Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khateeb Ahmad/
  4. Down Syndrome Trisomy 21

Down Syndrome Trisomy 21

ڈاؤن سنڈروم ٹرائیسومی 21

لاہور میں رہنے والا نارائن اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔ اور ڈاؤن سنڈروم Trisomy 21 کے ساتھ ہے۔ نارائن کے والدین نے سندھ میں موجود اپنی ہندو برادری سے نارائن کے لیے ایک ڈاؤن سنڈروم بہو تلاش کی ہے۔ وہ اس جوڑے کی شادی صرف اس لیے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ آپس میں میاں بیوی بن کر ایک اچھی زندگی گزار سکیں۔ وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ نارائن کبھی بھی باپ نہیں بن سکتا۔ اور یہ بات ان کو ذرا بھی دکھی نہیں کرتی۔ مجھے دو دن قبل اس فیملی سے لاہور میں انکے گھر ملنے کا موقع ملا۔ نارائن سب کا خیال رکھنے والا دن میں دو بار صبح شام گھر میں ہی بنے مندر جا کر پوجا کرنے والا اور بازار سے سارا سودا سلف لانے والا بڑا ہی پیارا 25 سال کا بچہ ہے۔

اس فیملی سے ملکر دلی خوشی ہوئی کہ وہ بچے کی شادی ایک خوبصورت مقصد کے تحت کر رہے ہیں۔ ورنہ کتنے ہی ڈاؤن سنڈروم بچوں کے والدین رابطہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے بچے کی شادی کسی غریب لڑکی سے کر دیں۔ تو کیا وہ باپ بن سکتا ہے؟ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کے اور بچے نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اور بھی بیٹے بیٹیاں ہیں۔ میں سمجھاتا ہوں کہ ان سے آپ لوگ دادا دادی اور نانا نانی بن جائیں گے۔ کسی کی بیٹی کو کیوں عمر بھر کا روگ دینا ہے۔

اگر شادی کرنی ہے تو ڈاؤن سنڈروم سے کریں اور بچوں کو بھول جائیں۔ سب کا ایک ہی جواب ہوتا کہ اگر بچے ہی نہیں ہونے تو شادی کا فائدہ؟ ہم چاہتے ہیں ہمارا یہ سپیشل بچہ اپنے نام پر ہی نہ ختم ہو جائے۔ اسکا نام لینے والا کوئی اسکے پیچھے ہو۔ یہ جواب امیر غریب پڑھے لکھے اور ان پڑھ سبھی دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوچ نجانے کب بدلے گی کہ شادی کے بعد ہر صورت بچے ہی پیدا ہوں۔ لاکھوں عام لوگوں (خصوصاً لڑکیوں) کی زندگی بھی یہ سوچ تباہ کر رہی ہے کہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طعنے سہنے پڑتے اور اکثر جگہوں پر طلاقیں ہو جاتیں۔

اور سپیشل بچوں کو لیکر بھی وہی سوچ سماج کے ذہنوں پر حاوی ہے۔ وہ کونسی انسانوں کی ایسی نایاب نسل سے تعلق رکھتا ہے کہ اسکے سپرم سے اگر بچہ نہ پیدا ہوا تو اس دنیا کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ عجیب ہی جاہلانہ خیالات ہیں۔

نارائن کے والدین اس شادی کو اور خود کو پبلک نہیں کرنا چاہتے کہ وہ لوگوں کے جاہلانہ کمنٹس اور فضول تبصرے نہیں سننا چاہتے۔ ورنہ میں اس شادی کی میڈیا کوریج چاہ رہا تھا۔ مگر والدین اس پر راضی نہیں ہیں۔ ان کے خاندان میں بھی انکو تنقید کا سامنا ہے کہ جب شادی کے بعد بچے ہی نہیں ہو سکتے تو آپ لوگ کیوں یہ شادی کرنے جا رہے ہیں۔ مجھ سے ملنے کا ان کا ایک خاص مقصد تھا کہ میں اس چیز پر بھی لکھوں کہ ان سپیشل بچوں کی شادیاں ضرور کریں۔ جن میں انکی معذوری اگلی نسل میں ٹرانسفر ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اور انکی بھی شادی کریں جو والدین نہیں بن سکتے۔ مگر میاں بیوی تو بن سکتے ہیں۔

تاہم دانشورانہ پسماندہ بچوں جسے عرف عام میں ذہنی معذوری کہا جاتا ہے۔ ان بچوں کی شادی نہ کریں۔ آٹزم میں بھی لیول 2 اور 3 کی شادی ریکمنڈڈ نہیں ہے۔ لیول 1 میں سب کی نہیں مگر چند بچوں کی شادی جنیٹک ٹیسٹنگ کے بعد ممکن ہے۔ آسان لفظوں میں کہوں تو جس کو بھی شادی لفظ کا مطلب ہی نہیں معلوم۔ وہ اس رشتے میں کیسے جا سکتے ہیں۔

میرے آس پاس کئی لوگوں نے اولاد کی خاطر Intellectual disability کے حامل افراد کی بھی شادیاں کی ہیں۔ بیٹی والے زمین یا دولت کے لالچ میں آ کر بیٹی کا رشتہ دے دیتے۔ یہ ایک مجرمانہ فعل ہے۔ جسکی انکو سزا ہونی چاہیئے۔ اکثر تو طلاقیں ہو جاتی ہیں۔ چند ایک جگہوں پر اولاد ہوئی بھی ہے مگر ان میں سے بھی ایک دو بچے عمر بھر کی ذہنی معذوری کے ساتھ ہیں۔

Check Also

Rezgari

By Ruqia Akbar Chauhdry