Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ammar Raajpoot/
  4. Kaisa Laga Hamara Mazaq

Kaisa Laga Hamara Mazaq

کیسا لگا ہمارا مذاق

سقراط کو جب زہر کا پیالہ پیش کیا گیا تو وہ سردیوں کے دن تھے، اس نے جاتے جاتے اپنے چھوٹی بہن کی دیورانی کے بڑے بیٹے کو بلایا اور اسے اپنے ایک سینکڑوں سال پرانے اجدادی صندوق کی چابی دیتے ہوئے کہا کہ اس کی نچلی تہہ میں موجود غلاف کی داہنی طرف میں نے ایک خط لکھ رکھا ہے۔ ہو سکے تو وہ میرے مرنے کے بعد پنجابیوں کو پہنچا دینا، کہتے ہیں۔

جب برسوں کی مسافت طے کرتا وہ وہ خط یونان سے پنجاب پہنچا تو جاتی شام کا وقت تھا، ایک بھری چوپال میں اس کو کھولا گیا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ "جس نے پوہ، ماگھ، پھاگن، چیتر اور بیساکھ میں ساگ ترک کیا گویا اس نے اپنے آپ کو پنجابی کہلوانے کا حق گنوا دیا۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ پھر وہ ٹھنڈے پانی سے نہا کر مرے یا بغیر نہائے اپنی ہی مُشک سے کہیں جا مرے"

دکھوں نے بانٹ لیا ہے تمھارے بعد ہمیں

تمھارے ہاتھ میں رہتے تو کتنا اچھا تھا

اپنے وطن اپنے گھر میں رہتے تو کیا پرواہ تھی، مگر یہاں دیس پردیس میں سردیاں آتے ہی ہمیں اپنا مذہب اپنی شناخت بچانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ اسی مقصد کی بجا آواری کے لیے کچھ دن پہلے میں نے یہاں فیس بک پر عمان کے ایک اکسپیٹ گروپ میں سوال لکھا کہ "ساگ اور مکئ کی روٹی کھانی ہے، ریستورنت کی ہی ہو یا گھر کی" انڈین پنجاب کی ایک جٹی نے کمنٹس میں اپنے ریستورنت "پنجابی ڈھابہ" آنے کی پیشکش کی۔

سن کر عجیب لگا کہ ریستورنت والے کب سے ساگ اور مکئ کے جھنجھٹوں میں پڑنے لگے۔ مگر اچھا بھی لگا کہ چلو مراد بھر آئی۔

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو

اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو

ہم سے قریبا پچیس کلو میٹر کی مسافت پہ واقع یہ پنجابی ڈھابہ برتنوں اور سجاوٹ کے اعتبار سے خالص پنجابی ثقافت کا عکاس تھا۔ داخل ہوتے ہی ایک خوش کن سا احساس ہوا، جیسے کسی نے کہا ہو۔

چلتے پھرتے مہتاب دکھائیں گے

کبھی آنا تمہیں پنجاب دکھائیں گے

کتاب جیسا ایک ضخیم قسم کا مینو پرے کرتے ہوئے بیرے سے کہا کہ

"بیبا ساگ تے مکئ دی روٹی لا دے "

کچھ منٹ بعد وہ ایک تھال میں ساگ کی کٹوری رکھے مورنی کی چال چلتا آ رہا تھا۔

تم آگئے ہو نور آگیا ہے

نہیں تو چراغوں سے لو جا رہی تھی

مگر ہائے رے قسمت کہ خوش فہمیوں کے سلسلے زیادہ دراز نہ ہونے پائے، جتنا خوش مزاج سٹاف تھا اتنا ہی بد مزہ ساگ تھا۔ بلکہ شاید اسے ساگ کہنا بھی بجائے خود ایک غلطی ہوگی۔ اور مکئ کی روٹی کا کیا بتاؤں بس اتنا جان لیں کہ باریک کرسپی پاپڑ کی طرح کا کچھ تھا۔ جانے کس جی سے چند لقمے زہر مار کیے اور اٹھ آئے۔

آہ! یوں اُٹھے اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے

دروازے سے نکلنے لگے تو مسکراتے ہوئے ایک بیرا پوچھنے لگا

"سر کیسا لگا آپ کو ہمارا ساگ" میں نے کہا یہ سوال سراسر غلط ہے، آپ کو پوچھنا چاہیے

"کیسا لگا ہمارا مذاق"۔

دنیا میں انواع اقسام کی کھیلیں ہونے کے باوجود بھی لوگ ہمارے دل کا ہی انتخاب کیوں کرتے ہیں آخر

شیشے کا تھا دل میرا۔ پتھر کا زمانہ تھا

دل ٹوٹ گیا۔ دل ٹوٹ گیا

Check Also

Jimmy Carr

By Mubashir Ali Zaidi