Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arif Anis Malik/
  4. Dangal Is On?

Dangal Is On?

دنگل از آن؟

کل بھی تھا آج جیسا، ورنہ منیر ہم بھی

وہ کام آج کرتے کل پر جو ٹال آئے

کوئی 27 برس پہلے، شاعر باکمال منیر نیازی نے اپنا پسندیدہ ارغوانی مشروب سامنے رکھتے ہوئے اپنی مخصوص ٹاپ دار آواز میں اپنا شعر پڑھا اور ہیپی نیو ائیر کی پوری فلاسفی کے سمندر کو کوزے میں بند کردیا۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ جب آج کا کام کل پر ڈال دیا جائے تو تب سارے مہینے اور سال ایک جیسے ہو جاتے ہیں۔ حال نہ بدلے تو سال بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور حال مشقت کے پسینے سے بدلتا ہے، اس کے لئے لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ سپنے سچے ہو سکتے ہیں، خواب حقیقت بن سکتے ہیں، محض سال ہی نہیں، حال بھی بدل سکتا ہے، مگر اس وقت جب خواب کُھلی آنکھوں سے دیکھے جائیں، جب ہوائی قلعے کے نیچے کنکریٹ کی ٹھوس دیوار اُٹھادی جائے، توجنگل میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔

ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اُوپر سے چھاجوں بارش برس رہی تھی۔ لمحہ بھر کے لیے بجلی کڑکتی تو تاریک، پُراسرار اور اُلجھا دینے والے عظیم الجثہ وجود پر کچھ روشنی پڑتی تھی۔ وہ نوجوان کئی بھول بھلیوں میں سے گزرتا ہوا اور ہاتھوں سے رستہ ٹٹولتا ہوا درختوں کے اس جھنڈ تک پہنچا جہاں پر کئی راستے آپس میں گڈمڈ ہوتے تھے۔ اس نے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے دل کی گہرائیوں کے ساتھ اپنے رب سے رہنمائی کی درخواست کی: "میرے اللہ اگر خواجہ خضرؑ کا کوئی وجود ہے تو ان کو بھیج کہ میں رستہ کھو چکا ہوں اور اپنے آپ کو تیرے حوالے کرتا ہوں "۔ اس نے بچپن میں ماں سے سُنی ہوئی حکایتوں کی روشنی میں بے ساختہ فریاد کی۔ خواجہ خضرؑ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھاتے ہیں، بشرطیکہ دُعا قبول ہوجائے۔

شاید اس کی دُعا قبول ہو گئی۔ بارش کے لپیٹے جیسے ایک دم ہلکے سے ہو گئے۔ آسمان سے روشنی کی سیڑھی سی نکلی اور جنگل کی سرسبز زمین پر جالگی۔ براق کی روشنی میں اسے وہ شاندار، وجیہہ اور پُرتمکنت بزرگ نظر آرہے تھے، جو اس کی دُعا کا جواب بن کر آسمان سے اُترے تھے۔ نوجوان کا جسم کا رواں مسرت سے بھیگ گیا۔"نوجوان! کہاں جانا چاہتے ہو؟ " اُن کی بارعب اور گھمبیر آواز گونجی تو وہ سٹپٹا سا گیا۔ ایک دفعہ پھر بجلی کڑکی اور اردگرد کا ماحول روشن سا ہو گیا۔ نوجوان کو معلوم ہو گیا کہ وہ کسی دوراہے پر نہیں بلکہ شاید سوراہے پر کھڑا تھا۔ جنگل کے پریچ راستوں سے درجنوں پگڈنڈیاں وہاں گلے مل رہی تھیں اور بہت سے راستے آگے کی طرف دوڑ رہے تھے۔ نوجوان نے اپنی منزل کے بارے میں سوچا تو اس کے ذہن پر بڑا سا سوالیہ نشان اُبھرا اور ایک ہالا سا تن گیا۔

"میں واقعی کہاں جانا چاہ رہا ہوں؟ " اس نے اُلجھن میں اپنی پیشانی مسلی، جس پر ابھی بھی بارش کے قطرے اٹکے ہوئے تھے۔"میں یہاں سے باہر جانا چاہ رہا ہوں "۔ اس نے قدرے ہچکچاتے ہوئے، جی کڑا کے کہہ دیا۔"باہر؟ " بزرگ کے روشن چہرے پر اُلجھن سی تیر گئی۔"یہ سارے راستے یہاں سے باہر کی طرف جاتے ہیں "۔ انہوں نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور اُجالا سا ہو گیا جس میں درجنوں راستے ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے کہیں نہ کہیں بھاگے جا رہے تھے۔"میں واقعی کہاں جانا چاہ رہا ہوں؟ " نوجوان نے شاید پہلی مرتبہ اپنے آپ سے پوچھا۔ جنگل میں درندوں، سانپوں اور حشرات الارض سے بچتے ہوئے پچھلے کئی دنوں سے وہ کہیں پہنچنا چاہ رہا تھا۔

