Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shaheen Kamal/
  4. Khirki (1)

Khirki (1)

کھڑکی (1)

میرا فلیٹ ایک بہت ہی معروف و مصروف چوراہے کے بالمقابل ہے۔ ساتویں منزل پر ہونے کی وجہ سے، دور دور تک کے نظارے دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے دیکھنے کو ایسا کچھ خاص ہے نہیں، وہی بے ہنگم ٹریفک اور لوگوں کا رواں سیل بے کراں۔ دو بیڈروم کا یہ آرام دہ فلیٹ، میری ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ اس میں ایک کشادہ گیلری تھی، مگر میں نے لیونگ روم کی دیوار تڑوا کر گیلری کو کمرے کا حصہ بنا لیا ہے اور بڑی سی سلاڈنگ ونڈو لگوا لی ہے، شیشے گہرے رنگ کے لگوائیں ہیں تاکہ اندر سے سب کچھ دِکھتا ہو پر باہر سے اندر کا نظارہ نہ ہو اور رنگین شیشوں کی وجہ سے دھوپ کی تمازت بھی قدرے کم ہو جاتی ہے۔

فلیٹ چونکہ ویسٹ اوپن ہے سو بہت ہوا دار اور روشن ہے۔ میرے دن اور رات کا بیشتر حصہ لیونگ روم میں ہی گزرتا ہے۔ کبھی کبھی تو میں اسی کمرے میں سو بھی جاتا ہوں مگر ایسا شاز و نادر ہی ہوتا ہے۔ اس مصروف شاہراہ پر اب بہت کم اپارٹمنٹ بلڈنگز رہ گئیں ہیں، زیادہ تر ٹوٹ کر شاپنگ مال بن چکی ہیں۔ یہ بھی عجب گھن چکر ہے کہ جو حکومت بھی آتی ہے، خزانہ خالی ہونے کی دہائی دیتی ہے مگر دیکھو تو، غیر ضروری اشیاء کی امپورٹ بھی جاری ہے اوردھڑادھڑ شاپنگ مال بن رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب مال نہیں تو(شوپنگ) مول کیوں؟

یہ علاقہ سمندر کی قربت کی وجہ سے مجھے بہت پسند ہے۔ کھڑکیوں سے اب سمندر تو نہیں دکھتا مگر سمندر کی مخصوص نمکین ہوا، شام کے وقت دل کے رخسار پر ہاتھ رکھ کر دلداری کر ہی دیتی ہے۔ میں نے جزباتی طور پر ایک بہت مشکل زندگی گزاری ہے۔ جب مرتضٰی، میرا تیسرا بیٹا فقط دس سال کا تھا توفرحانہ، میری شریکِ حیات (کیا واہیات لفظ ہے) میری زندگی سے نکل گئی تھی کہ، اس کی پرانی محبت اس کی زندگی میں لوٹ آئی تھی اور میں بےوقوف! مجھے علم نہیں تھا کہ میں اسٹپنی ہوں۔ میں ہمیشہ اسی مغالطے میں رہا کہ میں ہی اس کا محور و محبوب ہوں۔

خدایا خدایا محبت اور اس کی خوش گمانیاں۔ شادی کے شروع کے دنوں میں، میں نےکچھ سرگوشیاں فرحانہ کے افئیر کے متعلق سنی تو تھیں، مگر میں نے انہیں محض جوانی کی شوخی اور وقتی ابال ہی سمجھتا رہا۔ ہم لوگ اچھی زندگی گزار رہے تھے اور ہمارے تین بیٹے تھے۔ بظاہر ہم لوگ خوش باش اور مطمئن کپل تھے، پر عورت کے من کے بھید کو کب پا سکا ہے کوئی؟ عورت شاید دو انتہاؤں کی مخلوق ہے۔ نہ اس کے چلتر پن کی تھاں ہے، اور نہ لگاوٹ اور معصومیت کی انتہا۔ وفا پہ آئے تو اگنی پریکشا میں سپھل، اور بےوفائی پہ اترے تو باہیں آپ کے گلے میں ہار، اور خیالوں کے رتھ میں صنم سوار۔

سو اس ایشو پر بدمزگی بےکار تھی۔ جب اس نے جانے کی اجازت چاہی تو درحقیقت وہ جا ہی چکی تھی، سو اس کی منت کرنا یا روکنا فضول تھا۔ میں بھی بٹی ہوئی عورت رکھ کر کیا کرتا؟ بس ایک سوال پوچھا کہ تینوں لڑکے میرے ہیں؟ اس نے حلفیہ جواب دیا کہ ہاں۔ میں نے اسی لمحے تین لفظوں سے اس اقرار کو ختم کر دیا، جو شاید اس نے دل سے کیا ہی نہیں تھا۔ میں نے لڑکوں کو اپنے پاس رکھ لیا اور جو سامان وہ چھوڑ گئی تھی، اس کو ساحل کی گیلی ریت پر بون فائر میں جھونک کر خاکستر کر دیا، پر کمبخت یادیں اتنی آسانی سے کب چھوڑتیں ہیں نہ جلتی ہیں، نہ بسرتی ہیں بس کلیجہ چیرتی ہیں۔

