Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asad Ur Rehman/
  4. Khudai Chowkidar Aur Uthaye Geer

Khudai Chowkidar Aur Uthaye Geer

خدائی چوکیدار اور اُٹھائی گیر‎‎

ہماری قوم یعنی پاکستانیوں کی ڈیفالٹ ویلیو نیگٹو اور پسندیدہ مشغلہ اڑتے تیر کو خود پر لینا ہے۔ دراصل ہماری 70 سالہ تاریخ ماما گیری اور اُٹھائی گیری پر محیط ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی ہر برائی کا آغاز بیرونی سازش اور ہر اچھائی کا سہرا اپنے ناقابلِ تسخیر ٹیلنٹ میں نظر آتا ہے۔ ستر سال بعد نتیجہ کیا ہے۔ معاشی دیوالیہ پن، اخلاقی انحطاط اور سماجی بگاڑ۔

ہمارے ملک میں ہر طبقہ دنیا میں موجود اقوام، تہذیبوں اور ثقافت کی اٹھائی گیری میں سرگرم نظر آتا ہے۔ کسی کے نزدیک یورپ اور امریکہ کامیاب ریاستی نظام کی عمدہ مثالیں ہیں۔ کسی کے نزدیک سعودیوں جیسے قدامت پسندی اور دینی مظاہر کے عملی نمونے کرہ ارض پر ناپید ہو چکے ہیں۔ کسی کے نزدیک ایران جیسی ریاست جدید دور کی ریاستی بغاوت کا شاندار نمونہ ہے۔

ان تمام نظریات اور وابستگی کے پس منظر میں جونہی عالمی منظر نامے پر ان طبقات کے کسی گروہ کو کامیابی یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو مملکت خداداد میں گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ چند دہائیاں قبل یہ مکالمے اور بحث، ڈیروں چوراہوں اور عوامی اجتماعات میں میں وقوع پذیر ہوتے تھے۔ اب یہ سہرا سماجی میڈیا کے سر پر سج چکا ہے۔ ہم جیسے ذہنی غلام و اُٹھائی گیر ہمہ وقت تاک میں رہتے ہیں۔ کہ کب کوئی نیا کٹّا کھلے اور ہم اپنے اپنے تھن چوسنے بیٹھ جائیں۔

20 نومبر 2022 کو مشرق وسطی کی عرب مسلم ریاست قطر کو پہلی بار بطور عرب و مسلم ریاست اعزاز حاصل ہوا کہ وہ عالمی سطح کے کسی بھی مقبول کھیل کے سب سے بڑے مقابلے کی میزبانی کا اعزاز حاصل کرے گا۔ کھیلوں کے عالمی مقابلوں کی افتتاحی و اختتامی تقاریب اتنی ہی پرانی ہیں، جتنی عالمی مقابلوں کی تاریخ۔

کسی بھی عالمی مقابلے کی میزبانی اس ملک کے لیے معاشی، سماجی اور ثفاقتی بہتری کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ اس تناظر میں ہر میزبان ملک کی کوشش ہوتی ہے وہ کثیر تعداد میں مہمانوں کو خوش آمدید کہے اور اس موقع پر ان کو اپنی ثفاقت، رہن سہن و روایات سے روشناس کروائے۔ تاکہ وہ مہمان اپنے ممالک میں جا کر اس ملک کی میزبانی ثفاقت، رہن سہن و روایات سے اپنے لوگوں کو آگاہ کریں۔

قطر نے عالمی مقابلے کی افتتاح تقریب میں اپنی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی ثقافت اور جدید فنون کے امتزاج سے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ عالمی مقابلے کے آغاز سے قبل قطر کے حکومتی نمائندے نے مہمانوں سے درخواست کی تھی کہ وہ بطور میزبان اپنے ملک میں ہر مہمان کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں، مگر ساتھ ہی درخواست کرتے ہیں، ان کی روایات اور قوانین کا مکمل احترام کیا جائے۔

اس درخواست میں نہ تو کوئی ایسی قباحت تھی اور نہ ہی کوئی دھمکی یا دھونس کا عنصر میزبانی اور مہمان نوازی کے آداب کا یہ تقاضا ہے کہ مہمانوں کو پیشگی اپنے ماحول، روایات اور قوانین سے آگاہ کر دیا جائے تاکہ مہمانوں کو کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر قطری حکومتی عہدیدار کے اس بیان پر ہمارے مخصوص طبقہ کی دُم پر ایسا پاؤں پڑا کہ انہوں نے قطر کے اس اقدام پر تنقیدی، تضحیک آمیز اور تمسخرانہ جملے بازی کی بوچھاڑ کر دی۔

صرف ایک ہفتہ قبل کی بات ہے۔ جب آسٹریلیا میں منعقدہ عالمی کرکٹ کپ کی اختتامی تقریب میں انہوں نے وہاں پر موجود مقامی باشندوں کی تہذیب سے دنیا کو روشناس کروایا، اس پر تو کسی قسم کا نہ مروڑ اٹھا، نہ کسی نے اسکو عالمی میزبانی کے آداب سے بغاوت قرار دیا۔ اگر قطر کو اپنی روایات اور ثقافت کے اظہار کے لیے دینی احکام سے مدد لینی ہے تو ہمیں اس پر اعتراض کیونکر۔

