Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Auckland Yatra

Auckland Yatra

آکلینڈ یاترہ

آکلینڈ میں دوپہر ڈھل رہی تھی۔ ایسی شفاف دوپہریں کم ہی شہروں میں دیکھنا نصیب ہوتیں ہیں۔ میں نے گوگل کی مدد سے ایک ویو پوائنٹ ڈھونڈا جہاں سے شہر کے سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ گاڑی نکالی۔ گوگل میپ کی انگلی تھامے اس جانب کو چل دیا۔ اونچی نیچی کھُلی گلیوں سے گزرتا رہا۔ مگر جہاں لوکیشن کا اختتام ہو رہا تھا وہاں پرائیویٹ لان تھا۔ جس کے باہر تار سے حاشیہ برداری کرکے ایک چھوٹا سا دروازہ لگا دیا گیا تھا۔ اس لان کے اختتام پر سامنے سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کا کھُلا منظر تھا۔ عین نیچے گہرائی تھی اور سمندر تھا۔

گو کہ اس باغیچے کے دروازے کو تالہ نہیں لگا تھا، مگر اس میں بنا اجازت داخل ہونا قانونی خلاف ورزی ہو سکتا تھا۔ ان ممالک میں آپ کسی پرائیویٹ پراپرٹی میں یونہی داخل نہیں ہو سکتے۔ میں نے جگہ کا معائنہ کیا۔ تادیر اِدھر اُدھر پیدل گھومتا رہا کہ شاید آگے پیچھے کوئی اور مقام ایسا ہو اور وہ کھُلا مل جائے مگر یہ سارا گنجان آباد علاقہ تھا۔ رہائشی کالونی تھی۔ مایوس ہو کر میں سوچنے لگا کہ اب کہاں جاؤں۔ گاڑی میں واپس آ بیٹھا اور ارادہ تھا کہ اب یہاں سے کسی اور مقام پر چلا جائے۔ موبائل نکال کر پھر آکلینڈ شہر کے کچھ اور مقامات کے بارے معلومات لینے لگا۔

اسی اثناء میں گاڑی کے پاس ایک چالیس پینتالیس سالہ عورت آئی۔ اس نے اپنے پالتو کتے کی زنجیر تھام رکھی تھی۔ کتا فینسی تھا۔ چھوٹا سا کیوٹ سا اور بے ضرر سا۔ میں نے شیشہ ڈاؤن کیا۔

"ہائے، تم یہاں کسی کو ڈھونڈنے آئے ہو؟ میں کوئی ہیلپ کر سکتی ہوں؟"۔

جی، میں ٹورسٹ ہوں۔ گوگل نے مجھے یہاں نکال دیا۔ میں بس آکلینڈ کی بلڈنگز کی تصویر لینا چاہتا تھا مگر وہاں پرائیویٹ لان ہے۔ بس میں جا رہا ہوں۔ آپ کی ہیلپ کا شکریہ۔

"اوہ یہ تو گریٹ ہے۔ تم چاہو تو تصویر لے سکتے ہو۔ ہاں وہ باغیچہ پرائیویٹ ہے مگر رکو میں ان سے بات کرتی ہوں۔ اوکے؟ ٹھیک ہے ناں؟"

جی جی، اگر اجازت مل جائے تو آپ کا شکرگزار ہوں گا۔

"اوکے۔ تم پیچھے آ جاؤ"۔

میں نے گاڑی سے کیمرا اور ٹرائی پوڈ نکالا۔ وہ کتے کے ساتھ آگے چلی میں اس کے پیچھے چلا۔ لان کے برابر والے گھر پہنچ کر اس عورت نے گھنٹی بجائی۔ اندر سے ایک ادھیڑ عمر مرد باہر آیا۔ دونوں اک دوجے کو پہچان کر رسمی جملوں کا تبادلہ کیا اور پھر مجھے اجازت مل گئی۔

وہ پرائیویٹ لان کھول دیا گیا۔ مرد مجھے اندر لے گیا۔ عورت وہیں سے رخصت ہوگئی۔

"لو، اب تم چاہے جتنی مرضی تصویریں لے لو۔ جانے وے پہلے دروازہ بند کر جانا۔ اوکے؟"۔ مرد مجھ سے مخاطب ہو کر بولا۔

