Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Ikhtitam Ki Shuruaat (1)

Ikhtitam Ki Shuruaat (1)

اختتام کی شروعات

پروفیسر ایلن لچ مین (Allan Lichtman) امریکا کے نامور تاریخ دان ہیں، یہ واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، 9 کتابیں اور 100 مقالے لکھ چکے ہیں اور کانگریس کا الیکشن بھی ہار چکے ہیں، پروفیسر ایلن نے 1996ء میں 13 کیز (13Keys) کے نام سے ایک حیران کن فارمولہ ایجاد کیا، یہ اس فارمولے کے ذریعے حکومتوں کی پرفارمنس اور سیاسی واقعات کا سائنسی تجزیہ کرتے ہیں، پروفیسر ایلن نے 1996ء میں روسی ریاضی دان ولادی میر کیلس بروک کے ساتھ مل کر "دی کیز ٹو دی وائیٹ ہاؤس" کے نام سے کتاب بھی لکھی، اس کتاب میں امریکا کی تمام سیاسی چابیوں کی تفصیل درج ہے، پروفیسر ایلن اپنی13 کیز کے ذریعے 1984ء سے 2016ء تک امریکی انتخابات کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔

ان کی تمام پیش گوئیاں آج تک سچ ثابت ہوئیں، انھوں نے ستمبر 2016ء کو اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی پیش گوئی کی جب پوری دنیا ہیلری کلنٹن کو امریکا کی صدر قرار دے رہی تھی، پروفیسر ایلن نے پیش گوئی کی ڈونلڈ ٹرمپ جیت جائیں گے لیکن لوگ انھیں بطور صدر قبول نہیں کریں گے، ٹرمپ کی حماقتوں کی وجہ سے ری پبلکن انھیں زیادہ عرصہ برداشت نہیں کریں گے، یوں ان کے خلاف جلد ہی مواخذے کی تحریک لائی جائے گی، امریکی میڈیا نے23ستمبر کو پروفیسر ایلن کی یہ پیش گوئی شائع کی لیکن اس وقت دنیا بھر میں ہیلری کلنٹن کا طوطی بول رہا تھا، یہ بلوم برگ، گیلپ اور فاکس کے سرویز میں ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت آگے تھیں، یہ صدارتی تقاریر میں بھی ٹرمپ کو مار دے رہی تھیں، یہ صدارتی چندے میں بھی حریف سے بہت آگے تھیں، امریکا کی پوری اسٹیبلشمنٹ بھی ان کا ساتھ دے رہی تھی، صدر اوبامہ بھی ہیلری کی مدد کے لیے میدان میں کود پڑے تھے۔

میڈیا بھی ہیلری کا کھلم کھلا ساتھ دے رہاتھا، عوام اس وقت امریکا کا جو بھی ٹی وی دیکھتے تھے ان کو اس میں ہیلری ہی ہیلری دکھائی دیتی تھی، عالمی شخصیات بھی ان کے ساتھ تھیں، یورپ، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید بھی ہیلری کا حامی تھا، امریکا کی دس بڑی ریاستوں میں بھی ہیلری کا پلڑا بھاری تھا، یہ 30 برسوں سے "لائم لائیٹ" میں بھی تھیں اور یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ پڑھی لکھی، مہذب اور عقل مند بھی تھیں جب کہ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کا ماضی خوفناک حد تک داغ دار تھا، یہ کیسینوز کے کاروبار سے وابستہ ہیں، یہ باکسنگ کے مقابلے بھی کراتے تھے، یہ مقابلہ حسن جیسی واہیات حرکت کے بانی بھی ہیں، یہ تین شادیاں بھی بھگتا چکے تھے، یہ بے شمار سیکس سکینڈل میں بھی ملوث رہے۔

