Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Maeeshat Sab Se Bara Rishta Hai

Maeeshat Sab Se Bara Rishta Hai

معیشت سب سے بڑا رشتہ ہے

حقائق اور جذبات میں کیا فرق ہے؟ پاکستانیوں کو یہ جاننے کے لیے ایک بار سری لنکا ضرور جانا چاہیے۔

سری لنکا میں سنہالی اور تامل دو بڑیں قومیتیں آباد ہیں۔ سنہالی 74 فیصد اور تامل 17فیصد تھے، تامل زیادہ پڑھے لکھے اور متحرک تھے، یہ یونیورسٹیوں میں بھی زیادہ دکھائی دیتے تھے، حکومت نے 1970ء کی دہائی کے شروع میں اعلیٰ تعلیم کے لیے چند ایسی اصلاحات کیں جن کا سنہالیوں کو فائدہ اور تامل کو نقصان تھا، سری لنکا کے شمالی صوبے جافنا میں تاملوں کی اکثریت تھی، یونیورسٹی کے ایک تامل طالب علم ستیاسلین نے ان اصلاحات کے خلاف "تامل اسٹوڈنٹس لیگ" بنالی، لیگ نے پرامن جلسے شروع کر دیے۔

حکومت نے تامل طالب علموں کو دبانے کی کوشش کی، لیگ میں شامل چند جوشیلے نوجوان تنظیم سے ٹوٹے اور انھوں نے تامل نیو ٹائیگرز کے نام سے اپنی جماعت بنا لی، ایک نوجوان طالب علم پرابھاکران بھی اس تنظیم میں شامل ہوگیا، حکومت نوجوانوں کو دباتی رہی اور یہ ابھرتے رہے یہاں تک کہ ان نوجوانوں نے پرابھاکران کی قیادت میں تامل ایلام لبریشن آرگنائزیشن بنا لی اور علیحدہ صوبے کا مطالبہ کر دیا، حکومت نے نوجوانوں کو غدار قرار دے دیا، نوجوانوں نے جواب میں سرکاری دفتروں پر حملے شروع کر دیے، جافنا کا میئر ان کا پہلا ٹارگٹ بنا، وہ 1975ء میں کرشن ٹمپل میں عبادت کے لیے آیا اور تامل نوجوانوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا، اندرا گاندھی بھارت کی وزیراعظم تھی، جافنا کے میئر کے قتل کی خبر دہلی پہنچی تو اندرا گاندھی نے سری لنکا کو بھی پاکستان کی طرح دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا، جافنا بھارت سے صرف 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

دونوں کے درمیان سمندری پانی کی چھوٹی سی پٹی ہے، بھارت اگر اس پٹی پر قابض ہو جاتا تو اسے خلیج بنگال پر مناپلی حاصل ہو جاتی اور اندرا گاندھی نے یہ مناپلی قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ را نے تامل نوجوانوں سے رابطہ کیا اور انھیں ٹریننگ اور اسلحہ دینا شروع کر دیا، تامل نے جولائی 1983ء میں سری لنکن فوج پر پہلا خوفناک حملہ کیا، یہ واقعہ سری لنکا کی تاریخ میں"بلیک جولائی" کہلاتا ہے، را نے اس حملے کے بعد بھارت میں 32 ٹریننگ کیمپ بنائے، 495 تامل نوجوان جمع کیے (ان میں 90 خواتین بھی شامل تھیں) اور انھیں باقاعدہ فوجی ٹریننگ دینا شروع کر دی، یہ کیمپ جھاکران، ہماچل پردیش، تامل ناڈو، راجستھان اور نینی تال میں تھے، آپ قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے نینی تال کے کیمپ سے ٹریننگ لینے والی ایک خاتون نے 1991ء میں اندرا گاندھی کے صاحبزادے راجیو گاندھی پر خود کش حملہ کیا اور وہ آنجہانی ہو گئے۔

یہ 495 نوجوان اٹھے اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اسی دوران تامل ایلام لبریشن آرگنائزیشن کا نام تبدیل ہوا اور یہ لبریشن تامل ٹائیگرز ایلام ہوگئی، یہ عرف عام میں ایل ٹی ٹی ای اور تامل ٹائیگرز کہلانے لگی، تامل ٹائیگرز نے 1987ء میں بلیک ٹائیگرز کے نام سے خود کش حملہ آوروں کا اسکواڈ بنایا اور سیاستدانوں، معیشت دانوں اور فوج کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا، بلیک ٹائیگرز دنیا کا پہلا گروپ تھا جس نے خود کش بیلٹس اور خود کش جیکٹس ایجاد کیں اور خواتین کو خود کش حملوں میں استعمال کیا۔