اوکے۔

میں اب اس لان کا مالک تھا۔ اس جگہ تین گھنٹے گزار دئیے اور ہر لمحہ بدلتی روشنی میں تصویریں لیتا رہا۔ جس وقت میں رخصت ہوا رات کے سائے پھیل رہے تھے۔ لان سے باہر نکل کر دروازہ بند کیا۔ چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی اپنی گاڑی کی سمت چلا۔ یکایک آواز آئی

"کیسی رہی تمہاری فوٹوگرافی؟ تم نے تو کافی وقت گزار دیا"۔

مڑ کر دیکھا تو وہی عورت دو گھروں کے فاصلے پر اپنی گاڑی کے برابر کھڑی اسے لاک کرتی نظر آئی۔

ہاں، وہ بس منظر اچھا تھا۔ میں غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کو رک گیا۔ آپ کا پھر سے بہت شکریہ۔

اس نے گاڑی کو چھوڑا اور میری جانب چلتی آئی۔ قریب آتے ہی بولی "کہاں سے آئے ہو؟"

پاکستان۔ مگر ابھی کل ہی آکلینڈ پہنچا ہوں۔ اس سے پہلے ساؤتھ آئی لینڈ میں دس دن گزارے۔

"ساؤتھ تو بہت پیارا ہے۔ تمہیں مزہ آیا ہوگا۔ نارتھ آئی لینڈ بھی پیارا ہے مگر ساؤتھ کا کوئی مقابلہ نہیں"۔

جی ہاں، ساؤتھ پیارا ہے۔

"تصاویر دیکھ سکتی ہوں؟"

میں نے کیمرا آن کیا۔ وہ تصاویر دیکھتی رہی اور ساتھ ساتھ تعریف کرتی رہی۔ کیمرے میں ساؤتھ آئی لینڈ کی تصاویر بھی تھیں۔ جب کافی دیر تصاویر دیکھ چکی تو بولی۔

"تم اچھے فوٹوگرافر ہو"۔

شکریہ۔ آپ بھی اچھی مددگار ہیں۔

وہ ہنسی اور پھر رخصت کا وقت آ گیا۔ میں نے گاڑی نکالی۔ ہوٹل واپسی کی راہ لی۔

تین تصاویر ایک ہی مقام سے مگر مختلف وقت میں لیں گئیں ہیں۔ تینوں اس کیوی خاتون کے نام جس کے سبب یہ موقع ملا۔ سفر بہت کچھ سکھاتا ہے۔ یہ عبد پر خدا کا بہت بڑا کرم ہے۔ اس کی دنیا، اس کے لوگ، اس کا وقت۔ اور مسافر عینی شاہد۔ کبھی جو اسفار میں بیتے لمحات زندہ ہو کر سامنے آن کھڑے ہوں تو بنا پلک جھپکے ایک نقطے پر مرکوز کئیے دیکھتا ہی رہتا ہوں۔

میرے کمرے کی دیواروں پر میری تصویریں لگی ہیں۔ جو پچھلے اٹھارہ سالوں سے میرے جنون کی عکاس ہیں۔ میں جب کمرے میں ان کے بیچ کھڑا اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو گزرے ہوئے ماہ و سال، سفر میں بیتے لمحے، جلتی دوپہریں، ٹھنڈی شامیں، سُلگتی راتیں، چاند کی وارداتیں، بچوں کی ہنسی سب ایک ٹائم لیپس فلم کی صورت میرے ذہن کے پردے پر چلنے لگتے ہیں کبھی کبھی تو تصویریں سچ میں باتیں کرنے لگتی ہیں اور کہتی ہیں تم نے ہمیں قید کیا ہمیں اس فریم سے رہائی دو اور خود بھی ہماری یادوں سے آزادی پاؤ۔۔ مجھے وہ منتر بھول گیا ہے۔ جس کو پڑھ کر میں ان منظروں اور مجسم لوگوں کو رہا کر سکتا۔۔ میرے خدا نے مجھے صرف قید کرنا سکھایا تھا۔۔

Check Also

Shampoo Ka Tv Ishtihar Aur Baal Nadard

By Azhar Hussain Azmi