Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sultan Ahmed/
  4. Summer Camp

Summer Camp

سمر کیمپ

ذرا تصور کریں ایک ایسے اسکول کا جہاں ہوم ورک نہ ہونے کے برابر ملتا ہو، ایک ہی ٹیچر تقریباََ 6 سال بچوں کو پڑھائے اور طلبہ و اساتذہ میں ایک فیملی کے فرد کی طرح کا رشتہ ہو اور وہ آپس میں گھل مل جائیں۔ اسکول ہی میں بچوں کو مفت کھانا بھی تقسیم کیا جائے۔ اس اسکول میں کلاس کا دورانیہ کم اور بریک زیادہ ہوں، بچوں کو شام میں ٹیوٹر کے پاس بھی نہ جانا پڑے جس سے جیب پر غیر ضروری ڈاکا بھی نہ پڑے۔

بچوں کو کھانے پینے، کھیلنے اور ایک دوسرے سے گھلنے ملنے (socializing) کی آزادی ہو، کوئی بھی بچہ سات سال کی عمر سے پہلے اسکول میں داخل نہ ہو سکے اور نہ ہی اس اسکول میں کسی قسم کا باقاعدہ امتحان یا ٹیسٹ لیا جائے۔ اور تو اور طلبہ میں آپس میں مقابلے کی فضا نہ ہو، نہ ٹاپ کرنے کی ریس، نہ فیل ہونے کا خوف۔ اساتذہ بھی پرنسپل کے علاوہ کسی اور کے سامنے جواب دہ نہ ہوں اور ایک کلاس میں بچوں کا کھڑکی توڑ رش نہ ہو۔

سب سے بڑھ کر اس اسکول میں تدریس کا آغاز صبح نو بجے کے بعد ہو تاکہ بچے اپنی نیند پوری کرکے تازہ دم ہو کر "پڑھنے" جیسی ذہنی مشقت کے لیے تیار ہو سکیں۔ آپ یقیناََ سوچیں گے یہ "آئیڈیل" اسکول تصور کی حد تک بھی اسکول کے رائج تصورات اور حقائق پر کسی طرح بھی پورا نہیں اترتا۔ بھلا ایسا کون سا اسکول ہو سکتا ہے جو نو بجے شروع ہو، جہاں گھر کا کام نہ ملے اور جو امتحان تک نہ لے۔ بچہ کو کسی ایسے اسکول میں داخل کرانا سراسر وقت اور پیسے کا زیاں ہے۔

ایسے اسکول کا تو تصور کرنا بھی محال ہے جو بچے کو "مزدور" کی طرح خوب رگڑا نہ دے۔ مگر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا میں ایسے اسکول نہ صرف قائم ہیں بلکہ دنیا کا بہترین تعلیمی نظام رکھتے ہیں۔ یہ سکول ہیں یورپ کے ملک فن لینڈ میں۔ جی ہاں فن لینڈ دنیا کا بہترین تعلیمی نظام رکھنے والا ایسا یورپی ملک ہے جس نے امریکہ جیسے ملک کو اس میدان میں پچھاڑ دیا ہے۔ یہاں پرائیویٹ اسکول نہ ہونے کے برابر ہیں اور مذکورہ "سہولیات" سرکاری اسکولوں میں ہی پائی جاتی ہیں۔

آپ بھی یقینی طور پر دیگر والدین کی طرح پریشان ہونگے کہ بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور کس طرح اس وقت کو "ٹھکانے" لگایا جا سکتا ہے کہ "تیرے بن" کی باقی اقساط بھی دیکھ لی جائیں اور بچے بھی مصروف رہیں۔ جو والدین صاحب حیثیت ہیں وہ جنّت نظیر شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکل جاتے ہیں اور دیگر بہت سے اپنے آبائی علاقوں کو جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

بہت عرصے سے اسکولز اور نجی ادارے سمر کیمپ کا بے ثمر انقعاد کرتے ہیں جس میں بچوں کو تعمیری تربیت اور معاشرتی مہارتیں سکھانے کے بجاے وقت گزاری اور پیسہ بٹوری زیادہ ہوتی ہے۔ بچوں کو چھٹیوں کا کام کروا کر سمر کیمپ کا حق ادا کر دیا جاتا ہے۔ ماں باپ بھی یہی چاہتے ہیں کے بچے اسکول کا کام کر لیں اور وقت بھی گزر جائے۔ بچوں نے اگر چھٹیوں میں بھی اسکول میں ہی پناہ گزین رہنا ہے تو چھٹیوں کا مقصد ہی کیا رہ جاتا ہے۔ اسی اسکول کی عمارت اور ماحول میں ہی چھٹیاں گزار کر بچے اسکول سے متنففر ہو جاتے ہیں۔

