Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asim Anwar/
  4. Kuch Mashriq Se Bhi Seekh Lo

Kuch Mashriq Se Bhi Seekh Lo

کچھ مشرق سے بھی سیکھ لو

مغرب نے سائنس اور ادب یعنی لیٹریچر کے میدان میں جتنی ترقی کی ہے اس تک پہنچنے کے لئے ہمیں اگر صدیاں نہیں تو دہائیاں ضرور لگے گیں اور اسی سائنسی ترقی کی بدولت دنیا کی امامت ہم مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر مغرب کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ کیونکہ سائنس کی بنیاد کے سہارے انہوں نے ترقی کی ہر دوڑ میں سبقت حاصل کی اور اس دوڑ میں اتنا آگے نکل گئے کہ ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جانے والی اقوام کو اپنا غلام بنانا شروع کیا۔

اور ان ممالک میں یہ بات باور کرائی گئی کہ سیاسی، سماجی، معاشی، اخلاقی اور مذہبی سبقت صرف اسی صورت ممکن ہے جب آپ سائنسی میدان میں آگے ہوں۔ ان کی بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ ان کی ترقی کا مینار ہی سائنس کی بنیادوں پر کھڑا ہے لیکن اُن کی یہ کامیابی تب نمائشی لگنے لگتی ہے جب یہ خود کو عقل کُل اور باقیوں کو ناقص العقل سمجھنے لگتے ہیں۔ مغرب کے نزدیک جو بھی اصول یا قانون مغرب کے متعین کردہ پیمانے کے متصادم ہے۔ غلط ہے یا صحیح ہونے کے آخری درجے پر ہے۔

دراصل بات قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ کی ہو رہی ہے۔ قطر کو اِس ورلڈ کپ کو قطر میں کرانے کے حقوق سال 2010 میں فیفا کے طرف سے ملے تھے۔ جس پر مغرب میں ایک ہنگامہ برپا ہوا کہ کیسے دنیائے کھیل کے سب سے بڑے مقابلے کے حقوق ہمارے ہاتھوں سے نکل کر مشرق اور خصوصاً ایک مسلمان ملک کو ملے۔ اسی بات کو لیکر مغربی میڈیا نے قطر کو اپنے نشانے پر رکھ لیا اور انہوں نے طرح طرح کے مسائل جس سے قطر کے تشخص کو نقصان پہنچےکا خدشہ تھا اٹھانا شروع کیے۔

شروع شروع میں مغربی میڈیا اس بات کو لیکر تنقید کرتا رہا کہ قطر ایک چھوٹا سا ملک ہے جو کسی لحاظ سے بھی اس عالمی میلے کے لئے مناسب جگہ نہیں ہے لیکن قطر نے جس محنت سے اس ورلڈ کپ کی تیاری کی، وہ قابل تعریف ہے۔ عام طور پر جس ورلڈ کپ پر 5 سے 10 ارب ڈالر خرچ ہوتے تھے قطر نے اس پر 220 ارب ڈالر خرچ کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ جب مغربی میڈیا کے پروپیگنڈہ نے اس پر اپنا اثر نہیں دکھایا تو انہوں نے انسانی حقوق، ہم جنس پرستوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق اور قطر میں باہر سے آنے والے غیر ملکی مزدوروں کے حقوق کا پروپیگنڈہ کرنا شروع کیا۔

حالانکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مغربی ممالک نے برصغیر اور افریقہ کے لوگوں پر کتنے مظالم کیے ہیں، میری اس بات کی گواہی ان ممالک کی مٹی کا ذرا ذرا دے رہا ہے لیکن ان کا میڈیا اس بات پر کبھی بولا ہے اور نہ ان ممالک نے اس پر کبھی معافی مانگی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہو سکتی ہے کہ مغرب نے سائنس کی بنیاد پر کھڑے ہو کر اتنی ترقی کی ہے مگر یہاں کی ہر عمارت میں ہم ترقی پذیر ممالک کا خون پسینہ اور ہم سے لوٹا ہوا مال و دولت شامل ہے۔

