Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Local Busson Ka Safar

Local Busson Ka Safar

لوکل بسوں کا سفر

دنیا کا ہر انسان زندگی جیتا ہے مگر ایک جیسی نہیں گزارتا، ہر انسان اپنے اپنے مدار میں مقرر کردہ سہولیات سے استفادہ حاصل کرتا ہے۔ کوئی امیر ہے تو کوئی غریب۔ کوئی بڑے گھر میں رہتا ہے تو کوئی جھونپڑی میں۔ کوئی اپنی مہنگی گاڑی میں سفر کرتا ہے تو کوئی اپنی بائیک اور سائیکل پر۔ کوئی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے رکشے کا استعمال کرتا ہے تو کوئی بسوں کو ترجیح دیتا ہے۔

سفر اپنے آپ میں ایک روداد، ایک کہانی ہوتا ہے۔ جانے کتنے ہی لوگوں نے صرف سفر پہ ہی کتابیں لکھ ڈالیں ہیں۔ پرانے وقتوں میں لوگ جیسے قافلوں کی صورت لمبے لمبے سفر طے کیا کرتے تھے کیونکہ سفر کرنا انسان کے شوق کے علاوہ وقت اور حالات کی ایک ضرورت بھی ہے۔ چلیں سفر کی ایک قسم لوکل بسوں کے متعلق بات کرتے ہیں۔

لوکل بسوں کا سفر کرنا بھی ایک الگ تجربہ ہوتا ہے۔ کئی طرح کے لوگ یہاں ملتے ہیں۔ اچھے بھی، برے بھی اور ٹھگ بھی۔ تین، چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے والی بسوں کا کرایہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے جو کہ بس کے چلنے سے پہلے ہی ٹکٹ کی صورت میں وصول کر لیا جاتا ہے۔ اگر اچھے اڈے کی بس نہ ہو تو تھوڑی بحث کے ساتھ کرایہ اوپر نیچے کرکے سواری کو سیٹ دے دی جاتی ہے۔

اور وہ بسیں جو روزانہ کی بنیاد پہ چالیس پچاس کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں، وہاں کرایہ سواری کے چڑھ جانے کے بعد لیا جاتا ہے۔ یہاں آپ کو آسانی سے کرایہ نہیں ملتا۔ ہر سواری دس دس روپے کی خاطر کنڈکٹر کے ساتھ ٹھیک ٹھاک بحث کرتی ہے اور بات گالم گلوچ سے ہوتی ہوئی کبھی کبھار ہاتھا پائی تک بھی جا پہنچتی ہے۔ یہ خالص گاؤں کے لوگ ہوتے ہیں جن کے نزدیک ایک ایک روپیہ قیمتی ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف یہی لوگ ایسا کرتے ہیں، بلکہ کنڈکٹر لوگ بھی بےایمانی کرنے سے ذرا نہیں کتراتے۔

چالیس سے پچاس کلومیٹر کرنے والی بسوں میں سواری اور کنڈکڑ کے مابین ہونے والی چند مکالمے جو کہ روزانہ رپیٹ ہوتے ہیں۔

1- سواری: اتنا ہی کرایہ ہے۔ جتنا پکڑا دیا ہے۔

کنڈکٹر: دس روپے اور دیں، آپ نے کرایہ کم دیا ہے۔

2- سواری: ہم روزانہ اسی روڈ سے بسوں پہ سفر کرتے ہیں، ہمیں کچھ مت سکھاؤ۔

3- سواری کنڈکٹر سے کہ تم نے تو کہا تھا کہ سیٹ مل جائے گی تو ابھی تک سیٹ کیوں نہیں ملی پھر؟

4- میں صرف اپنا کرایہ دوں گا، بوری کا کرایہ میں نے نہیں دینا۔

5- میں طالب علم ہوں، میں نے کرایہ نہیں دینا۔

سارے رستے سواری اور کنڈکٹر کے بیچ بحث و مباحثہ کی لمبی قسط چلتی رہتی ہے۔

اب آتے ہیں دوران سفر ان بسوں میں چیزیں بیچنے والے لوگوں کی طرف۔ آپ کو دنیا جہان کے بہترین ڈینٹسٹ، آئی سرجن، پِتہ، جگر، معدے کی جلن، پیروں کی گرمی، بواسیر خونی و بادی، سر درد اور ہر وہ بیماری جو کہ ایک انسان کو ہو سکتی ہے اُس کے ماہرین ہمارے پاکستان کی لوکل بسوں میں ملتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بہترین پرفیوم، ریوڑی اور کئی طرح کی اقسام آپ کو یہاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔

مہربان، قدر دان، تے سارے بھراواں نوں اچھو مخدوم دی طرفوں اسلام وعلیکم۔ کسے دے سر نوں درد ہے، اکھ وچ پیڑ رہندی اے تے اللہ دے فضل و کرم دے نال بس ایہہ اِکّو قطرہ اکھ اچ پانا اے تو آرام آئے نہ آئے میری کوئی ذمہ داری نئیں۔ شیشی دس روپے، دس روپے۔ تسیں بس اشارہ کرنا اے تے تہاڈا بھائی تہاڈے کول آپ چل کے آئے گا شیشی دَین۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اتنی اچھی دوائیں اور اتنے قابل لوگ ہماری بسوں میں ہی کیوں اتنے کھجل خوار ہوتے ہیں۔ اور مجھے مسئلہ ان دوائی بیچنے والوں سے نہیں ہے۔ مسئلہ ان لوگوں سے ہے جو یقین کرکے لے لیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک جاننے والی ہیں، انہوں نے یہ بات سنائی کہ ان کی آنکھ میں بڑا درد رہتا تھا تو انہوں نے ایسے ہی کسی بس سے قطرے لیے تھے تو وہ ٹھیک ہوگئیں تھیں، جبکہ اس سے پہلے وہ جانے کتنے ہی ڈاکٹرز کو چیک کروا چکی تھیں۔

ان کی یہ بات سن کر میں دم بخود رہ گیا۔ پھر سوچا شاید ان کے یقین نے اُن کو ٹھیک کر دیا ہو۔ وہ یوسفی صاحب کی بھی بات یاد آ گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ یار مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بواسیر کے علاج کے لیے لوگ تعویز گنڈا کیسے استعمال کر لیتے ہیں اور مزید حیرت تب ہوتی ہے جب لوگ ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ سب کیا ہے؟ یا شاید ان سادے لوگوں کا یقین ہی انہیں ٹھیک کر دیتا ہے۔

پھر ان بسوں میں اُلٹی کرنے والے احباب بھی سفر کرنے آئے ہوتے ہیں۔ بھائی جب اُلٹی آتی ہے تو آدھا گھنٹہ پہلے بتا دیتی ہے۔ تو آپ اس حساب سے اپنا ارینجمنٹ کر لیں مگر نہیں، وہ ایڈوانس میں تیار کیوں رہیں؟ الٹی آئے گی تو ساتھ میں کئی اور سواریوں کو بھی اپنی لپیٹ میں ضرور لے گی۔ ویسے تو چھینک بھی جب آتی ہے تو دس سیکنڈ پہلے آپ کو خبردار کر دیتی ہے تو یہاں تو بات ہی اُلٹی کی ہو رہی ہے لیکن وہ کیا ہے نہ؟ ہمارے خمیر میں یہ چیز شامل ہے کہ پہلے سے تیاری نہیں کرنی بلکہ یہ کہہ دینا ہے کہ "ویکھی جاوے گی" پر پھر ویکھی بھی نہیں جاتی ہم سے۔

لوکل بسیں عمرو عیار کی زنبیل کی طرح ہوتی ہیں۔ ان کے کنڈکٹر سواری کو انکار نہیں کرتے، جتنی مرضی آتی جائیں انہیں بس میں سوار کرتے جاتے ہیں۔ کچھ کو اُن کی مرضی سے اور کچھ کو اپنی مرضی سے۔ یعنی زبردستی کہ آپ نے ہماری ہی بس میں بیٹھنا ہے۔ کوئی اِدھر کھینچتا ہے تو کوئی اُدھر۔ عجیب دھماچوکڑی سا ماحول بنا دیتے ہیں۔ ان کی اِنہیں بدتمیزی اور زبردستی کی وجہ سے بہت سی فیمیلیز کو کافی مشکل پیش آتی ہے اور وہ عجیب ہراسمنٹ کا سامنا بھی کرتی ہیں۔

پھر ان بسوں میں زیادہ رش کے صورت میں بدتمیزی بہت ہوتی ہے۔ چونکہ رش زیادہ ہو جانے کی وجہ سے سواریوں کو کھڑا ہو کے سفر کرنا پڑتا ہے تو مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ ایسے چپک جاتے ہیں کہ میاں بیوی کا گمان ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ ایک دوسرے کے قریب بندہ کسی وجہ کے ہی آ سکتا ہے۔ اب اِسے ان لوگوں کے مجبوری کہہ لیں کہ انہیں یہ سب چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کرکے اپنی منزل تک پہنچنا ہوتا ہے۔

کئی سواریاں خاموش رہ کر سفر کاٹ لیتی ہیں اور کئی آواز اٹھا لیتی ہیں۔ بہرحال یہ ایک غلط چیز ہے۔ حکومت یا لوکل سرکاری نمائندوں کو اس چیز کے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔ کہ سواری کھڑے ہو کر سفر نہ کرے وگرنہ چالان یا جرمانہ ہوگا۔ ہماری لوکل بسوں کو ٹھیک ٹھاک قوانین کی اَشد ضرورت ہے اور ان کے عملے کو تربیت کی تاکہ عام عوام شہری اچھا اور آرام دہ سفر کر سکیں جو کہ بےحیثیت معزز شہری ان کا قانونی اور معاشرتی حق بھی ہے۔

Check Also

Aisa Kyun Hai?

By Azam Ali