Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Basham Bachani/
  4. Purana Pakistan (2)

Purana Pakistan (2)

پرانا پاکستان (2)

خیر، کراچی اور دوسری جگہوں پر کچھ تو تھا لیکن آزاد کشمیر میں تو بالکل نئے سرے سے ہر چیز تعمیر کرنی تھی۔ جیسا کہ ہم نے ابھی پڑھا اور سنا کہ اس وقت معمولی چیزوں کے لیے بھی وسائل نہیں تھے، تو آزاد کشمیر، جو چند مجاہدین نے بھارت کے تسلط سے آزاد کیا، وہاں کیسے معاملات چلائے گئے؟ مجھے کیا پتہ دوستو، میں تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔

میں کیا میرے ابا جان بھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ چلیں اس دور میں جو آدمی بطور افسر آزاد کشمیر میں کام کر رہا تھا اس سے پوچھتے ہیں۔ قدرت اللہ شہات، کسی تعارف کے محتاج نہیں، ان کی کتاب شہاب نامہ مقبول بھی ہے اور معروف بھی۔ وہ اپنی اس کتاب میں اس دور کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

"موسم کے لحاظ سے باہر درختوں کے سائے میں بیٹھ کر دفتری کام کرنے کا رواج تھا۔ دن بھر بھارت کے بمبار طیارے ہمارے اوپر سے یا دائیں بائیں پرواز کرتے ہوئے گزرتے تھے۔ کئی بار بھارتی طیاروں کی اڑان اس قدر نیچی ہوتی تھی کہ ہمیں پائلٹوں کے سر تک نظر آ جاتے تھے۔ "(ص269، شہاب نامہ، قدرت اللہ شہاب، چھٹہ شمارہ، 2015ء، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور)۔

کتاب میں شہاب صاحب ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں کہ کیونکہ دفتر تو تھے نہیں، آپ پڑھ چکے ہیں کہ درختوں کے نیچے بیٹھ کر کام ہوتا تھا، تو لغت کہاں سے ہوتی دفتر کے پاس، جو اس وقت مہنگی بھی تھی، لہٰذا ایک صاحب تھے راجہ محمد یعقوب، انہوں نے ایک وقت میں پوری انگریزی لغت کو حفظ کر لیا تھا، تو جب بھی ہجے یا معنی میں کسی کو کوئی الجھن ہوتی، کوئی لفظ ڈھونڈنا ہوتا تو ان سے استفادہ کیا جاتا تھا۔

اسی طرح انہوں نے محکمہ تعلیم کے سیکریٹری کا بھی ذکر کیا جن کا نام کیپٹن محمد صفدر تھا۔ (یہ آج کے کیپٹن صفدر نہیں جو محترمہ مریم نواز کے شوہر ہیں۔) وہ کیپٹن صاحب بغیر تنخواہ اور مراعات کے کام کرتے تھے اور انہوں نے، جب انہیں پتہ چلا کہ مظفر آباد کو آزاد کشمیر کا دارالحکومت بنایا جا رہا ہے، پیدل دستاویزات اپنے ساتھ لیے مظفر آباد تک سفر کیا جو انہوں نے دو روز میں طے کیا۔ (ص273)

جنرل (ر) موسیٰ خان، جو پاکستان کے چوتھے سپہ سالار تھے، اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ جب وہ برگیڈئیر تھے پاکستان کے ابتدائی دنوں میں، وہ بذریعہ سائیکل جی ایچ کیو جاتے تھے۔ (ص 100، جوان ٹو جینرل، جنرل موسیٰ خان، رائل پک کمپنی، 2008ء) آ پ سوچیں، آج تو ایک ایس ایچ او بھی بغیر گاڑی دفتر نہیں جاتا۔ اس وقت ایک برگیڈئیر۔ خیر، وقت وقت کی بات ہے لیکن یہ نہ سمجھیے کہ اس دور میں گاڑیاں ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔

گاڑیاں تھیں اس دور میں، لیکن سرکار کے پاس وسائل نہیں تھے، لہٰذا افسران بھی پیدل یا بذریعہ سائیکل دفتر جاتے تھے۔ جن مسرت حسین زبیری صاحب کا ذکر آ چکا ہے، پہلے اس مضمون میں، وہ بھی لکھتے ہیں (اسی صفحے میں جس کا حوالہ دے چکا ہوں) کہ وہ پیدل دفتر جایا کرتے تھے اور یقین مانیں، جنرل موسیٰ نے نہ مسرت صاحب نے اس حالت پر افسوس کا اظہار کیا، دونوں لکھتے ہیں کہ یہ وقت بڑا حسین اور دل کو سکون دینے والا تھا۔

یہ تو افسران کی خودنوشت میں آپ کو سنا رہا ہوں۔ میڈیا سے وابستہ لوگ بھی اس وقت کو ایسے ہی یاد کرتے ہیں۔ آغا ناصر صاحب، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی ایک بہت بڑی شخصیت، جنہوں نے "الف نون" جیسے مشہور ٹی وی کھیل (ڈرامہ) کو پیش کیا، جو خود ہجرت کر کے پاکستان آئے اور ساری تکالیف جو مہاجرین کو پیش آئیں اس سے بخوبی واقف تھے، وہ اپنی کتاب گمشدہ لوگ (سنگ میل پبلیکیشنز، 2012ء) میں اس دور کے کراچی کا ذکر کرتے ہیں کہ:

"وہ کراچی آج کے کراچی سے کس قدر مختلف تھا، اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے 1950ء کے آغاز میں کراچی شہر دیکھا۔ اگرچہ بےشمار مسائل تھے اور شہر کے رہنے والوں کو ہر روز ہر لمحہ نئی نئی دشواریوں سے واسطہ پڑتا مگر ان کے ماتھوں پر شکن نہیں آتی تھی۔ "(ص43)

