Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Oal Foal

Oal Foal

اول فول

عید آنے والی ہو۔ یا بچوں نے سیر کے لیے کہیں جانا ہو۔ کئی روز پہلے سے سارا دن آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ نئے کپڑوں، جوتوں کا ذکر رہتا ہے۔ سیر کی تصوراتی باتیں کرتے ہیں۔ وہاں ایسا کریں گے، ویسا کریں گے۔ منصوبے بناتے ہیں۔

سکول کالج میں کوئی فن فئیر ہو یا کوئی کرکٹ ہاکی کا میچ، تقریری مقابلے ہوں یا کوئی ٹؤر۔ ذہن پر سوار ہو جاتے ہیں۔ نوجوان دن رات تیاری میں لگ جاتے ہیں، جزئیات کا تذکرہ۔ منصوبہ بندی، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ معمول سے زیادہ وقت گزارتے ہیں یہاں تک کہ ہفتہ دو ہفتے کے لیے ڈے سکالرز بھی ہاسٹل میں منتقل ہو جاتے ہیں کہ پورا وقت پوری توجہ ہدف حاصل کرنے پر صرف ہو۔

گھر میں شادی ہو کئی ماہ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اسی کی باتیں، کپڑے جوتے، زیور کارڈ کہاں سے خریدنا۔ کسے بلانا، کونسا ہال، گویا ہمہ وقت سب گھر والے اسی کی منصوبہ بندی میں لگ جاتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ جس کام کی ہمارے نزدیک اہمیت ہوتی ہے وہ ہمارے ذہنوں پر سوار ہو جاتا ہے، اور اس حد سے بڑھتی توجہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیشتر اوقات یہ کام بطریق احسن پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں۔

اب سوچیں ہماری زندگیوں میں سب سے زیادہ اہم امر کونسا ہے۔ میرے خیال میں تو آمدنی یا کمائی ہے۔ ہر شخص کی خواہش اور کوشش تو ہوتی ہے کہ اس کی آمدن زیادہ سے زیادہ ہو تاکہ وہ پر سکون بلکہ پر تعیش زندگی گزار سکے۔ لیکن اس حقیقت اور خواہش کے باوجود زیادہ کمائی کرنا یا خوشحال ہونا بحیثیت مجموعی ہمارے ذہنوں پر سوار نہیں۔ ورنہ ہم سوشل میڈیا پر، ٹی وی پروگراموں میں، سکولوں، کالجوں اور جامعات میں ہر وقت نہ سہی بیشتر وقت اسی پر بات کرتے۔

ہمسایہ ملک میں دیکھیں درجنوں ٹی وی پروگرام سٹارٹ اپس پر ہیں۔ شارک ٹینک شو ان کے مقبول ترین پروگراموں میں سے ایک ہے۔ جو امریکی ٹی وی شو شارک ٹینک کا فرینچائز ہے۔ گویا امریکہ میں بھی یہی چلن ہے۔ مزید برآں بھارت کے بڑے بڑے یوٹیوب چینلز کاروبار، صنعت اور ان سے متعلق امور پر ہیں ان کے فالوورز لاکھوں اور ویوز کروڑوں میں ہوتے ہیں، وہاں سکولوں میں بچوں کو کمائی کے لیے ہدف دیے جاتے ہیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ ترقی ان کے ذہنوں پر سوار ہے۔

جبکہ بدقسمتی سے ہمارے اور بطور خاص ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں پر سیاست یا اینٹرٹینمٹ سوار ہے۔ ہمارے سارے مقبول پروگرام گھٹیا جگتوں والے یا بے رحم سیاست پر ہوتے ہیں۔ لوگوں کو مسلسل ایسی بےکار سطحی اشیاء دکھا کر ان کا عادی بنا دیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر سطحی سوچ کے حامل ٹک ٹاکرز نے پوری کر دی ہے جن کے ہاں شہرت اور ویوز ہر اخلاقی اقدار پر مقدم ہیں۔

دوسری طرف سکول کالجوں کے اساتذہ اور اہل علم اور خاص طور پر ٹی وی پر روزانہ آموجود ہونے والے دوستوں پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ مجال ہے کسی ڈھنگ کے کسی مفید موضوع پر کوئی مثبت مذاکرات کریں۔ حالانکہ ہونا تو یہی چاہیے کہ کبھی نظام تعلیم اور اس میں موجود کجیوں خامیوں پر بات ہو۔ کبھی لوگوں کی قدر ان کے ہنر بڑھانے پر بات ہو۔ کبھی اخلاقیات کی زبوں حالی کے اسباب زیر بحث ہو تو کبھی ان کے تدارک پر بات کی جائے، مگر۔

اوہ۔ معذرت نیند میں ہم نامعلوم کیا کیا اول فول کہہ گئے، تو ذرا بتائیں تو نئی پارٹی کا منشور اور مولوی عثمان کی کوئی ویڈیو آئی کہ نہیں ابھی۔

Check Also

Bijli Kyu Karakti Hai

By Javed Ayaz Khan