لوگ!لوگوں کا کیا کہنا، ان کا تو دل پسند مشغلہ ہی دوسروں کے زخم کو کریدنا ہے۔ میرے منہ پر میرا مزاق اڑایا جاتا تھا۔ مجھے کمزور مرد ثابت کیا جاتا کہ، میں اپنی بیوی کو سنبھالنے پر قادر نہ تھا۔ میں ان دنوں کولیگ کا پسندیدہ لطیفہ تھا اور اپنی زندگی سے شدت سے بے زار۔ میں نے بہت کہ سن کر، اور منت ترلے کر کے دوسری برانچ میں ٹرانسفر کروا لیا۔ زندگی کیا ایک جبرِمسلسل تھی۔ آج ایک تلخ حقیقت کا اعتراف بھی کر ہی لوں کہ، فرحانہ کے جانے کے بعد جانے کیوں میں اپنے تینوں بیٹیوں کے لیے، اپنے دل میں وہ پہلی سی شفقتِ پدری محسوس نہیں کرتا تھا۔ میں اعتبار و بے اعتباری کے بیچ گویا خلا میں معلق تھا مگر زندگی کب رکتی ہے، میری بھی کہڑتے کرلاتے کٹ ہی گئی۔

کٹ ہی جدائی بھی کب یہ ہوا کے مر گئے

تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے۔

پانچ چھ سال بعد دوسری شادی کا ارادہ تو کیا مگر کوئی پسند ہی نہیں آئی، شاید میری پسند کا سانچہ اللہ میاں نے مدت ہوئی متروک کر دیا تھا۔ عجیب ڈب کھڑبی عورتیں ہی نظر آئیں۔ دل تو دور کی بات ہے کوئی آنکھ تک میں نہ سمائی، سو پھر میں نے بھی شادی کے خیال کو ترک ہی کر دیا۔ ویسے بھی میرا ایمان محبت پر سے اٹھ چکاہے اور محبت اب مجھے نِرا ڈھکوسلہ لگتی ہے۔ لڑکوں کا ماں سے رابطہ تھا۔ سنا کہ اچھی گزر رہی تھی اس کی۔ تینوں لڑکے یکے بعد دیگرے پردیسی ہوئے اور میں اپنی تخلیق کردہ جنت میں آدم کی طرح اکیلا۔

ریٹائرڈ لائف آپ سے بہت کچھ چھین لیتی ہے، جیسے وقت تو وافر ہوتا ہے مگر مصروفیت نہیں گویا زندگی تو ہے مگر امنگ نہیں، رسد ہے مگر طلب نہیں۔ بالکل کاغذی پھول جیسی دیکھنے میں بھرپور مگر بےکار، گویا چلا ہوا کارتوس۔ دوست کچھ بچوں کے پاس باہر چلے گئے، کچھ نے اللہ کا در پکڑ لیا اور کچھ کو بیماریوں نے جکڑ لیا۔ تینوں لڑکوں نے اپنی اپنی شادیوں کی رسمی سی اطلاع دی اور میں نے بھی تحفے کے ساتھ مبارک باد اور دعا بھیج دی۔ ریٹائرمنٹ کی رقم سے میری گزر اوقات آسانی سے ہو جاتی ہے۔ میں نے اپنے لکھنے کے شوق کو اب اپنا زریعہ معاش بھی بنا لیا ہے۔

فری لانسر ہوں۔ بلاگ بھی لکھتا ہوں اور زندگی کی کہانیاں اور افسانے بھی۔ کہانیاں لکھنے کی تحریک مجھے میری کھڑکی دیتی ہے۔ جی وہی گیلری والی سلاڈنگ ونڈو۔ چار سال پہلے میرا منجھلا بیٹا اپنی بیوی کو شمالی علاقہ جات دکھانے کے لیے پاکستان لایا تھا۔ اس نے بہت اصرار سے پوچھا کہ "اباآپ کے لیے کیا لاؤں؟ "میں نے اس سے بہترین قسم کی دوربین منگوائی۔ اس وقت تک مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ، یہ دوربین میری زندگی کا دھارا موڑ دے گی۔ دوربین میری زندگی میں کیا آئی کہ، میرے روز و شب کے معمولات ہی بدل گئے۔

Check Also

Aisa Kyun Hai?

By Azam Ali