بنیادی مسئلہ ہماری نظریاتی وابستگی اور جذباتی لگاؤ کا ہے، ہمیں اس سے غرض نہیں کہ کوئی ریاست خود کو دنیا کے سامنے کیسے پیش کرتی ہے۔ ہمیں غرض اس سے ہے کہ وہ عمل ہماری نظریاتی وابستگی سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟ دوسری جانب افتتاحی تقریب میں اسلامی ٹچ پر ہمارا مذہبی طبقہ فرطِ جذبات سے لبریز ہے۔ یہی طبقہ چند سال قبل سعودی اُٹھائی گیری پر مامور تھا۔

لیکن جب سے محمد بن سلمان نے جدید دنیا کے مزاج کو سمجھ کر اپنے ریاستی مفاد کو ہر چیز پر مقدم رکھا ہے، تب سے ہم اپنے نئے آقا تلاش کر رہے ہیں۔ کبھی ہمیں اسلامی قیادت کی جھلک ترکوں میں نظر آتی ہے تو کبھی قطریوں میں، مگر ہمیں یہ جھلک ہمیشہ اسلامی ٹچ پر ہی نظر آتی ہے، ہم ان کی معاشی ترقی اور جدید دنیا سے تعلقات کے پس منظر کو بھول کر ان کی جدید دور کی ترقی سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

جدید دنیا میں تمام فلاحی ریاستوں کے لیے اپنی عوام کی فلاح و بہبود مقدم ہے، اس کے لیے ان کو خواہ اپنی چار ہزار سالہ روایات کو مسخ کرنا پڑیں وہ گریز نہیں کریں گے۔ مگر ایک ہم ہیں، جن کی نہ تو کوئی ہزار سالہ تاریخ ہے نہ کوئی ایسا کارنامہ جس پر ہم آنے والی نسلوں کو تفاخر کا احساس دلا سکیں۔ ہم اپنے سابقہ آقاؤں اور حکمرانوں کی عطا کردو روایات اور ثقافت کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔

ہماری غلامی کے تاریک دور میں ہمارے شعرا و فلسفیوں کو بغاوت کا درس بھی ملا تو انہی آقاؤں کے دیس سے جن کی اولادوں نے بعد ازاں ہم پر حکمرانی کی۔ جبکہ اپنی دھرتی کے سپوت جنہوں نے عملی بغاوت کا علم بلند کیا ان کو غدار قرار دے دیا گیا۔ یہی تاریخ آج بھی ہمارے نصاب کا حصہ ہے اور ہماری نئی نسل اس من گھڑت تاریخ سے ذہنی غلامی کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔

بطور پاکستانی ستر سالہ ترقی کا واحد شعبہ دفاع ہے، جو الحمدللہ مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ اسلیے ہم اس عالمی کپ میں بھی کرائے کے محافظ یا چوکیدار ہیں۔ ہماری روزی روٹی اس چوکیداری کے گرد گھومتی ہے۔ ہمیں ستر سال یہی سکھایا گیا کہ ہم ہزار سال سے محکوم ہیں، ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں نے ہمارا استحصال کیا۔ اسلیے ہمیں تعلیم، صحت، انسانی ترقی سے بڑھ کر دفاع مضبوط بنانا ہوگا۔

تاکہ کوئی ملک ہمیں میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔ خواہ ہمیں اس دفاع کی خاطر اپنی آنکھیں بیچنی پڑ جائیں۔ ہماری قوم کے تمام طبقات کو اپنی ثقافت، روایات، تاریخ اور اپنے ہیرو سے روشناس کروانا ہوگا۔ ان کو بتانا ہوگا کہ ہماری تہذیب اور روایات اپنی مٹی سے جڑی ہے۔ ہم اس مٹی کی تہذیب کے وارث ہیں، ہمیں بیرونی آقاؤں اور حملہ آوروں کے تقافتی چولّے کو اتارنا ہوگا۔

ہمیں اپنے بنیادی شعبہ زراعت جو کہ اس خطے کا خاصا ہے، اسکو جدید خطوط پر استوار کر کے عالمی سطح پر کھویا مقام حاصل کرنا ہوگا۔ عالمی اقوام کی صفوں میں یہ مقام اپنی خوبی سے حاصل ہوگا نہ کے دوسری ثقافت و روایات کو اپنانے پر، اس تمام مخمصے میں سب سے خوش آئند بات یہ تھی کے اس عالمی مقابلے میں استعمال ہونے والا فٹبال پاکستانی صنعت کا کارنامہ ہے۔

ہمیں اس عالمی معیاری کامیابی پر ان تمام صنعتکاروں اور مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرنی چاہیے۔ ہمارے طبقات کو ایسے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہوگا تاکہ ہم عالمی سطح پر اپنی پہچان ایک محنتی، خوددار اور روایات کی امین قوم کی صورت میں کروا سکیں۔

Check Also

Ustad Ba Muqabla Dengue

By Rehmat Aziz Khan