بی بی سی نے قطر میں چند سو مزدوروں کی موت کا جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے اس کی کوریج کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ مگر عراق میں امریکی اور برطانوی فوج کے ہاتھوں لاکھوں بے گناہ لوگوں کے قتل پر وہ آج تک کچھ کہنے سے قاصر ہے۔ آج تک بی بی سی نے کسی حکومت کا کوئی بائیکاٹ نہیں کیا ہے۔ جرمنی نے ایک میچ کے دوران منہ پر ہاتھ رکھ کر قطر کی حکومت کے سامنے آزادی اظہار پر پابندیوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مگر اسی جرمنی نے جس سفاکی سے لاکھوں یہودیوں کو مارا تھا اس کا ہم دنیا میں دہشت گردی پر بدنام مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے۔

ہندوستانی وزیر خارجہ کا بیان شائد آپ نے سنا ہوگا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ "یورپ کو اس ذہنیت سے باہر آنا ہوگا کہ یورپ کے مسائل پوری دنیا کے مسائل ہیں اور دنیا کے مسائل یورپ کے مسائل نہیں ہیں۔ ہندوستانی وزیر خارجہ کے اس بیان میں یورپ کے دنیا بھر سے روا رویے کا خلاصہ موجود ہے۔ ان کے خیال میں جو وہ کر رہے ہیں وہ ٹھیک باقی سب غلط۔ اگر بات یہاں تک ہوتی تب بھی ٹھیک ہوتا مگر ان کے خیال میں ہم جو کر رہے ہیں آپ بھی اسی پر من و عن عمل کریں۔

چاہے آپ کا مذہب اور سماج اُس بات کی اجازت دیتا ہو یا نہ ہو۔ مثلاً قطر نے فٹبال اسٹیڈیم میں شراب نوشی پر پابندی لگا دی اور مغربی میڈیا نے اسے انسانی آزادی پر حملہ قرار دیا۔ حالانکہ فرانس اور اسپین میں پہلے سے اس پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ لوگ اسٹیڈیم میں شراب پی کر ہنگامہ آرائی کرتے ہیں اور قطر نے اسے اپنے سماج سے متصادم اور کسی قسم کے ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لئے یہ فیصلہ کیا ہے لیکن اسی مغربی میڈیا نے تنقید کر کے اپنا حسد دیکھانا ہے اور اپنی دشمنی نبھانی ہے۔

رہی بات خواتین کے پردے کی تو بے پردگی قطر کے اپنے ذاتی روایات اور اقدار کے خلاف ہے اس لئے وہاں کی خواتین پردہ کرتی ہیں۔ باقی باہر سے آئی خواتین پر کوئی اس قسم کی پابندی نہیں ہے۔ ہر ملک اور معاشرے کے اپنے اقدار اور روایات ہوتے ہیں اور باقی سب کو اس کی قدر کرنا ہوگی چاہے خود وہ اسے جس نظر سے بھی دیکھیں۔ مگر یورپ کو شاید اس بات کا سلیقہ آج تک نہیں آیا کہ دوسروں کی بھی عزت نفس اور وقار ہوتا ہے جس کی پاسداری ہم سب پر لازم ہوتی ہے۔

جس طرح یورپ اپنے ملک میں آنے والے مہاجرین کو اس بات کا پابند بناتے ہیں کہ آپ نے یہاں کے اصول اور قوانین کی پاسداری کرنی ہے اور اسی میں رہتے ہوئے آپ نے اپنی زندگی گزارنی ہے۔ مگر کیا کریں یورپ والے دوسروں کی عزت کرنے میں ذرا کچے دل کے نکلے ہیں۔

کالم کی دم۔

خلاصہ یہ ہے کہ اہل مغرب جو چاہے کریں جس کو بہتر سمجھیں اپنائے لیکن اس بات کا خیال رکھے کہ اس چھوٹی سی دنیا میں اور بھی بہت سارے لوگ رہتے ہیں اور ان کی بھی اپنی ایک طرز زندگی ہے اپنے اقدار اور روایات ہیں۔ چاہے آپ اسے جس نظر سے بھی دیکھیں آپ کا حق ہے لیکن اس کا مذاق اڑانا، اس سے نفرت کرنا کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ سماجی اقدار نہ ایک دن میں بنتے ہیں اور نہ اسے کوئی ایک شخص بناتا ہے بلکہ یہ اس معاشرے کی اجتماعی سوچ اور سینکڑوں سالوں پر محیط سفر ہوتا ہے جس پر وہاں کا مذہب، معیشت اور سماج کی چھاپ ہوتی ہے۔

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi