Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Kya Ab Bhi

Kya Ab Bhi

کیا اب بھی

یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا۔ مصر نے چار ماہ قبل نہر سوئیز میں کویت کا ایک بحری جہاز روک لیا، جہاز" ایم ڈبلیو اکاز" کویتی شپنگ کمپنی کی ملکیت تھا، یہ کسی ڈچ کمپنی نے چارٹر کرایا، یہ جہاز 11 اگست 2016ء کو کویت پہنچا، یہ وہاں سے سکندریہ گیا اور یہ سکندریہ سے ہالینڈ جانا چاہتا تھا لیکن یہ جوں ہی نہر سوئیز میں داخل ہوا، مصری حکومت نے جہاز روک لیا، جہاز کے ذمے دو کروڑ روپے تھے، کویتی اور ڈچ کمپنی کے درمیان پھڈا ہوگیا، یہ کمپنیاں رقم ایک دوسرے پر ڈالنے لگیں، یہ جہاز پاکستان کے لیے بہت اہم تھا، کیوں؟ کیونکہ جہاز کا عملہ پاکستانی تھا، کپتان سمیت 17 پاکستانی اس جہاز میں سوار تھے۔

مصری حکام نے ان تمام پاکستانیوں کے پاسپورٹ ضبط کیے، عملے کو جہاز میں بند کیا اور جہاز گودی پر کھڑا کر دیا، پاکستانیوں کو چار ماہ تک جہاز میں محصور رکھا گیا، انھیں ساحل پر اترنے اور خوراک کا بندوبست کرنے کی اجازت بھی نہ دی گئی، یہ لوگ اس دوران خوراک کی قلت کا شکار بھی ہوئے اور بیمار بھی، چھ پاکستانی ورکرز کی حالت تشویشناک ہوگئی لیکن وہ بیماری کے عالم میں جہاز میں پڑے رہے، مصری حکام نے انھیں طبی امداد تک نہ دی، عملے نے پاکستانی میڈیا سے رابطہ کیا، خبریں چلیں۔

پاکستان میں موجود مصری سفارتخانے پر دباؤ آیا، پاکستان کے دوست ملکوں نے مدد کی اور یوں 21 دسمبر کے بعد عملے کو پاسپورٹ ملے اور بیماروں کو طبی معائنے کی سہولت، ہمارے لوگ چار ماہ تک بنیادی سہولتوں سے کیوں محروم رہے، مصر نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟ اس کا جواب ہماری فارن پالیسی کی فائلوں میں دفن ہے، ہماری خارجہ پالیسی بدقسمتی سے پچھلے ساٹھ برسوں سے صرف امریکا، سعودی عرب، یورپ، چین اور بھارت تک محدود ہے، ہم نے ان ملکوں کے علاوہ آج تک کسی ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا اور جب دیکھا تو ہمارے تعلقات اس کے ساتھ مزید خراب ہو گئے اور ان محروم ملکوں میں مصر بھی شامل ہے، مصر ہمیں وعدہ خلاف، بے وقوف اورمتکبر سمجھتا ہے، کیوں؟

اس کی بے شمار وجوہات ہیں، مثلاً آپ 1956ء کے واقعات کو لے لیں، 1956ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی، پوری مسلم دنیا مصر کے ساتھ کھڑی تھی لیکن ہم نے مصر کے ساتھ بے اعتنائی برتی، ہمارے وزیر خارجہ نے اس دور میں نہرسوئیز کے ایشو پر لندن کانفرنس میں مصر کو حمایت کی یقین دہانی کرائی لیکن ہم عین وقت پر مکر گئے، اس پر جمال عبدالناصر پاکستان سے ناراض ہو گئے، دوسرا واقعہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیش آیا، جنرل ضیاء الحق نے مصر کو یقین دلایا تھا وہ بھٹو کو رہا کر دیں گے لیکن یقین دہانی کے باوجود بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، مصر مزید ناراض ہوگیا، ہم نے اسے راضی کرنے کی کوشش نہ کی۔

