Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Imran Ali Shah/
  4. Nizam e Taleem, Tateelat Aur Qaum Ka Mustaqbil

Nizam e Taleem, Tateelat Aur Qaum Ka Mustaqbil

نظام تعلیم، تعطیلات اور قوم کا مستقبل

پروردگار عالم نے حضرت انسان کو علم جیسی عظیم ترین نعمت اور دولت عطاء فرماء کر، اس کے مرتبے کو اس قدر بلند کر دیا کہ، اسے اپنی نیابت کے لائق بنا دیا، علم کی اس سے بڑی فضیلت اور منزلت کیا ہوگی کہ قرآن کریم کی پہلی وحی بھی اقراء کا پیغام لے کر سرور کائنات ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل ہوئی، علم کا باکمال وصف یہ ہے کہ اس پر دسترس حاصل کرنے والا ہر زمانے میں قابل عزت و احترام گردانا گیا ہے۔

علم انسان کے لیے ادراک کے ایسے ابواب کھولتا ہے کہ، اس سوچ اور نظر دونوں ہی وسیع ہو جاتے ہیں، زمانہ قدیم میں صاحب علم کو حکمت و دانائی کا منبع مانا جاتا تھا، تو آج کے اس دور جدید میں بھی صاحب علم ہی صاحب رائے سمجھا جاتا ہے، اگر اقوام عالم کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ، دنیا کی ترقی یافتہ اقوام و ممالک کا اعلیٰ معیار تعلیم ہی ان کی کامیابی کا ضامن ہے، حقیقتاً علم ہی وہ واحد راستہ ہے کہ جس پر چل کر ارض و سماء کے مخفی رازوں پر سے پردہ اٹھانا ممکن ہو پایا ہے۔

ایک طرف جہاں ترقی یافتہ ممالک میں علم کو مرکزی مقام حاصل ہے تو دوسری طرف، ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں بھی حصول علم بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔

مادر وطن پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے، ہمارے ہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شعبہ تعلیم میں کافی حد تک جدت و بہتری آئی ہے، مگر یہ بھی ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ ہم آج بھی تعلیمی میدان میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں، عالمی ادارہ برائے اطفال یونیسف کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق بدقسمتی سے پاکستان میں آج بھی دو کروڑ سے زائد سکول جانے کی عمر کے بچے، سکول داخلے سے محروم ہیں، ایسے میں جو بچے تدریسی عمل کا حصہ نہیں ہوتے وہ حد درجہ غیر محفوظ ہونے کے علاوہ مستقبل میں ملکی معیشت کے لیے بھی قطعی طور پر سود مند ثابت نہیں ہو سکتے۔

پاکستان میں خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی آبادی کی سب بڑی وجہ تعلیم، شعور و آگاہی کی کمی ہے، جس کی بناء پر غلط اور درست میں تمیز کرنا ممکن ہی نہیں رہتا، پاکستان میں جہاں دیگر شعبے ڈھیروں مسائل کا شکار ہیں، وہاں شعبہ تعلیم بھی ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے، آئے روز اس شعبے پر ایک نیا تجربہ کیا جاتا ہے، اساتذۂ کرام کو غیر تدریسی امور میں حد سے زیادہ الجھایا جاتا ہے، امتحانات کی ڈیوٹی، مردم شماری، ووٹ کا اندراج، یا پھر انتخابات ہوں، ان تمام معاملات میں اساتذہ سے کام لیا جاتا ہے، تو ایسے میں معیاری تعلیم کے اہداف کا حصول محض ایک خواب ہی ہے۔