بچوں کو چھٹیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے وہ دوبارہ چارج ہو کر اسکول لگن سے جائیں۔ یاد رہے کہ جون جولائی کی چھٹیاں انگریز سرکار کے دور سے چلی آ رہی ہیں جب انگریز برصغیر کی گرمی سے پریشان ہو کر اپنے دیس سدھار جاتے تھے۔ ہم چونکہ ان گرمیوں کے عادی ہیں لہٰذا آج تک ہم انکا مصرف نہ سمجھ سکے بس انہیں کسی طرح گزارنا ہے تاکہ اگست میں اسکول کھلیں اور بچے پھر سے اس مشینی زندگی میں واپس چلے جائیں جس کا وہ پرزہ ہیں۔

جہاں آج بچوں کو موبائل فون کی سکرین کے وقت کو محدود کرنے کی ضرورت ہے وہیں اسے کارآمد اور تعمیری بنانا اس دور کی ضرورت ہے۔ ہمارے کلچر میں چھٹی کا مطلب کسی بھی کام سے مکمل طور پر آزاد اور لاتعلق ہو جانا ہے۔ جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو اسلام میں چھٹی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ ترقی یافتہ قومیں چھٹی والے دن اپنا روٹین کام چھوڑ کر کسی دوسری سرگرمی میں مشغول ہو جاتے ہیں جیسے کتابیں پڑھنا، آؤٹنگ کرنا، کوئی نئی سکل سیکھنا یا پھر کوئی فلم دیکھنا وغیرہ۔

سمر کیمپ کو حقیقی "ثمر" کیمپ بنانے کے لئے نہ صرف اپنے گھر کو بلکہ اپنے نانا نانی، دادا دادی، ماموں، چاچو وغیرہ کے گھروں کو سمر میں کیمپ بنا لینا چاہیے۔ بچوں کو رشتوں سے ملوائیں، کہانیاں سنائیں اور سنوائیں، اس دور میں سانس لیتے بچوں کو یوٹیوب کے بجائے بزرگ رشتوں سے کہانیاں سنائیں، بزرگوں کی محفل میں کیمپ کروائیں اور حقیقی تربیت کریں جو کسی سمر کیمپ میں بھاری بھرکم فیسیں دے کر حاصل نہیں کی جا سکتی۔

موبائل سے جان چھڑانے کے لئے یہ فیصلہ کر لیں کہ یہ کوئی کھلونا ہے یا نہیں۔ اگر تو یہ کھلونا ہے تو بیشک بچوں کو کھیلنے دیں ورنہ بچوں کو اس کے نشے سے دور رکھیں۔ خود انکے سامنے استعمال سے گریز کریں۔ کتابیں، میگزین پڑھیں، پرانے دور کے کھیلوں کا رواج پھر سے شروع کریں اور اپنے ثمر کیمپ کا حصّہ بنائیں۔ اپنے دور کے کھیل جیسے لوڈو، کیرم، کروڑ پتی لنگڑی پالا، پٹھو گرم جیسے سستے مگر تعمیری کھیل بچوں پر نہ صرف مثبت اثرات مرتب کرینگے بلکہ وہ ساتھ رہنا، مل کر کھیلنا، بانٹنا، ہارنا بھی سیکھ سکیں گے۔

اور فی زمانہ ان صلاحیتوں کی اشد ضرورت ہے کہ ایک طرف بچے موبائل سکرین سے چپکے ہوئے ہیں تو دوسری طرف مل جل کر کھیلنے کا رجحان خطرناک حد تک کم ہوا ہے۔ آجکل بچوں میں فزیکل کھیل کھیلنے کا جنون نہ ہونے سے صحت کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ چھٹیوں میں بچوں کو پارکس لے جائیں، کسی بھی قریبی تفریح گاہ لے جائیں، کبھی آئیس کریم کھلانے لے جائیں۔ مقصد بچوں کو لوگوں سے ملانا ہے اور باہر کے ماحول میں کیسے رہنا ہے، کیسے برتاؤ کرنا ہے یہ سب بچوں کی کردار سازی کے لئے ضروری باتیں ہیں۔

بد قسمتی سے یہ کردار سازی اسکول میں ناپید ہے۔ بچوں پر ان دو مہینوں میں کچھ مسلّط نہ کریں بےجا روک ٹوک نہ کریں بلکہ انکی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے تھوڑی آزادی دیں۔ ایسا سمر کیمپ حقیقی ثمر کیمپ ہوگا جس میں بچے جنہوں نے مستقبل میں والدین کا کردار نبھانا ہے، یہ جان سکیں گے کہ گھر اور ہمارے اردگرد کا ماحول بھی اسکول کی طرح ایک تربیتی ادارہ ہے اور ہمارے خاندان کے لوگ بھی اساتذہ کی طرح کچھ نہ کچھ سکھانے کے اہل ہیں۔

فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی کامیابی بھی اسی راز میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے تعلیم و تربیت کی ترتیب تربیت و تعلیم سے بدل دی ہے اور ہمیں بھی تعلیم سے پہلے تربیت کی لائن میں لگ جانا چاہیے۔ اسکول نہ سہی کے اس سسٹم کو ہم بدلنے کی سکت نہیں رکھتے، اپنے گھر کو ہی فن لینڈ بنا لیا جائے۔

Check Also

Pakistani Ghante Ki Qeemat

By Maaz Bin Mahmood