یہ واقعات ہمیں مصر میں وعدہ خلاف اسٹیبلش کر گئے، پاکستانیوں کو بے وقوف ثابت کرنے کی ذمے داری یوسف رضا گیلانی نے پوری کی، مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں 18مئی 2008ء کو ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس تھا، گیلانی صاحب نے شرکت کا اعلان کر دیا، وزارت خارجہ نے گیلانی صاحب کوبتایا حسنی مبارک 28 سال سے حکمران ہیں، یہ آج تک پاکستان نہیں آئے، ہمیں بھی نہیں جانا چاہیے لیکن یوسف رضا گیلانی روکنے کے باوجود بھاری وفد کے ساتھ شرم الشیخ پہنچ گئے، یہ اس وقت نو آموز تھے، یہ ابھی پروٹوکول کے تقاضوں سے بھی واقف نہیں تھے اور ان کا بین الاقوامی ایکسپوژر بھی نہیں تھا۔

شرم الشیخ میں ان کی جارج ڈبلیو بش اور حسنی مبارک کے ساتھ ملاقات طے ہوگئی، وہ دونوں گھاگ سیاستدان تھے، یوسف رضا گیلانی ان کے سامنے اعتماد کھو بیٹھے، حسنی مبارک سے ملتے ہوئے گیلانی صاحب کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور زبان لرز رہی تھی، حسنی مبارک نے ہنسنا شروع کر دیا اور وہ ہنستے ہنستے واپس چلے گئے، جارج بش کے ساتھ ملاقات کے دوران بھی یہی ہوا، وہ پوچھتے کچھ تھے اور گیلانی صاحب جواب کچھ دیتے تھے، کانفرنس کے آخری دن خاتون اول نے شاپنگ کے لیے قاہرہ جانے کا اعلان کر دیا، مصری حکومت نے صاف انکار کر دیا، حکومت کا کہنا تھا، ہماری پوری انتظامیہ اس وقت شرم الشیخ میں ہے۔

قاہرہ میں حکومت کا کوئی بڑا عہدیدار موجود نہیں، ہم وزیراعظم کو وہاں پروٹوکول نہیں دے سکتے، پاکستانی اسٹاف نے وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بیگم صاحبہ کے سامنے مجبور تھے، جہاز کو قاہرہ لے جانے کے لیے کوئی ٹھوس بہانہ درکار تھا، وزیراعظم نے اسٹاف کو بتایا" مصر کا لیبر منسٹر میرا دوست ہے، میں اس سے ملاقات کے لیے قاہرہ جانا چاہتا ہوں" اسٹاف نے مصری حکام کو قاہرہ جانے کی وجہ بتائی، ان کی ہنسی نکل گئی اور انھوں نے دوسری بار بھی انکار کر دیا، وزارت خارجہ نے مجبوراً پاکستان میں مصری سفیر سے رابطہ کیا اور مصری سفیر نے ہمارے وزیراعظم کو قاہرہ جانے کی اجازت لے کر دی، وزیراعظم کا طیارہ قاہرہ اترا، وفد کے لوگوں کو بسوں میں ٹھونس کر اہرام مصر بھیج دیا گیا۔

بیگم صاحبہ چاندی کے برتن خریدنے خان خلیلی بازار چلی گئیں جب کہ وزیراعظم پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لیبر منسٹر کے دفتر چلے گئے، یہ وزیر کے دفتر پہنچ گئے لیکن وزیر اپنے دفتر پہنچ نہ سکا، وہ کسی سرکاری مصروفیت میں الجھ گیا، پاکستانی وزیراعظم مصری وزیر کے دفتر میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ ٹیک آف کا وقت ہوگیا اور مصری اہلکار وزیراعظم کے اسٹاف کی طرف دیکھنے لگے یوں وزیراعظم لیبر منسٹر سے ملاقات کے بغیر ائیرپورٹ آ گئے، یہ واقعہ آج بھی مصری وزارت خارجہ میں لطیفے کی طرح سنایا اور سنا جاتا ہے اور مصری ہمیں غیرسنجیدہ اور بے وقوف کہتے ہیں۔

