Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mohsin Khalid Mohsin/
  4. Jahan e Rang O Bu Ka Tilism

Jahan e Rang O Bu Ka Tilism

جہانِ رنگ و بو کا طِلسم

چائے پینے کی غرض سے ایک دیسی ڈھابے میں گئے۔ وہاں ایم فل کے دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ بظاہر اِن سے رسم و راہ دور کی تھی تاہم شناسائی اس قدر ہو چکی تھی کہ ان کی دعوت کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ساجد محمود میرے ساتھ تھے، یہ صاحب اُس زمانے میں چائے کو قطعی حرام سمجھتے تھے اور بٹ خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے لسی کو زیادہ پسند کرتے تھے اور مجھے لسی کے بارے میں وہی شکایت تھی جو اِنھیں چائے کے بارے میں ایک زمانہ رہی۔ اب یہ ڈاکٹر بن گئے ہیں اور چائے کو تسکینِ اضطراب کا سب سے اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔

سامنے بیٹھے دوستوں میں ڈاکٹر انجم خان بھی موجود تھے، ان کے ہمراہ ایک نیا چہرہ موجود تھا جس سے پہلی بار ملاقات ہو ئی تھی۔ یہ محترمہ اپنے اندازِ گفتگو اور شخصی اطوار کے رُعب سے سیدھا دل میں اُتر گئی۔ نہ چاہتے ہوئے اِس محترمہ سے بات کرنے کو جی چاہتا رہا اور باوجود کوشش کے اس مختصر ملاقات میں بات نہ ہوسکی البتہ ڈاکٹر انجم خاں نے میرا ذکر اِس انداز سے کیا کہ سبھی میرے جانب لمحہ بھر کو متوجہ ضرور ہوئے۔

چائے سے فراغت کے بعد ہم سب یونی ورسٹی پہنچ کر امتحانی سنٹر میں داخل ہوئے، پیپر دے کر ایک دوسرے سے رخصت لی اور اپنی منزل کا راستہ ٹٹولتے نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ تین ماہ بعد پھر ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات بھی فقط حسرت بھری نگاہوں سے خوبصورت چہرے کو تکتے رہنے پر مرکوز رہی۔ کورس ورک ختم ہوگیا، خاکوں کی تکمیل اور ڈیفنس کے بعد تحقیق کا مرحلہ شروع ہوا۔

ایک دن نامعلوم نمبر سے کال آئی، میں عظمی نورین بات کر رہی ہوں، آپ کا کیا حال ہے، آپ نے موضوع سے متعلقہ مواد کے حصول کے لیے کیا طریقہ وضع کیا ہے۔ میں اس آواز کو سُن کو ہکا بکا رہ گیا، میری آواز بھرا، سی گئی، خود کو جذباتی رَو میں بہک جانے سے دانستاً روکا اور قدرے سنجیدہ انداز میں اُنھیں مخاطب کیا، مواد کے تبادلہ کے ذکرکے ساتھ کال ختم ہوگئی۔ اس کے بعد گاہے گاہے بات ہوتی رہی جو نو برس گزر جانے کے باوجود آج بھی اُسی طرح عقیدت، محبت، احترام اور اعلیٰ انسانی اخلاق سے متصف ہنوز جاری ہے۔

زندگی میں ہر طرح کے انسان سے واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ ناقابلِ فراموش ہوتے ہیں اور کچھ ایسے کہ بات کرنے سے قبل بُھلا دئیے جانے کے لائق ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی کا یہ سب سے حسین اور انمٹ احساس ہے کہ آپ کے اِرد گرد اچھے اور بُرے لوگ ہمیشہ موجود رہتے ہیں، ان اچھے اور بُرے لوگوں میں مزید اچھے اور بُرے لوگ ہوتے ہیں۔ اچھوں میں اچھوں کی تلاش ایک مشکل کام ہے اور شاید یہی مشکل مرحلہ ہر انسان کے لیے ایک سا احساس لیے ہوتا ہے۔ ایک انسان آپ کی زندگی میں آتا ہے اور پھر مرورِ وقت کے ساتھ آپ کے لیے اِتنا اہم ہو جاتا ہے کہ آپ اس کے احساس سے خود کو ماورا نہیں کر سکتے۔

انسانی جذبات کے جملہ احساسِ تفکر ایک جگہ رکھ کر دیکھئے اور پھر انھیں آزمائشئی زیست کی کھری کسوٹی پر پرکھ کر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زیست کا کوئی بھی مرحلہ ہو، اس کی بُنت اور نک سکِ کی درستی کا انحصار اس احساس سے متصف صنفِ مخالف کی شخصی وابستگی کی مہمیز کُن اٹیچ منٹ پر ہے جو آپ کو اپنے حصول کی راہ میں تھکا دینے اور رنجور کر دینے والے حالات و آلام میں بھی سہارا دئیے رکھتا ہے کہ بس دو قدم کی دوری رہ گئی ہے، چلتے آؤ، دوڑے آؤ۔