12خواتین نے ان پر جنسی ہراس منٹ کے الزامات بھی لگائے، ان خواتین میں ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ سلمیٰ ہائیک بھی شامل تھی، ان کی خواتین سے متعلق ایک آڈیو ٹیپ بھی منظر عام پر آ گئی، ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ "نیوڈ اسٹار" ہیں، ان کی برہنہ تصاویر بے شمار میگزین کے کورز پر شائع ہوتی رہیں، یہ خوفناک حد تک مقروض بھی ہیں، یہ ٹیکس غبن میں بھی ملوث ہیں، یہ ذہنی، اخلاقی اور روحانی دیوالیہ پن کا شکار بھی ہیں، یہ اپنی تقریروں میں مسلمانوں اور پناہ گزین شہریوں کے بارے میں خوفناک خیالات کا اظہار بھی کرتے رہے، یہ شکل سے بھی نارمل نہیں لگتے تھے اور ان کی حرکتیں بھی غیر سنجیدہ تھیں لہٰذا پوری دنیا کا خیال تھا یہ ہیلری کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے، ہیلری کی کامیابی کے شور اور ٹرمپ کی کمزور شخصیت نے منظر پر دھند سی پھیلا دی اور یہ دھند پروفیسر ایلن کی پیش گوئی پر چھا گئی لیکن الیکشن کے دن ڈونلڈ ٹرمپ کا پلڑا بھاری ہوگیا، یہ حیران کن طریقے سے جیت گئے اور ہیلری غیر متوقع طور پر ہار گئیں، الیکشن کے نتائج نے پروفیسر ایلن کو ہیرو بنا دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح سنسنی بن کر پوری دنیا میں پھیل گئی اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے "اب کیا ہوگا؟" یہ خوف بجا تھا، کیوں؟ کیونکہ امریکا کے دشمن روسی ہوں یا مسلمان، یہ شدت پسند ہیں، یہ امریکا کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں، یہ لوگ آج تک امریکا کو اس کی اعتدال پسند قیادتوں کی وجہ سے نقصان نہیں پہنچا سکے، ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان کی طرح شدت پسند ہیں، یہ "دشمن پر بم گرا دیں، انھیں مار دیں، انھیں ویزے نہ دیں" کے قائل ہیں چنانچہ دنیا کا خیال تھا ہم اب شدت پسندوں کے درمیان آ پھنسے ہیں، یہ دونوں ہمیں چکی کے دو پاٹوں کی طرح پیس کر رکھ دیں گے، کیا یہ خوف آنے والے دنوں میں سچ ثابت ہوگا؟ ہم اس طرف آنے سے قبل یہ جائز ہ لیں گے ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب کیسے ہوئے؟

ڈونلڈ ٹرمپ بنیادی طور پر مارکیٹنگ جینئس ہیں، یہ نئے آئیڈیاز کے ماسٹر ہیں، الیکشن لڑنے سے قبل ٹرمپ نے امریکی معاشرے کا مارکیٹنگ کی نظر سے جائزہ لیا، ان کے سامنے تین نقطے آئے، پہلا نکتہ امریکا میں 72۔ 4فیصد سفید فام باشندے رہتے ہیں، یہ لوگ آج بھی عورت کو حکمران نہیں دیکھنا چاہتے، یہ لوگ سیاہ فام اور مشرقی ممالک کے آباد کاروں کو بھی پسند نہیں کرتے چنانچہ ٹرمپ نے سوچا میں اگر مشرقی اور سیاہ فاموں کو ٹارگٹ کروں، میں اگر یہ ثابت کردوں خواتین مردوں کے برابر نہیں ہیں تو میں ان 72۔ 4فیصد سفید فاموں کو اپنی طرف متوجہ کرلوں گا، دو، امریکا میں 13ریاستیں بڑی، 17 درمیانی اور20 چھوٹی ہیں، صدارتی امیدوار ہمیشہ بڑی اور درمیانی ریاستوں پر توجہ دیتے ہیں۔

یہ چھوٹی ریاستوں کو "لفٹ" نہیں کراتے، ٹرمپ نے سوچا میں اگر چھوٹی اور درمیانی ریاستوں کو فوکس کر لوں تو میں بڑی آسانی سے جیت سکتا ہوں اور تین امریکا کے لوگ مسلمانوں، میکسیکو کے باشندوں اور غیر قانونی پناہ گزینوں سے تنگ ہیں، یہ ان لوگوں سے خوف بھی کھاتے ہیں اور انھیں اپنے وسائل پر قابض بھی سمجھتے ہیں، ٹرمپ نے سوچا میں اگر اس نفرت اور خوف کو اپنا انتخابی ایجنڈا بنا لوں تو میں لوگوں کی ہمدردی حاصل کر سکتا ہوں چنانچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ان تینوں کو سامنے رکھ کر اپنی صدارتی مہم شروع کر دی اور دنیا کو حیران کر دیا، یہ ایک حیرت تھی، دوسری حیرت ان کی کامیابی کے بعد شروع ہوئی، امریکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی صدارتی الیکشن کے بعد ملک بھر میں ہنگامے شروع ہو گئے۔

امریکا میں صدارتی الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کی روایت موجود ہے، لوگ نتائج کے بعد سڑکوں پر نہیں آتے لیکن یہ انوکھا الیکشن تھا جس کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے، شکاگو میں ٹرمپ ٹاور کے سامنے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے، نیویارک کے مین ہیٹن کا ٹرمپ ٹاور بھی عوامی یلغار کا شکار ہوگیا، فلاڈلفیا بھی احتجاجی سیلاب میں ڈوب گیا، پورٹ لینڈ میں عوام نے امریکی جھنڈا جلا دیا، کیلی فورنیا میں بھی جلاؤ گھیراؤ ہو رہا ہے، سین فرانسسکو میں بھی طالب علم باہر آ گئے ہیں اور بالٹی مور میں ریلیاں نکل رہی ہیں جب کہ کولمبس، واشنگٹن، بوسٹن اور برکلے میں بھی عوام باہر ہیں، یہ "نو ٹرمپ" کے نعرے بھی لگا رہے ہیں، سڑکیں بھی بلاک کر رہے ہیں، گاڑیوں پر حملے بھی کر رہے ہیں اور عمارتوں کے شیشے بھی توڑ رہے ہیں، امریکا کی تاریخ میں پہلی بار احتجاج کی وجہ سے وائیٹ ہاؤس کی بیرونی لائیٹس بھی بند کر دی گئیں اور امریکا میں پہلی بار کسی صدارتی الیکشن کے بعد آنسو گیس بھی استعمال ہوئی، ڈنڈے بھی چلے اور گو گو اور نو نو کے نعرے بھی لگے، یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔

امریکا کے پاس اب دو آپشن ہیں، یہ ڈونلڈ ٹرمپ کو لگام دے، امریکی ادارے اپنے نئے صدر کو اپنی پالیسی "ری وزٹ، کرنے پر مجبور کر دیں، ٹرمپ مسلمانوں، میکسیکن، پناہ گزینوں اور خواتین کے بارے میں اپنے خیالات پر قوم سے معافی مانگیں اور یہ ان چار ایشوز پر قدیم پالیسیوں کو نہ چھیڑنے کا وعدہ کریں، یہ اپنا اسٹائل بھی تبدیل کر دیں، یہ اپنے جنگی خیالات میں بھی تبدیلی لائیں اور یہ ریاستوں کے درمیان محبت بھی بڑھائیں، امریکا اپنی اوپن ہارٹ پالیسی، ترقی کے مساوی مواقع اور مذہب سے بالاتر سوچ کی وجہ سے سپرپاور ہے، ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کی ان امتیازی خوبیوں میں اضافہ کریں اور اگر خدانخواستہ یہ نہیں ہوتا اور ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ایجنڈا کے 25 فیصد کو بھی قابل عمل بنا لیتے ہیں تو پھر ٹرمپ امریکا کے گوربا چوف ثابت ہوں گے۔

امریکا کی 50 ریاستیں ہار کے موتیوں کی طرح بکھر جائیں گی اور جس طرح سوویت یونین1991ء میں روس بن گیا تھا بالکل اسی طرح یونائیٹڈ اسٹیٹس بھی 2020ء میں صرف امریکا بن کر رہ جائے گا لیکن ٹھہریئے امریکا کے پاس ایک تیسرا آپشن بھی موجود ہے، یہ پروفیسر ایلن آپشن ہے، ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کو "ڈس اون" کر دیں، یہ ان کا مواخذہ کریں اور امریکا کوئی نیا صدر منتخب کر لے، میرا خیال ہے امریکا پروفیسر ایلن آپشن کی طرف جائے گا اور اگر یہ نہ گیا تو پھر! تو پھر امریکا، امریکا نہیں رہے گا، ڈونلڈ ٹرمپ اختتام کی شروعات ثابت ہوں گے اور امریکا بھی داستانوں میں داستان بن کر ختم ہو جائے گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Be Ghari Azaab Hai Ya Rab

By Shahzad Malik