"ہر آنے والا (مہاجر) اپنے ساتھ لاتعداد مسائل اور ان گنت دلخراش داستانیں لے کر آتا تھا۔ یہ عجیب و غریب زمانہ تھا۔ عورت، مرد، بچے، بوڑھے، جانے کہاں کہاں سے اپنے گھر بار چھوڑ کر اس نئے ملک میں آ رہے تھے۔ ان کے گھر لٹ گئے تھے۔ ان میں بہت سوں کے عزیز رشتہ دار شہید ہو گئے تھے۔ تمام تر پریشانیوں اور تشویش ناک حالات کے باوجود ان کے دل عزم و ہمت سے پر تھے۔ انہیں اس نئے ملک اور خود اپنی تقدیر پر مکمل اعتماد تھا۔ وہ رونما ہونے والے واقعات سے پریشان ضرور تھے، مگر مستقبل سے ناامید نہیں تھے۔ "(ص261)

ایسا نہیں ہے کہ محض اس ملک کے افسران اور لوگوں نے اس بات کو دیکھا۔ کیونکہ بہت سے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھیں بھئی، یہ لوگ تو ایسا ہی کہیں گے، کیونکہ یہ ان کا ملک ہے یا اس وقت یہ طاقت ور تھے، لہٰذا اپنی تعریف تو کریں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔

ایلینور روزویلٹ، جو امیرکا کے بتسویں صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی اہلیہ تھیں، جب انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا اس ملک کے ابتدائی دنوں میں، تو انہوں نے دیکھا کہ چند اعلیٰ افسران (یہ ذہن میں رہے، اعلیٰ افسران) اتنا کام کر رہے تھے کہ ان کی صحت پر منفی اثر پڑ رہا تھا۔ پاکستان کے ابتدائی پانچ سالوں میں 13 میں سے 4 سیکریٹیریز کورونوری تھرومبوسس کا شکار ہو چکے تھے۔ (ص93 تا 94، دا کلچر اوف پاور اینڈ گورننس اوف پاکستان، الہان نیاز، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان)۔

قربانی کا جذبہ محض سرکاری افسران تک محدود نہ تھا۔ سیاستدان اور حکومتی عہدے داران بھی اس وقت اس جذبے سے سرشار تھے۔ ملک کے سب سے پہلے وزیراعظم، نواب لیاقت علی خان صاحب کا ایک قصہ جمشید مارکر صاحب اپنی کتاب (کوور پوائنٹ، ص26 تا 27) میں لکھتے ہیں۔ مارکر صاحب نے لکھا کہ ویسے تو لیاقت علی خان صاحب بڑے خوش مزاج انسان تھے اور ہمیشہ وقت کی پابندی کا خیال رکھتے تھے، لیکن ایک دن وہ دوپہر کے کھانے کے وقت دیر سے پہنچے اور غصے میں تھے۔

جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ وجہ یہ تھی کہ ایک افسر نے انہیں ایک دستاویز دیا تھا جس کو دیکھ کر لیاقت علی خان طیش میں آ گئے۔

اس زمانے میں جو لوگ بھارت میں اپنی زمینیں، جائیداد وغیرہ چھوڑ آئے تھے، ان کے لیے اس وقت یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ وہ پاکستان آ کر اس قدر زمین اور جائیداد ریاست سے لے سکتے ہیں (وہ الگ بات ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال بھی ہوا ہوگا اور کئی حقداروں کے لیے مشکلات بھی پیدا ہوئی ہونگی)۔ یاد رہے لیاقت علی خان صاحب نواب اور رئیس تھے، کئی اپنی قیمتی زمینیں چھوڑ کر آئے تھے بھارت میں، دہلی کا اپنا گھر پاکستانی سفارت خانے کے لیے وقف کر دیا لہٰذا اس افسر نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کی۔ البتہ کچھ غلط نہ کیا۔

جتنی لیاقت علی خان کی جائیداد بھارت میں تھی، اس کے ہوبہو یہاں پاکستان میں نواب صاحب کو انہوں نے زمین اور جائیداد مختص کر کے دی۔ لیکن لیاقت علی خان طیش میں آ گئے۔ اس دستاویز کو پھینک کر افسر کی شدید لفظوں میں سرزنش کی۔ کہا کہ جب سارے بھارت سے آئے پناہ گزیروں کو رہائش مل جائے تب میرے کام پر توجہ دینا۔ مارکر صاحب لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان نے انہیں ایسے افسران کے متعلق کہا "اس قسم کے افسر ہمیں تباہ کر دیں گے۔ " (اگر یقین نہیں آتا تو اعظم خان اور عمران خان کی آڈیو لیک سن لیں۔)

(یہ تھے وہ لوگ جنہوں نے ہمیں"حقیقی آزادی" دلائی۔ ڈھونگیوں سے اجتناب کیجیے جو "حقیقی آزادی" کا جعلی منجن بیچتے ہیں۔ یہ جعل ساز "آزادی مارچ" میں خود نواب صاحبوں کی طرح 2 بجے پہنچتے ہیں، جب دن آدھا گزر چکا ہوتا ہے۔ یہ پیدا نواب نہیں ہوئے تھے، لیکن نوابوں والے سارے اعمال ہیں، لیکن لیاقت علی خان پیدا نواب ہوئے تھے، لیکن جب گئے تو ایک عام آدمی کی مانند گئے۔)

جاری۔۔

Check Also

Jimmy Carr

By Mubashir Ali Zaidi