہ نظر کیسے؟

مسلم روایات میں اب تک تین ہی منہج رہے ہیں۔ جس میں فقہی منہج، سلفی منہج اور صوفی منہج۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ منہج کیا ہیں اور ان کے وجود میں آنے کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ کوئی اجنبی بات نہیں بلکہ ہر علم میں خواہ سائنس ہو، فلسفہ یا مذہب، ان تمام علوم میں مختلف مسالک، نظریہ اور زاویہ نظر رکھنے والی شخصیات ہوتی ہیں۔ اسی طرح اسلامی روایات میں بھی اس وقت یہ تین منہج یا نقطہء ہائے نظر ہیں۔ سب سے پہلے فقہی منہج کا جائزہ لیتے ہیں۔

حضور ﷺ کے بعد قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے تین ہی منہج قائم ہوئے ہیں کیونکہ جب تک محمد ﷺ لوگوں میں موجود تھے تو قرآن کو سمجھنے کیلئے ان سے رجوع کیا جاسکتا تھا تاہم ان کے بعد یہ بحث شروع ہوئی کہ اب قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے کونسی چیز قاضی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس ردعمل میں تین منہج وجود میں آئے۔ فقہی منہج سے مراد ہے کہ اگر قرآن مجید کو پرکھنے اور سمجھنے کیلئے امت میں جس چیز کو اجماع حاصل ہوگیا ہے وہی چیز قاضی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اجماع دو اقسام کے ہوتے ہیں ایک تاریخی اجماع اور دوسرا فہم کا اجماع۔ یہاں فہم کا اجماع مراد لیا جارہا ہے۔

دوسرا منہج سلفی منہج ہے۔ اس سے مراد ہے کہ جو بھی حضور ﷺ کا قول و فعل اسلامی تاریخ، صحائف اور صحابہ کے آثار سے ملتے ہیں ان ہی کی روشنی میں قرآن کو سمجھا جائے۔ کیونکہ قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے حضور پاک کے فہم سے ماوراء کوئی اور انسانی فہم نہیں ہوسکتا۔ یہ بات ایک لمحے کیلئے بالکل درست لگتی ہے تاہم اس کے علاوہ تیسرا منہج بھی ہے جسے صوفی منہج کہا جاتا ہے۔

صوفی منہج سے مراد ہے کہ جو مسلمان صوفیاء نے اپنے روحانی تجربہ و مشاہدہ سے حاصل کیا ہے اسی کی روشنی میں قرآن مجید کو سمجھا جائے گا مطلب روحانی مراقبہ و مشاہدہ ہی اصل قاضی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صوفیاء کے نزدیک کیونکہ انہیں براہ راست روحانی مشاہدہ ہوتا ہے تو وہ اسی کو اصل پر رکھ کر قرآن کو سمجھتے ہیں۔ اس سارے منہج میں ایک بات واضح ہونا ضروری ہے کہ ضروری نہیں کہ صوفی اجماع اور روایات کو نظر انداز کرتے ہیں یا سلف اجماع کو یا فقہاء روایات اور تصوف کو بلکہ ان منہج میں اصل وہی قرار پاتی ہے جس کو قاضی کی حیثیت حاصل ہو۔

مثلاً صوفی منہج میں تصوف، سلفی منہج میں روایات اور فقہی منہج میں اجماع وغیرہ لیکن مدرسہ فراہی ایک چوتھا منہج ہے جس کا آغاز امام حمید الدین فراہی نے کیا۔ مدرسہ فراہی میں اصل کی حیثیت قرآن مجید ہی کو حاصل ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کو فرقان کہا جاتا ہے کہ جہاں دین و دنیا میں تضاد واقع ہو وہاں فیصلہ کن حیثیت قرآن مجید کو حاصل ہے اس کے بعد روایات، اجماع اور قیاس کو۔ سادہ زبان میں قرآن اصل ہے اور حدیث اس کی فرع ہے۔

امام فراہی کا اصل نام حمیدالدین فراہی ہے۔ آپ 18 نومبر 1863 کو بھارت کے صوبہ یوپی کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور 67 کی عمر میں، 11 نومبر 1930 کو وفات پائی۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ وہ مولانا شبلی نعمانی سے متاثر بھی تھے۔ آپ کا شجرہ نسب ابو احمد حمیدالدین فراہی بن عبدالکریم بن قربان قنبر بن تاج علی بن قائم علی بن دائم علی بن بہاالدین ہے۔ مدرسہ فراہی اس وقت تین ادوار میں پھیلا ہوا ہے پہلا دور خود امام فراہی کا ہے دوسرا دور امام امین احسن اصلاحی اور تیسرا مطلب موجودہ دور جاوید احمد غامدی کا ہے۔

دبستانِ شبلی میں جس شخص کو امام العصر کہنا چاہیے، وہ تنہا امام حمید الدین فراہی ہیں۔ وہ اِس زمین پر خدا کی آیات میں سے ایک آیت تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی کو پڑھیے، وہ اُن کی وفات پر لکھتے ہیں:

"الصلوٰۃ علیٰ ترجمان القرآن (مفسر قرآن کی نماز جنازہ) وہ صدا ہے جو آج سے ساڑھے چھ سو برس پیشتر مصر و شام سے چین کی دیواروں تک ابن تیمیہؒ کی نماز جنازہ کے لیے بلند ہوئی تھی۔ حق یہ ہے کہ یہ صدا آج پھر بلند ہو اور کم از کم ہندوستان سے مصر و شام تک پھیل جائے کہ اِس عہد کا ابن تیمیہ 11 نومبر 1930ء (19 جمادی الاخریٰ 1349ھ) کو اِس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وہ جس کے فضل و کمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں۔ جس کی مشرقی و مغربی جامعیت عہد حاضر کا معجزہ تھی۔

عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا گریجویٹ، زہد و ورع کی تصویر، فضل و کمال کا مجسمہ، فارسی کا بلبل شیراز، عربی کا سوق عکاظ، ایک شخصیت مفرد، لیکن ایک جہان دانش۔ ایک دنیائے معرفت، ایک کائنات علم، ایک گوشہ نشین مجمع کمال، ایک بے نوا سلطان ہنر، علوم ادبیہ کا یگانہ، علوم عربیہ کا خزانہ، علوم عقلیہ کا ناقد، علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کا واقف اسرار، قرآن پاک کا دانائے رموز، دنیا کی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے رد و قبول اور عالم کی داد و تحسین سے بے پرواہ، گوشۂ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ۔ وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن پاک اور صرف قرآن پاک کے فہم و تدبر اور درس و تعلیم میں محو، ہر شے سے بے گانہ اور شغل سے نا آشنا تھی"۔

Check Also

Kisan Ko Maar Kyun Nahi Dete?

By Raheel Moavia