بلیک ٹائیگرز نے 1987ء سے 2007ء تک سری لنکا میں 378 خود کش حملے کیے، یہ حملے 274 مردوں اور 104 خواتین نے کیے اور ان میں 30 ہزار لوگ مارے گئے، دنیا میں سب سے زیادہ لیڈرز، فوجی افسر، بیوروکریٹس اور پولیس مین تامل ٹائیگرز کے ہاتھوں قتل ہوئے، تامل نے 1991ء میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو الیکشن مہم کے دوران اڑا دیا جب کہ سری لنکن صدر رانا سنگھا پریماداسا 1993ء میں ان کا شکار بنے، ٹائیگرز نے ان کے علاوہ ایک صدارتی امیدوار، سیاسی جماعتوں کے 10 قائدین، 7 وفاقی وزراء، 37 ارکان پارلیمنٹ، 6صوبائی وزیر، 22 ارکان صوبائی اسمبلی، 17 سیاسی آرگنائزر اور 4 میئر بھی قتل کیے۔

پاکستان میں اس وقت جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی، جنرل ضیاء الحق اندرا گاندھی سے 1971ء کی جنگ کا بدلہ لینا چاہتے تھے، سری لنکن فوج نے جنرل ضیاء الحق سے رابطہ کیا، پاکستان نے مدد کی حامی بھر لی، بریگیڈئر طارق محمود کو سری لنکن فوج کی ٹریننگ کا ٹاسک دیا گیا، بریگیڈئر طارق نے کمال کر دیا، سری لنکن آرمی آج بھی بریگیڈئر طارق محمود کو اپنا محسن سمجھتی ہے، پاکستان کی مدد نے لنکن آرمی میں جذبہ پیدا کیا اور یہ تامل ٹائیگرز سے لڑنے لگی لیکن یہ آسان کام نہیں تھا، تامل ٹائیگرز کو بھارت کی مکمل سپورٹ حاصل تھی، را انھیں ٹریننگ بھی دیتی تھی، ہتھیار بھی، رقم بھی اور مواصلاتی مدد بھی، یہ لوگ اتنے طاقتور تھے کہ انھوں نے 1995ء میں لنکن نیوی کے دو بحری جہاز ڈبو دیے جب کہ 2000ء میں شمالی سری لنکا کا 76 فیصد رقبہ تاملوں کے قبضے میں آ گیا۔

15 ہزار مربع کلومیٹر پر تامل ٹائیگرز کا جھنڈا لہراتا تھا، یہ لوگ جافنا میں داخلے کے تمام راستوں پر بھی قابض ہو چکے تھے، بھارت اور امریکا نے سری لنکا کو جافنا کو آزاد کرنے کا مشورہ دے دیا، یوں محسوس ہوتا تھا سری لنکا دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا لیکن پھر اچانک حالات نے پلٹا کھایا اور سری لنکا کے آرمی چیف پاکستان پہنچ گئے، یہ جنرل پرویز مشرف کے کورس میٹ تھے، جنرل پرویز مشرف نے سری لنکا کے لیے پاکستان کے سارے اسلحہ ڈپو کھول دیے، سری لنکا کی فوج نے جو مانگا پاکستان نے حوالے کر دیا، پاکستان نے لنکن فوجیوں کو ٹریننگ اور جنگ لڑنے کا طریقہ بھی سیکھایا اور ان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ بھی کی، یہ تعاون 2005ء میں اس وقت مزید بڑھ گیا جب تامل ٹائیگرز نے آرمی چیف جنرل ساراتھ فنسیکا پر حملہ کر دیا، پاکستان نے اس حملے کے بعد سری لنکا کو اپنے سی ون تھرٹی جہازوں پر جافنا میں ہتھیار فراہم کیے۔

تاملوں کے پاس اس وقت چھوٹے جنگی جہاز اور طیارہ شکن توپیں موجود تھیں چنانچہ یہ کام قریباً ناممکن تھا لیکن پاکستان نے یہ کام کیا، سری لنکا نے پاکستان کی مدد سے 2006ء میں تامل ٹائیگرز پر خوفناک حملے شروع کیے اور دنیا کی خوفناک ترین دہشت گرد تنظیم کو ہلا کر رکھ دیا، یہ حملے 2009ء تک جاری رہے یہاں تک کہ تامل ٹائیگرز نے 17 مئی 2009ء کو ہتھیار پھینک دیے، ایل ٹی ٹی ای کا سربراہ پرابھاکران 19 مئی کو مارا گیا، یوں 26 سال لمبی جنگ ختم ہوگئی۔ پاکستان میں اس وقت جنرل کیانی آرمی چیف تھے، سری لنکا نے پاکستان اور پاکستان آرمی چیف کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا، سری لنکا کے لوگ، بیوروکریٹس، میڈیا، حکومت اور فوج آج بھی پاکستان کی ممنون ہے، یہ کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں اگر پاکستان مدد نہ کرتا تو بھارت نے سری لنکا کو توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، آپ آج سری لنکا میں کہیں بھی چلے جائیں، لوگ آپ کے سامنے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائیں گے لیکن یہ نعرے، یہ محبت اور یہ اعتراف محض جذبات ہیں حقائق کا ان جذبات سے کوئی تعلق نہیں۔ حقائق کیا ہیں؟ آپ یہ بھی ملاحظہ کیجیے۔

