Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Mosiqi Rooh Ki Ghiza Hai

Mosiqi Rooh Ki Ghiza Hai

موسیقی روح کی غذا ہے

سات سُروں کا بہتا دریا

سا رے گاماپا دھا نی سا

موسیقی روح کی غذا ہے، اکثریت اتفاق تو کرتی ہے لیکن ہر زمانے میں اس مقبول قول کی مخالفت کرنے والے بھی موجود رہے ہیں، اس فن کو حرام اور ناجائز سمجھتے ہیں۔ ناسمجھ شیر خوار تک جب لوری سے بہل کر نیند کی وادی میں اتر جاتے ہیں یا پالنے میں لیٹے ننھے جب جب موسیقی کی دھنوں پہ تھرکنے لگتے ہیں تو ماننا پڑتا ہے، کہ کہیں نہ کہیں بات میں سچائی بھی ہے جو منے میاں کی ناسمجھ روح بھی تھرکنے لگی اور فلموں میں تو جزبات انگیخت کرنے کے لئے گیت، غزل اور شاعری سے ہی کام لیا جاتا ہے۔

گانے کی ابتدا میں اجنبی یا ناراض محبوب اگلے تین سے چار منٹوں میں محبوبہ کے قدموں میں گر جاتا ہے گویا بنگالی باوا کا کاروبار ٹھپ کروانے میں یہ گیت اور سر سنگیت بنگالی باوا کے رقیب ہیں۔ موسیقی کے آغاز کی تاریخ جاننے کے لئے جب کوشش کی اور دماغ پہ زور دیا تو قرون اولی کے دور کے کچھ قصے بھی دماغ نے یاد کروا دئیے۔ برصغیر کی تاریخ تک محدود ہوں تو تانے بانے میاں تان سین کی پیدائش تک جاتے ہیں، سنگیت کے یہ بادشاہ سُروں کی مسند پہ جمے ہیں۔ بے شمار کلاسیکی راگوں اور الاپ کی موجودہ فنی شکل میاں تان سین نے ہی دی تھی۔

جس کے گلے میں ذرا سا بھی سُر ہواستاد اسے میاں تان سین کی قبر پہ لگے املی کے درخت کے پتے کھانے کی ہدایت کرتے ہیں، پڑھتے آئے ہیں کہ مذکورہ درخت کے پتے کھانے سے بھگوان گلے میں بولنے لگتا ہے۔ اس زمانے میں پکے راگوں کے الاپ ہی موسیقی کی معراج کے درجے پہ تھے۔ جن میں چھپے موسیقی کے سُر سنگیت روح کے تار جھنجھلا دیا کرتے تھے۔ سچے سُر گانے والے سروں سے سچ مچ کی آگ بھی لگا دیا کرتے تھے، اس ضمن میں کئی واقعات مشہور ہیں اور سینہ بہ سینہ چلتے آرہے ہیں ادب کے شائقین کو ایسے بہت سے واقعات یاد ہوں گے، یہاں ذکر کرنا تضیعِ اوقات ہوگا۔

نہار منہ ریاض سُروں میں گداز اور گلے میں سوز پیدا کرتے تھے۔ کلاسیکی موسیقی کے علاوہ ریڈیو اور فلم کے پیشہ ور گلوکار بھی اسے اپنے فن کی ضرورت اور صحت سمجھتے تھے۔ گراموفون کی ایجاد نے براہِ راست گانے کو ریکارڈ بھی کرنا شروع کر دیا بس ایک خرابی تھی یا خوبی کہ سر سنگیت کی سمجھ صرف اسے ہی آتی تھی جو سُروں کی سمجھ اور انکے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بہنے کی سکت رکھتا تھا، ان سُروں کو کھولنے اور پانے کے لئے سنگیت میں استغراق کی دولت رکھنا شرط تھا۔

موسیقی کے سچے عاشق اپنے فن کو ریاض کی صیقل پہ تاب دیتے ہیں پھر گیت کے انترے اٹھاتے ہیں تو فضا دم سادھ لیتی ہے کبھی کبھی تو بول، انکی لے اور ارد گرد کی فضا کے تال میل سے ایسا ماحول بنتا ہے کہ سننے والے سر دھنتے رہ جاتے ہیں اور روح شانت ہو جاتی ہے۔ کسی بھی صنف میں ممتاز لوگوں کے درمیان معاصرانہ چشمک لازمی پیدا ہو جاتی ہے، ہر میدان کی طرح یہاں بھی یہ ہم عصرانہ چشمک چلتی ہے جس کے نتیجے میں دھوکے سے ایک دوسرے کی آواز بٹھانے اور توڑنے کے لئے آلودہ پان اور مٹھائیاں کھلا دیا کرتے تھے۔

کئی گلوکار باوجود شدید خواہش کی اپنا دل مار کے فن کی خاطر تمام عمر اچار اور تیل میں بنی اشیا سے پرہیز رکھتے تھے، چھوٹا موٹا ریاض بھی شامل رہتا تھا تو پکے سر کچے سروں کا بار سنبھال لیتے تھے۔ جب سے سنگیت میں سے ریاض کو رہائی کا پروانہ ملا ہے اب صرف شور ہی رہ گیا ہے جس میں الیکٹریکل انسٹرومنٹس کا وزن زیادہ ہے۔ بیچ بیچ میں ایک بڑک نما شاعری کی للکار سی اٹھتی ہے۔ بھاری سر رفتہ رفتہ عہد رفتہ ہونے لگے، استاد لوگ ایک ایک کر کے اٹھنے لگے۔

پچھلے دنوں لتا منگیشکر خاک ہوئیں تو ماضی ہوئی کئی کہانیاں نئے سرے سے تازہ ہوگئیں، استاد سلامت علی بھی یاد کئے گئے، گذرے زمانے کیسے بھلے سے ہوجاتے ہیں کہ سب نے محبت سے ان کا ذکر خیر کیا۔ ساٹھ اور ستر، اسی، نوے کی دہائی میں جو سر سنگیت تخلیق کئے گئے انہیں مقبولیت کا وہ درجہ حاصل ہوا کہ زمانہ حیران رہ گیا، وہی بات کہ ولی دکنی اور غالب کی دقیق اردو سمجھنے والے یا کلاسیکی موسیقی و پکے راگ سننے والے اس دور میں ملنے ممکن نہیں۔ ہر عروج کو زوال ہے سریلے عوامی گیت بھی نوے کی دہائی کے اختتام پہ مقبولیت کا گراف گرانے لگے۔

سن دوہزار میں عوامی پسند نے ایک نئی کروٹ لی اور موسیقی کے نام پہ بھنگڑا اور رولا ڈالنا شروع کر دیا جو آج تک ہماری سماعتوں میں زہر گھول رہا ہے۔ ہمارے تجربے کے مطابق کہا جاسکتا ہے کہ ہر دور میں موسیقی کے شائقین اپنے سے ایک نسل پیچھے کے دور میں ترتیب دئیے گئے، سر پسند کرتے ہیں آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ سنگیت ایک نسل پہلے رس گھول گھول کے اپنی جگہ بناتا ہے پھر اسکے دیوانے پیدا ہوتے ہیں۔

تاہم شوو غوغا اور بھنگڑا مثل گلوکاری سے پرے اب بھی کچھ ایسے گانے والے ہیں جن کی گائیکی سن کے سمندر کی لہروں کی ٹھنڈی لپک روح کو غذا بہم پہنچاتی ہے۔

Check Also

Kho Gaye Hain Hum Sawalon Mein

By Saadia Bashir