ہم اب آتے ہیں انا پرستی کی طرف، محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے لیکن مصر کی پوری اسٹیبلشمنٹ محمد مرسی کے خلاف تھی، یہ صدر مرسی صدر آصف علی زرداری کی دعوت پر 18 مارچ 2013ء کو پاکستان آئے، ہم نے والہانہ استقبال کیا، جنرل عبدالفتاح السیسی نے چار ماہ بعد 13 جولائی 2013ء کو اقتدار پر قبضہ کر لیا، ملک میں مارشل لاء لگایا اور محمد مرسی کو گرفتار کر لیا، میاں نواز شریف اقتدار میں آ چکے تھے، میاں صاحب نے مصر میں فوجی مداخلت کی بھرپور مخالفت کی۔

وزارت خارجہ نے 25 جولائی کو مصر سے محمد مرسی کی رہائی کا مطالبہ کر دیا، قومی اسمبلی نے 15 اگست 2013ء کو مذمتی قرار بھی پاس کر دی، مصر کوہماری قرارداد اور مطالبہ برا لگا، اس نے احتجاج کیا لیکن ہم باز نہ آئے، مئی 2014ء میں مصر میں صدارتی الیکشن ہوئے، مصری عوام نے جنرل السیسی کو صدر منتخب کر لیا لیکن ہم نے انھیں مبارکباد نہ دی، مصری عدلیہ نے مئی 2015ء میں محمد مرسی کو سزائے موت سنا دی، ہماری وزارت خارجہ نے محمد مرسی کی سزائے موت کے خلاف بھی بیانات جاری کر دیے، مصری حکومت نے ہمارے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دے دیا۔

مصر کا کہنا تھا "آپ ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے والے کون ہوتے ہیں" یہ معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ رہی سہی کسر ریاض میں پوری ہوگئی، سعودی عرب میں 15 دسمبر 2015ء کو 34 مسلم ممالک کی مشترکہ فوج کی تقریب تھی، میاں نواز شریف مصری صدر السیسی کے ساتھ بیٹھے تھے، مصری صدر نے پاکستانی وزیراعظم کو "انگیج" کرنے کی کوشش کی لیکن میاں صاحب نے لفٹ نہ کرائی، وہ زیادہ تر وقت دائیں بائیں دیکھتے رہے، مصری حکام نے اس رویئے پر بھی احتجاج کیا لیکن حکومت نے نوٹس نہیں لیا، کیوں؟ شاید میاں صاحب 12 اکتوبر 1999ء کی وجہ سے پوری دنیا کی فوج سے ناراض ہیں، یہ جنرل السیسی کو جنرل پرویز مشرف کا بھائی سمجھتے ہیں۔

ہمیں یہ ماننا ہوگا سکندر مرزا کی غلط سفارت کاری ہو، جنرل ضیاء الحق کی غلطیاں ہوں، یوسف رضا گیلانی کی حماقتیں ہوں یا پھر میاں نواز شریف کی انا ہو اس کا نقصان پاکستان کو ہوتا ہے، یہ دنیا گلوبل ویلج ہے اور آپ اس ویلج میں لوگوں کو ناراض کرکے اچھی اور باعزت زندگی نہیں گزار سکتے، ہمیں اپنا رویہ ٹھیک کرنا ہوگا اور یہ کام طارق فاطمی آسانی سے کر سکتے ہیں، یہ میاں نواز شریف کو سمجھائیں اگر مصر کے عوام کو السیسی کی صدارت پر کوئی اعتراض نہیں تو ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں، یہ انھیں بتائیں اقوام متحدہ میں امریکا اور مصر دونوں کا ووٹ ایک ہے۔

ہمیں دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی اپنے معاملات درست کرنے چاہئیں، ہماری وزارت خارجہ کو بھی چاہیے اگر ہمارا کوئی وزیراعظم منہ اٹھا کر کسی وزیر کے دفتر کی طرف چل پڑے تو وزارت خارجہ اسے روکے اور ہماری قومی اسمبلی کو بھی یہ سمجھنا چاہیے ہم اگر دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت کرتے رہیں گے تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلے گا جو 17 پاکستانی پچھلے چار ماہ سے نہر سوئیز میں بھگت رہے ہیں، پھرمصر جیسے ملکوں کو جہاں کوئی پاکستانی نظر آئے گا یہ اسے خوفناک مثال بنا دیں گے، کیا اب بھی ہمارے سنبھلنے کا وقت نہیں آیا، کیا ہمیں ابھی مزید جوتوں کی ضرورت ہے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Modi Hai To Mumkin Hai

By Wusat Ullah Khan