Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Gardish e Ayyam

Gardish e Ayyam

گردشِ ایام

آج کل ایک کتاب حساس ادارے (اردو ایڈیشن مصنف بر یگیڈیر ریٹائرڈ سید احمد ارشاد ترمذی) زیر مطالعہ ہے۔ اس کتاب کےصفحہ 42 پر بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے کی روداد قلم بند کی گئی ہے۔ وہ ہو بہو وہی سیچوایشن ہے جو آج عمران خان کو درپیش ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے یہاں نقل کر رہا ہوں۔ تا کہ عوام کو سمجھ آئے کہ ہمارے سیاستدان اور میر جعفر میر صادق ہر دورمیں موجود رہے ہیں۔ کیسے وہ اوروں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اور ملکی مفاد کے سودے کرتے ہیں۔ اور یہ بھی علم ہوتا کہ وقت کا پہیہ کیسے گھومتا ہے کہ 70 کے دہائی کے بعد آج پھر ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ کالم کے طوالت کے خوف سے کچھ لائنیز یا پیراگراف حذف کرنا مجبوری، اقتباس پیش خدمت ہے۔

"پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار، ہنگاموں، بحرانوں، تنازعات اور عدم اعتماد کے ابواب پر مبنی ایک طویل داستان ہے"۔

ان کی خارجہ پالیسی اس حد تک کامیاب تھی کہ (1971 کہ سانحہ کے)بعد پاکستان کو بہت جلد قوموں کی عالمی برادری میں اس کاکھویا ہوا اعزاز واپس مل گیا۔ اور یہ بھی انہی کی صلاحیتوں کا (اعجاز) تھا کہ چین، شمالی کوریا، لیبیا، شام اور پی ایل او پاکستان کےبہترین دوستوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان کےلئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ "(موجودہ وزیر اعظم کی کاوشوں اور او آئی سی کے موجودہ اجلاس کو بھی اسی تناظر میں دیکھیں)۔

"اس حوالے سےکئے گئے ان کے فیصلوں اور مختلف اقدامات نے مغرب کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں کیونکہ ان کے لئے ذوالفقار علی بھٹو تیسری دنیا اور اسلامی دنیا کے لیڈر کی حثیت سے ابھر رہے تھے۔ "

صفحہ نمبر 43 پر رقم طراز ہیں۔

"تاہم کچھ ہی عرصے میں اندرونی محاذ پر بھٹو کی گرفت آہستہ آہستہ ڈھیلی پڑنی شروع ہو گئی اور ان کی بعض پالیسیوں پر تنقید کے نشترچلنے لگے۔ بھٹو کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ سیاسی مخالفین برداشت نہیں کرتے تھے۔ (موجودہ وزیراعظم بھی نہیں کرتے)ان کے اس انتقامی رویے نے ملک کی مختصراپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا۔ (آج بھی یہی صورتحال کا سامنا ہے)

اس وقت کی انٹیلی جنس کی بعض مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس مرحلے پر امریکہ جو بھٹو سے پہلے ہی خوفزدہ تھا(اب بھی ایبسلو ٹلی ناٹ سن چکا ہے)مخالف سیاسی جماعتوں میں پوری طرح شامل ہو گیا۔ اس نے نہ صرف صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھایا، بھٹو کےخلاف نفرت کی آگ پر تیل چھڑکا بلکہ بھٹو کا تختہ الٹنے کی خاطر اپوزیشن کو بھر پور مالی اور سیاسی امداد بھی فراہم کی۔ بھٹو کو اقتدارسے الگ کرنے میں امریکہ کے مفادات مضمر تھے۔ (موجودہ وزیر اعظم کا دورہ روس اور اسلامی کانفرنس کو بھی اسی تناظر میں دیکھے)۔

