Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Darra e Janglan Ki Deewar e Mohabbat

Darra e Janglan Ki Deewar e Mohabbat

درہ جنگلاں کی دیوارِ محبت

در ہ جنگلاں میں، ندی کنارے پگڈنڈی پر چلتے چلتے، وادی عبور کرکے پہاڑ پر چڑھنا شروع کریں تو ایک تھکا دینے والی مسافت کے بعد بوہڑی کا چشمہ آتا ہے۔ اس چشمے کے اوپر کی جانب ایک بڑی سی چٹان کھڑی ہے جس کے سامنے کا حصہ ہموار ہے۔ یہ دیوار محبت ہے۔ میلوں پھیلے مارگلہ میں ایک ہی دیوار محبت تھی، تھکے ہارے کم ہمت عشاق نے اس کا حسن بھی گہنا دیا۔

ایک وقت تھا، یہاں بہت کم لوگ آتے تھے۔ گرمیوں کی سنسان دوپہر میں اس چشمے کے کنارے بیٹھ کر، اس کے بہتے پانی کا شور اور اوپر درختوں پر چہچہاتے پرندوں کو سنتے پورا ایک پہر بیت جاتا تھا۔ جوانی کی ایسی ہی فراغت بھری شانت دوپہر میں جانے ہم میں سے کس کے جی میں آئی کہ چشمے کے پہلو میں کھڑے درخت کے تنے پر ایک کاغذ لٹکا دیا۔ لکھا تھا: سامنے دیوار محبت ہے، پتھر پرمحبت کا اظہار کیجیے، کبھی نہیں مٹے گا۔

یہ خالی مشورہ نہیں تھا، نمونے کے طور پر ہم پتھر پر دل کی بات لکھ آئے۔ یہ ویسی ہی نشانی تھی جو ہمیں درختوں کے تنوں پر تتلیوں کی طرح دمکتے ناموں کی صورت لکھی ملتی ہے۔ چند روز بعد یونیورسٹی میں امتحانات تھے، امتحانات ختم ہوئے تو برسات شروع ہوگئی۔ مارگلہ میں آوارگی کو اور بہت کچھ تھا، درہ جنگلاں کا یہ گوشہ کچھ یاد رہا کچھ بھول گیا۔

موسم بدلا، جاڑا آیا۔ جاڑے کی پہلی بارش ہوئی تو ہم پھر درہ جنگلاں آئے۔ ندی کنارے چلتے چلتے انجیر کے چشمے پر پہنچے تو خیال آیا، اوپر پہاڑ پر بوہڑی کے چشمے کے کنارے ایک بڑی سی چٹان کو دیوار محبت کا نام دیا تھا، چل کر دیکھیں تو سہی یہ کس حال میں ہے۔

اوپر پہنچے تومعلوم نہیں خوشی زیادہ تھی یا حیرت۔ دیوار محبت آباد ہو چکی تھی۔ رنگوں اور جذبات کی ایک قوس قزح تھی جو پتھر پر بکھری پڑی تھی۔ بالکل امید نہیں تھی کہ ہنسی ہنسی میں، ہم نے جو تجویز دی تھی، مارگلہ کے آوارگان اسے اتنا سنجیدہ لیں گے۔ بیچ میں چند ماہ کی ہی مسافت تھی لیکن دیوار محبت پر سندیسے لگنا شروع ہو چکے تھے۔ کچھ نام تازہ تھے، کچھ مٹتے جا رہے تھے، کچھ ایسے تھے کہ ٹھیک سے پڑھے ہی نہیں جا رہے تھے۔ معلوم نہیں یہ قلم کی روشنائی کامسئلہ تھا یا دل کی روشنائی میں نقص تھا۔ لیکن کچھ تھا ضرور۔

دل چسپ بات یہ تھی کہ ہمارے اپنے نام مٹتے جا رہے تھے۔ اس کا حل دوستوں نے یہ نکالا کہ اگلی بار آئیں گے تو چاقو ساتھ لائیں گے اور نام کھود دیے جائیں گے تاکہ یہ کبھی نہ مٹ سکیں۔ واپسی سے پہلے ایک اور کاغذاسی درخت پرچسپاں کر دیا گیا: دیوار محبت پر محبت کا اظہار اکیلے نہیں، مل کر کیجیے۔ دیوار محبت کی ایس اوپی کا نیا اصول وضع کیا جا چکا تھا۔

اگلے روز ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا، ہم وادی سے اوپر جانے کی بجائے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اترے۔ کل کا چسپاں ایس او پی والا کاغذ ابھی تک وہیں تھا۔ البتہ اس پر ایک سطر کا اضافہ ہو چکا تھا، کسی نے لکھا تھا: ضروری نہیں کہ یہاں اکٹھے آ کر لکھا جائے، اس میں بھی کوئی خرابی نہیں کہ ایک لکھ جائے تودوسرا کبھی آ کرپڑھ لے۔

یہ کاغذ میں نے اتار کر اپنے پاس رکھ لیا۔ ہر سال جب کتابوں اور کاغذات کی چھانٹی کرتا ہوں، یہ سامنے آ جاتا ہے۔ اس کے ہمراہ یادیں ہوتی ہیں۔ میں اس کاغذ کو آج تک نہیں پھینک سکا۔ یادوں کی صورت سنبھال لیتا ہوں۔ اب بھی کہیں رکھا ہوگا۔ وقت ملا تو تلاش کروں گا۔