سری لنکا جنگ کے پانچ سال بعد بھارت کے انتہائی قریب اور پاکستان سے دور ہوگیا، سری لنکا اور بھارت کے درمیان اس وقت ساڑھے چار بلین ڈالر اور پاکستان اور سری لنکا کے درمیان تین سوملین ڈالر کی تجارت ہے، سری لنکا سوئی سے لے کر جہاز تک بھارت سے خریدتا ہے اور بھارتی کمپنیاں سری لنکا میں دھڑا دھڑ فیکٹریاں لگا رہی ہیں، آپ جہاں جاتے ہیں آپ کو انڈیا ہی انڈیا دکھائی دیتا ہے، آپ کو کسی جگہ پاکستان نظر نہیں آتا۔ سری لنکا بھارت کے کتنے قریب ہے، آپ تین واقعات ملاحظہ کیجیے۔ لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا، ٹیم واپس چلی گئی، بھارت نے آج تک کسی ٹیم کو پاکستان نہیں جانے دیا۔ پاکستان میں نومبر 2016 میں سارک کی 19 ویں کانفرنس تھی۔

بھارت نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا، پاکستان اس وقت حیران رہ گیا جب سری لنکا نے بھی تحریراً بھارتی موقف کی حمایت کر دی، سری لنکا پاکستانیوں کو ائرپورٹس پر ویزہ جاری کرتا تھا، یہ سہولت بھی پچھلے سال واپس لے لی گئی اور پاکستان کے لیے ویزے کا عمل بھی سخت کر دیا گیا جب کہ بھارت کے شہری ویزے کے بغیر سری لنکا جا سکتے ہیں۔ یہ کیا ہے اور یہ کیوں ہے؟ یہ حقائق ہیں اور یہ حقائق ثابت کرتے ہیں قوموں کے درمیان جذبات کی بنیاد پر تعلقات قائم ہو تو سکتے ہیں لیکن چل نہیں سکتے۔ بھارت کی معیشت مضبوط ہے اور یہ سری لنکا کے قریب بھی ہے چنانچہ سری لنکا نے چند برسوں میں بھارت کی تامل ٹائیگرز کی سپورٹ بھی بھلا دی، 26 برس لمبی جنگ بھی فراموش کر دی اور 30 ہزار لاشیں بھی ماضی میں دفن کر دیں جب کہ ہم سری لنکا سے دور بھی ہیں اور ہماری معیشت بھی مضبوط نہیں چنانچہ ہمارا رشتہ کمزور پڑتا جا رہا ہے۔

سری لنکا ہمارا احسان مانتا ہے لیکن یہ اس احسان کے بدلے قربانی دینے کے لیے تیار نہیں۔ سری لنکن پاکستانیوں کے لیے دل کھول دیتے ہیں لیکن یہ اپنی منڈیاں کھولنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ ہمیں سری لنکا کے رویے سے سبق سیکھنا چاہیے، ہمیں اب "تو میرا بھائی، میں تیرا بھائی" جیسی پالیسی ترک کر دینی چاہیے اور امریکا، یورپ اور عربوں کے ساتھ بھی تعلقات کی ترتیب ٹھیک کرنی چاہیے، ہمارے ساتھ جو اچھا ہو ہمیں اس کے ساتھ اچھا رہنا چاہیے اور جو ہمارے ساتھ برا کرے ہمیں اسے خدا حافظ کہہ دینا چاہیے۔ ہمیں اب یہ حقیقت بھی مان لینی چاہیے معیشت دنیا کا سب سے بڑا اور مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ آپ اگر معاشی لحاظ سے تگڑے ہیں تو پوری دنیا آپ کی دوست ہے اور آپ اگر کمزور اور غریب ہیں تو سری لنکا بھی آپ کے احسان بھول جائے گا، یہ آپ کے ساتھ کرکٹ تک نہیں کھیلے گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Aayen Phir Shah Hussain Se Milte Hain

By Haider Javed Syed