اب جبکہ اس کی فریاد سُن لی گئی تھی اور راستہ دکھانے والا بھی میسر تھا، اسے یاد آیا کہ اس کی منزل کا کوئی واضح سرا، پتہ یا چہرہ موجود نہیں تھا۔ وہ کہیں پہنچنا چاہ رہا تھا مگر جانے کہاں؟ اس نے مٹھیاں بھینچیں، اپنے ہونٹ دانتوں میں دبائے اور دیر تک سوچتا رہا۔"مجھے معلوم نہیں کہ میں کہاں جانا چاہ رہا ہوں، میں بس یہاں سے باہر جانا چاہتا ہوں "۔ بہت مشقت کے بعد اس کی زبان سے یہی الفاظ نکل سکے۔ بزرگ کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات اُبھرے۔ انہوں نے لحظہ بھر اپنی بھرپور توانا آنکھیں اس کے اُلجھن زدہ چہرے پر گاڑیں لیکن وہاں ایک بڑا سا سوالیہ نشان پا کر وہ نااُمید سے ہو گئے۔

"نوجوان، اگر تمہیں اپنی منزل معلوم نہیں ہے تو یاد رکھو کوئی بھی راستہ تمہیں کہیں بھی لے کر نہیں جائے گا"۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی ایک زوردار جھماکا سا ہوا اور وہ روشنی سمیت غائب ہو گئے۔ نوجوان جنگل کے اسی تاریک جھنڈ میں سوراہے پر اکیلا کھڑا تھا۔ برسوں پُرانی سُنی ہوئی حکایت اس وقت یاد آئی جب 2021ء کا سورج غروب ہو چکا ہے- 2022ء طلوع ہو چکا ہے اور شاہراہ حیات پر 366 راستے مختلف سمتوں میں دوڑتے ہوئے ہمارے منتظر ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمیں کسی نہ کسی راستے پر چلنا پڑے گا ورنہ کوئی راستہ ہمیں کہیں نہیں پہنچا سکے گا۔ کچھ راستے صرف چلنے سے بنتے ہیں۔ شاید ہمارا راستہ کچھ ایسا ہی ہے۔ تو اے پیارے پڑھنے والے آؤ ایک بڑی سی ڈائری میں بڑے بڑے سے خواب لکھیں۔

نئے سال کے عہد وپیماں کریں۔ اس یقین سے سفر کا آغاز کریں کہ یہ سال ہم نے جینا ہے۔ اس کام کا یقین کریں جو ہم خود کر سکتے ہیں۔ اس لمحے آج کے دن سے جس کی شروعات ہو سکتی ہوں کوئی ایسا عہد جو ہم اپنے آپ سے کر سکیں کچھ ایسی عادتیں، رویے، اسلوب اور برکتیں جو ہمارے اُوپر ہماری وجہ سے نازل ہو سکیں۔ آؤ دُنیا بھر کو نہیں، اپنے آپ کو بدلتے ہیں۔ آؤ اپنی چھوٹی سی عادت کو بدل کر دیکھتے ہیں۔ اگر ہزار سال کا سفر ایک قدم اُٹھانے سے شروع ہوتا ہے تو آج پہلا قدم اُٹھاتے ہیں اور مسیحا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک آنکھ کھلی رکھنی ہے اور اگر دورانِ سفر ہمارا مسیحا لاپتہ بھی ہو جائے تو پھر بھی چلتے رہنا ہے۔

نیا سال ہو یا پُرانا، آج ہو یا کل، یہ لڑائی روز لڑنی ہوتی ہے۔ پہاڑ پر چڑھنے سے پہلے اپنے اوپر چڑھنا ہوتا ہے اور خوف کی دیوار پر کمند ڈالنی ہوتی ہے۔ سب سے مشکل کشتی اپنے ساتھ کرنی ہوتی ہے کہ یہی زندگی کا دنگل ہے جہاں لڑ نا پڑتا ہے اپنے اندر کے خوف سے، ناکامی کے ڈر سے، طعنوں کے بھوتوں سے، لوگ کیا کہیں گے کی انہونی زنجیروں سےرسے تو ہم خود اپنے گلے میں ڈالتے ہیں اور انہیں ہم ہی توڑ سکتے ہیں، ورنہ سارے خواب ادھورے رہ جائیں گے اور سپنے مر جائیں گے۔ یہ ہمارا اپنا چناؤ ہے کہ ڈر کے جینا ہے یا ڈر سے آگے جانا ہے کیونکہ ڈرکے آگے جیت ہے۔ پیارے پڑھنے والے، یہی وقت ہے، یہی سال، یہی مہینہ، یہی دن ہے اور یہی جینے کا سمے ہے دوڑو، جتنا دوڑنا ہے، بھاگو جتنا بھاگنا ہے، لڑو جتنا دم ہے اپنی عادتوں سے، کل پر ٹالنے سے، ہتھیار ڈالنے سے۔

سارے خواب، سارے سپنے پورے ہوں گے، پر اس وقت جب تم اپنے آپ سے جیتو گے، جو کرنا ہے آج کرنا ہے کہ کل کس نے دیکھا ہے۔ یہ وزن ابھی کم کرنا ہے، یہ سفر آج ہی شروع ہوگا۔ اس محبت کا اقرار کرنے کا یہی وقت ہے، آؤ میدان حاضر ہے۔ کشتی لڑنی ہوگی، اپنے آپ سے الجھنا ہوگا اور اپنے آپ سے جیتنا ہوگا۔ نیا سال مبارک ہو۔ دنگل از آن!آپ نیچے فیس بک کے چوک میں اپنی ایک بڑی عادت شیئر کے سکتے ہیں جسے آپ نے 2022 میں بدلنا ہے۔

Check Also

Bande Hi Karde Rizq Zakheera

By Javed Ayaz Khan