بھٹو کی اپنی ذہانت اور منصوبہ بندی سے وہ اسلامی اور تیسری دنیا کے متعدد ممالک کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ تیسری دنیا ایک قوت بن کر ابھرے(اسلامی بلاک عمران خاں کا بھی خواب) یہ یقینی طور پر عالمی قبضے کے لئےامریکی خواب کی تعبیر میں بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ بھٹو کی سر گرمیوں نے علاقے میں امریکی مفادات کو سخت گزند پہنچانا شروع کر دیاتھا"

صفحہ نمبر44 پر ہے۔

"ہنری کسنجر نےجہاز میں سوار ہونے سے پہلے بھٹو سے کہا":مسٹر بھٹو!جب سامنے سے ریل گاڑی آتی دیکھائی دے تو عقلمند پٹری سے ہٹ جاتاہے۔

یہی ملاقات بھٹو کے اقتدار کے زوال کا نقطہ آغاز تھی۔ امریکہ نے فیصلہ کر لیاکہ بھٹو کا وجود ختم کر دیا جائےاور اس مقصد کے لئےاس نے اپنے "شکاری کتے"چھوڑ دئیے۔ بھٹو کے خلاف جو سیاسی اور اقتصادی بحران پیدا ہوا(موجودہ صورتحال بھی اسی کی عکاسی کر رہی ہے)اس چنگاری کو شعلہ بنانے میں امریکہ نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا، جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔

امریکہ نے انتہائی چالاکی سے بعض بیوروکریٹ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چند مرکزی عہدیداروں، راہنماؤں اور وزراء کو دانستہ یا غیردانستہ طور پر اپنے حلیفوں کی صف میں شامل کر لیا(موجودہ حلیفوں اور پارٹی کے اندر سے بغاوت اسی شاخسانہ کی طرف اشارہ کررہی ہے)۔

بھٹو انہی "قریبی ساتھیوں " کے مشورے کی وجہ سے ایک گہری دلدل میں پھنستے گئے۔

بعض امریکی سفارت کاروں نے پی این اے کے متعدد راہنماؤں سے "براہ راست دوستی" کا شرف حاصل کیا(عمران خان کےخلاف عدم اعتماد سے قبل امریکی سفیر کا اپوزیشن سے ملنا محض اتفاق نہیں لگتا)۔

صفحہ نمبر 45 پر درج ہے۔

کہ گوری چمڑی کا جادو اس قدر چل چکا تھا کہ ہمارے کچھ سیاستدان اور چند بلند اور قد آور قومی راہنمااک نام نہاد سفید فام صحافی کی فون کال کے منتظر رہتے۔ ہر روز آئی ایس آئی کے پاس خبروں کے ٹیلی گرام کا ایک ڈھیر لگ جاتاجن کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ ہمارے کچھ سیاستدان کس قدر بونے قد کے ہیں؟ ان کی ایسی حرکتوں سے پوری پاکستانی قوم کی عزت نفس کے سودے ہورہے تھے۔ مزید لکھتے ہیں "کہ اس بات میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ متعدد امریکی سفارت کار بھٹو کےخلاف اس مہم میں نہ صرف ملوث تھے بلکہ اس کی مکمل نگرانی بھی کرتے تھے۔

جتنے بھی واقعات اوپر درج ہیں ان کی کڑیوں کو موجودہ حکومتی صورتحال کو باہم ملائیں تو باآسانی تصویر سامنے آ جائے گی۔ افسوس ہمارے سیا ست دانوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا بلکہ افسوس اس بات کا جس حکومت کے خلاف امریکہ تھا آج اسی کانواسہ ان کا ہم نوا لہ ہم پیا لہ ہے۔ امریکہ کی یاترا کے فوری بعد بلاول کے بیانات کو سامنے رکھا جائے تو اس کھچڑی کی سمجھ آ جائےگی۔ اس ساری مشق میں عوام کہاں ہیں؟ یہ جاننا اور پوچھنا سب کا حق ہے۔

گردش ایام کیسے انسان کو دوبارہ اسی مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

Check Also

Insaan Rizq Ko Dhoondte Hain

By Syed Mehdi Bukhari