بات ذرا مشکل ہوگئی ہے، سادہ الفاظ میں اِس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان قیمتی، انمول اور لافانی چیز ہے، انسان کے ہزاروں روپ ہیں اور سیکڑوں انداز و اطوار ہیں۔ یہ کُھلتے کُھلتے کُھلتا ہے پھر بھی آپ پر پوری طرح آشکارا نہیں ہوتا۔ انسان کے چہروں پر کچھ ہوتا ہے اور چہرے کی اوٹ میں کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ انسان اپنے باطن اور ظاہر میں تضادات کی ایک دُنیا لیے ہوتا ہے جس کی اصلیت کے تیقن کی تعین میں حواس مختل ہو جاتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے اور ماورایت کیا ہے؟ اس ماورایت کے باطن میں چھپی صداقت کو کس طرح تسخیر کیا جاسکتا ہے؟

انسان دراصل واہمات و تصورات کا ایک طلسم کدہ ہے۔ انسانی حیات کی نیرنگیاں اور بو قلمونیاں ایک ایسی اندھیر نگری ہے جس میں رہروانِ منزل کو تیرگی کے خس و خاشاک کے سِوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ انسان بڑی عجیب چیز ہے، یہ جس عنصر کو دریافت کرنے اور تسخیر کرلینے کی دُھن میں حقائق کو طشت از بام نہیں کرتا بلکہ اپنے لیے تباہی کا سامان پیدا کر لیتا ہے۔

ضد کرنا انسانی تشخص کی معراج کا عینِ اوج ہے جس سے آگے حاصلات کا جہانِ معمات ایستادہ ہے۔ بہت نایاب اور کامیاب ہیں وہ لوگ جو اس جہانِ معمات کی تسخیر میں مارے مارے پھرتے ہیں، کچھ ہاتھ نہ آنے کا گِلہ بھی نہیں کرتے، سب کچھ کھو دینے کے باوجود اِن کی نگاہ میں اپنے لیے شرمساری کا رکیک بھر احساسِ ندامت بھی متشکل نہیں ہوتا۔ چند روزہ اس حیاتِ ناپائیدار میں تعلق کی بساط ہی کیا ہے؟ تعلق کا تعلق سے تعلق بھی عجب حیرت لیے ہوئے ہے۔ انسان، اپنے جیسے انسانوں کو تسخیر کرنے کی جستجو میں اپنے اندر کے معجزاتِ انسانی سے منکر ہو جاتا ہے۔

یہ عمل اُوپری دُنیا کو روشن کرکے پنہائی جہان کو تیرگی میں غرق کرنے کاہے تاہم یہ ناقابلِ فراموش کارنامہ بھی کچھ نفوس کے ہاں شدت سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ خود کو تباہ کر لینے کے باوجود تباہی کی شدت کا احساسِ زیاں ان کے نزدیک لطافتِ عصیاں کا تفاخرِ خاصیاں ٹھہرتا ہے۔ شرمساری، ندامت، خجالت، رُسوائی، واماندگی، خاکساری اور عجز کے جملہ تصورات، تسخیرِ انسان کے وہ کارگر ہتھیار ہیں جن کی بدولت محبت کے احساسِ تفاخر کو تعلق کی نِیو میں دفن کرکے قُربت کی بنیاد اُٹھائی جاتی ہے۔

دل میں گھر کیے ہوئے شخص کو روح میں اُتارنا اِتنا سہل اور آسان ہوتا تو ہر کوئی مجنوں، لیلیٰ، ہیر، رانجھا اور رومیو جیولٹ بن کر جہانِ رنگ و بو کی طلسم کاریوں کو اپنے نام کی تخصیص کے ساتھ منسوب کرکے تفاخر کے جہانِ مشہوراں میں آوازہ لگاتا دکھائی دیتا مگر یہ امر اپنے اندر سرتاپااحساںِ زیاں کی اتھاہ غضبناکی لیے ہوئے ہے، گویا یہ آگ کا ایسا دریا ہے جس میں ڈوب کر ہی پار اُترا جاسکتا ہے۔ حاصلات کے اس کے جہانِ رنگ وبو میں سُوئے اِتفاق کوئی غنچہ ہاتھ لگ جائے تو اس کی بو باس سے جی کو بہلاتے رہیے اور اپنے تئیں خو د کو یہ نصیحت کیجیے کہ جو کچھ میسر ہے، غنیمت ہے اور کافی ہے۔

مزید کی تلاش کا خواب، خوابِ مجذوب کی بڑ ہے۔ عینِ حیات کا حاصلِ کُل تعقل کی نِیو کو شعور کے پھاوڑے سے منہدم کرکے حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ جو کچھ میسر اور موجود ہے، اِسی پر اکتفا کیا جائے کہ خواب جب تلک تعبیر سے ہمکنار نہ ہوں، الگ ہی لطف دیتے ہیں۔

Check Also

Sifar Se Aik Tak

By Hafiz Safwan