اس روز پہاڑ سے اترے تو پھر وقت کے بہائو میں بہتے چلے گئے۔ دوست بکھر گئے، کوئی میلوں دور تو کوئی سمندروں پار چلا گیا۔ کئی سالوں بعد ایک روز یادوں نے ہاتھ تھاما اور میں درہ جنگلاں کی پگڈنڈی پر چلتے چلتے دیوار محبت پر آ پہنچا۔ یہ بھر چکی تھی۔ پھولوں کی صورت اس پر پیغامات کھلے تھے، رنگ رنگ کے پھول۔ ہاں مگر ایک بدعت کا اضافہ ہو چکا تھا کہ دیوار محبت پر اب بریک اپ کے بعد کے سندیسے بھی شامل ہو چکے تھے۔

ہمارے نام اب بھی موجود تھے کیونکہ یہ پتھر پر چاقو سے کھود کر لکھے تھے۔ البتہ ان کے اوپر ڈھیروں رنگ کے چھوٹے بڑے سندیسے لکھے جا چکے تھے۔ میرے پاس وائلڈ لائف کا بہترین اور تیز دھار کا خنجر موجود تھا لیکن میں نے اپنے ناموں کو یہ سوچ کر ری فریش، نہیں کیا کہ اس صورت میں بہت سے پیغامات مٹ جاتے۔

یہ دیوار محبت کی ا س ایس او پی کی خلاف ورزی ہوتی جو برسوں پہلے یہاں بیٹھ کر ترتیب دی گئی تھی۔ یہ نام آج تک موجود ہیں، یہاں جاتا ہوں تو دیوار محبت سے اٹھتی مہک محسوس کرتا ہوں۔ یہ دیوار بعد میں ایسا برینڈ بنی کہ لوگوں نے درختوں پر لکھنا چھوڑ دیا۔ مارگلہ میں درہ جنگلاں پر آپ جنگل میں دور تک چلتے جائیں، آپ کو درختوں پر بہت کم کچھ لکھا ملے گا۔ گویا سب کو یہ معلوم ہے کہ دل کا حال لکھنا ہے تو درختوں کو گھائو لگانے کی ضرورت نہیں، اس کے لیے وادی کے اس پار اوپر پہاڑ کے دامن میں چشمے کے پاس ایک دیوار محبت موجود ہے۔ مارگلہ کے دروں کے اندر جنگل کی پگڈنڈیوں پرکسی درخت کسی پتھر کسی چٹان پر شاید ہی کسی نے کچھ لکھ رکھا ہو۔ جس نے کچھ لکھنا ہے دیوار محبت پر چلا جاتا ہے۔

اگلے روز مگر ایک عجیب واقعہ ہوا۔ شہر اور جنگل دھند سے بھرا پڑا تھا تو میں صبح سویرے جنگل کو چل پڑا۔ جنگل میں ایسی دھند سالوں بعد اترتی ہے۔ جنگل میں دھند میں لپٹی پگڈنڈیوں پر چلنا قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ جنگل میں تھوڑی دور ہی گئے، یہی کوئی ایک کلومیٹر، کہ ایک پتھر پر نظر پڑی۔ یہاں بھی ایک دیوار محبت آباد ہو چکی تھی۔ بہت غصہ آیا۔ کوئی چاہے تو یہ اپنے برینڈ کے مقابل ایک نئی فرنچائز کھلنے کا غصہ بھی قرار دے سکتا ہے لیکن معاملہ کچھ اور بھی تھا۔

میں نے برادرم مراد علی سے کہا کہ دیکھیے ابھی دوسری ندی نہیں آئی، ابھی پہلا چشمہ نہیں آیا، ابھی پہاڑ شروع نہیں ہوا، ابھی چڑھائی تو آئی ہی نہیں، اور انہوں نے ادھر جنگل کی دہلیز پر ہی دیوار محبت آباد کر لی۔ مراد علی مسکرائے اور کہا: برائلر، برگر اور انٹر نیٹ کے گھائل یہ نوجوان دیکھ کر ڈر لگتا ہے چلتے چلتے لڑکھڑاکر گر نہ جائیں اور آپ ان سے اوپر نہ جانے کا شکوہ کر رہے ہیں۔

اتنے میں دھند میں ڈوبی پگڈنڈی سے چند نوجوان آتے دکھائی دیے۔ ایک صاحب کمر پر ہاتھ رکھ کر ہانپ رہے تھے، ایک محترمہ باقاعدہ احتجاجی نعرے لگا رہی تھیں کہ واپس چلو مرگئے، کچھ قوا ل اور ہم نوا مسلسل دہائی دیے جا رہے تھے کہ ہائے اللہ جی یہ ہم کہاں آ گئے۔ مراد علی نے مسکراکر کہا: کیا آپ کے خیال میں انہیں اوپر آپ کی دیوار محبت تک جانا چاہیے؟

میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

Check Also

Balcony

By Khansa Saeed