شعبہ تعلیم میں بہتری ایک طرف معاملات مزید گمبھیر ہوتے چلے جا رہے ہیں، پاکستان میں شعبہ تعلیم میں ایک تعلیمی سال کے اندر بیسیوں تعطیلات ہوا کرتی ہیں، موسم گرم کی تقریباً 70 چھٹیاں، موسم سرما کی 10 چھٹیاں، عیدین و دیگر تہواروں کے دوران تعطیلات، گزیٹیڈ چھٹیاں، ایک اندازے کے مطابق ان چھٹیوں کی تعداد 120 سے بھی زیادہ ہے، اور رہی سہی کسر کووڈ 19 نے نکال دی، اس عالمی سطح کی جان لیوا اور خطرناک وباء کی وجہ سے پاکستان میں نظام تعلیم ایک طویل عرصے تک تعطل کا شکار رہا۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کووڈ 19 کے دوران جن طلباء و طالبات نے اپنی تعلیم مکمّل کی، ان تعلیمی قابلیت کا معیار کیسا ہوگا، اس وبائی مرض کے دو سالہ عرصے میں بہت سے ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس نے اپنی تعلیم پوری کی ان میں سے اکثر و بیشتر نے آن لائن امتحانات دیے، اب یہ شعبہ نہایت حساس نوعیت ہے کہ جس نے انسانی جان کو بچانا ہے، کیا ان کی اہلیت اور وہ لوگ جو اپنا تعلیمی دورانیہ باضابطہ طور پر پورا کرتے ہیں و یکساں معیار کے حامل ہو سکتے ہیں تو جواب بجا طور پر نفی میں ہوگا، دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بہت منفی نتائج دیکھنے میں آ رہے ہیں، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں نظام زندگی متاثر ہو رہا ہے، پاکستان پر بھی موسمیاتی تبدیلی کے زبردست اثرات دیکھنے میں آ رہے ہیں، موسموں کی شدت میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، گرمیوں کا دورانیہ بڑھا ہے تو سردی بھی شدید نوعیت کی پڑنا شروع ہو چکی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ موسموں کی شدت بچوں کی صحت پر بے انتہا اثرانداز ہوتی ہے، مگر نظام تعلیم کو بار بار معطل کرنا کسی طور قابل قبول نہیں ہے، حالیہ دنوں میں ایک بار پھر موسم سرما کے دوران ارباب اختیار کی جانب سے نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا گیا، دسمبر 2023 کے آخری ہفتے میں جب کہ سردی اتنی شدید نہ تھی، تو موسم سرما کی تعطیلات کردی گئیں، اور جب جنوری 2024 آیا تو شدید ترین سردی کا سامنا ہوا، جس کی وجہ سے تعطیلات میں اضافہ کیا گیا، جب کہ نرسری اور پلے گروپ کے بچوں کو محفوظ کرنے کے لیے 31 جنوری 2024 تک مزید چھٹیاں دے دی گئیں۔

یہاں پالیسی سازوں کی قابلیت پر ڈھیروں سوال اٹھتے ہیں کہ، ان حکمتِ عملی اس قدر ناقص کیوں ہے، اور ان کی پالیسیاں وقت اور حالات سے مطابقت کیوں نہیں رکھتی ہیں، کیا ہمارا تعلیمی نظام مزید تجربات کا متحمل ہو سکتا ہے، شعبہ تعلیم کو لے کر ہمارا رویہ اس قدر غیر سنجیدہ کیوں ہے، ہماری قوم اور صاحبانِ اختیار و اقتدار کو تعلیم معیار کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے نہایت سنجیدگی سے کام لینا ہوگا، یہاں بات یہ نہیں کہ تعطیلات نہیں ہونی چاہیے ہیں بلکہ یہ ہے کہ، تعطیلات کا کوئی باقاعدہ نظام وضع ہونا چاہیے تاکہ بچوں کے مستقبل پر اس کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔

کبھی سیکیورٹی کے نام پر، کبھی وباء اور موسم کو بنیاد بنا کر بار بار چھٹیاں کروانا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اگر ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کا از سر نوء جائزہ لینا ہوگا اور اپنے تعلیمی نظام کو جدید ترین بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔

ہمیں جدید ترین ٹیکنالوجی کو اپنے نظام تعلیم کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسے حالات درپیش ہو بھی جائیں کہ چھٹیاں کرنا ناگزیر ہو جائے تب بھی تدریسی عمل میں کسی قسم کا تعطل نہ آئے بلکہ طلباء و طالبات کو آن لائن تعلیم دی جاتی رہے، اگر ہمیں اپنی قوم کا مستقبل سنوارنا ہے تو شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد کی استعداد کار کو بہتر بنانا ہوگا اور خاص طور پر اساتذہ ایسے کاموں نہ الجھایا جائے کہ جس سے ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی اور وقار متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔

حکومت کو چاہیے کہ، مردم شماری، امتحانات کی ڈیوٹی اور ووٹ کے اندراج جیسے امور کو سرانجام دینے کے لیے بیروزگار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ ایک طرف بیروزگاری جیسے قومی مسئلے سے نمٹا جائے تو دوسری جانب نظام تعلیم کو متاثر ہونے سے بچایا جا سکے، پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے نظام تعلیم کو بہتر اور مضبوط بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

About Syed Imran Ali Shah

Syed Imran Ali Shah, a highly accomplished journalist, columnist, and article writer with over a decade of experience in the dynamic realm of journalism. Known for his insightful and thought-provoking pieces, he has become a respected voice in the field, covering a wide spectrum of topics ranging from social and political issues to human rights, climate change, environmental concerns, and economic trends.

Check Also

Abba Ji Ke Naam

By Qasim Taj