Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ilyas Kabeer/
  4. Habib ur Rehman Batalvi (2)

Habib ur Rehman Batalvi (2)

حبیب الرحمٰن بٹالوی (2)

ان کا پسندیدہ میدان تو تدریس تھا، ایسا نہ ہو سکا تو انتظامی مصروفیات سے وابستہ ہو گئے، لیکن ان کا یہ عشق ماند نہیں پڑا۔ چنگاری دبی رہی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ چنگاری شعلہء جوالہ بنی تو وہ ملتان کے ایک نجی کالج سے وابستہ ہو گئے اور یہاں علم کے چراغ اس طور روشن کیے کہ طلبا ان کی تدریس سے بسمل ہوئے۔ وہ ایسے اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ جو تدریس کو حقیقی معنوں میں مقدس پیشہ سمجھتے ہیں۔ محض تنخواہ وصول کرنے کی ملازمت نہیں۔ ان کے نمایاں ہونے والے شاگردوں میں سے ایک طالبہ حریم طارق بھی ہے۔ جو ان سے بہت متاثر ہوئیں۔ کیوں کہ انھیں اپنے اس استاد سے والد جیسی شفقت اور احترام نصیب ہوا۔ انھوں نے اپنے استاد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ایک کتاب "حق ادا نہ کر سکیں گے" بھی لکھی۔ یہ ایک طالب علم کی طرف سے اپنی نوعیت کی اہم کتاب ہے۔ حریم اگرچہ میڈیکل کی طرف گئیں لیکن شعر و ادب کا پِنڈ نہ چھوڑا۔ آج وہ نشتر ہسپتال میں ڈاکٹر بن کر استاد سے کسب فیض کی بدولت انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ افسانے اور روزانہ کی بنیاد پر ڈائری بھی لکھ رہی ہیں۔

شگفتگی اور برجستگی حبیب بٹالوی کے مزاج میں شامل تھی۔ وہ سیاسی منظرنامے اور سیاست دانوں کے مضحکہ خیز بیانات کو مزید استہزائیہ بنانے کا فن جانتے تھے۔ ان کے مزاج میں یہ بذلہ سنجی اور برمحل جملگی ذوالکفل بخاری مرحوم (جنھیں ہم استاد جی کہتے تھے۔ خدا ان کی روح کو ہمیشہ آسودہ رکھے) کی محفلوں کے مرہون تھا۔

حبیب بٹالوی میں ایک نمایاں خوبی صاف گوئی اور معاملہ فہمی تھی۔ انھوں نے عمر بھر کسی سے ناانصافی نہیں کی اور معاملاتِ حیات نہایت دیانت داری اور ایمان داری سے انجام دیے۔ نیک نیتی سے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی۔ انھیں سرد و گرم چشیدہ بنایا۔ انسان دوستی سکھائی کہ وہ عمر بھر اسی کے پرچارک رہے تھے۔ ان کے فرزند ادیب الرحمن میں بھی وہی خوبیاں عود کر آئی ہیں۔ جو ان کے والد میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان میں بھی اپنے والد کا عکس نظر آتا ہے۔

حبیب بٹالوی نے لکھنے کا آغاز ادبی تقریبات اور مشاعروں کی رودادوں سے کیا۔ جن کی ایک زمانے میں خاصی شہرت رہی۔ ایسی ہی ایک یادگار اور معرکہ آرا روداد پڑھ کر ملتان کے نظم گو شاعر پروفیسر تاثیر وجدان بوجوہ چیں بہ جبیں ہوئے تھے۔ لیکن جلد ہی ان کی جبیں شکنوں سے آزاد ہوگئی تو حبیب نے ان سے پہلی جیسی "حبیبیائی" جاری رکھی۔ یہ ان کا خاص انداز تھا کہ وہ کسی سے خفا نہیں ہوتے تھے۔ شاید ان کے خمیر میں خفگی کے عناصر اور لغت میں بے اعتنائی کے الفاظ تھے ہی نہیں۔ کیوں کہ انھیں اپنے نام کا پاس رکھنا خوب آتا تھا۔

ان کی پہلی تصنیف "ہر قدم روشنی" کے عنوان سے شائع ہوئی۔ یہ حج کا سفرنامہ ہے۔ لفظیات، اسلوب اور زبان و بیان کی بدولت اسے بلا مبالغہ ملتان میں تقدیسی سفرناموں کی روایت میں ایک اہم اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ محبت آمیز احترام اور جذباتی لگاؤ اس کتاب کا خاص رنگ ہے۔

مختلف اصنافِ سخن سے ہوتے ہواتے حبیب بٹالوی شاعری کے خارزار میں اترے اور پابند اور آزاد نظم کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ پہلے مجموعے "چمنِ خیال" کی پذیرائی ان کے تخلیقی وفور کے لیے مہمیز ثابت ہوئی اور وہ اردو اور اپنی ماں بولی پنجابی میں شعر کہتے رہے۔ اس دور میں ان کا ایک پنجابی شعر خاصا زیر بحث رہا:

بارہ مُولا مری وچ ٹھنڈیاں ہواواں نیں

گرمی دا مزہ لیں مولتان چلیے

اسی طرح اردو کا یہ شعر بھی خاصا پڑھا اور سنا گیا:

آگ لگی ہے گلشن گلشن

پھول اور پات سے ڈر لگتا ہے

اس دوران انھوں نے شخصی مضامین اور کہانیاں بھی لکھیں جنھیں"خاکہ کہانی" کے عنوان سے منظر عام پر لائے۔ ان کی کہانیوں میں سماجی کرب، انسان دوستی اور بے درد دردمندی دکھائی دیتی ہے۔ شخصی مضامین میں لگی لپٹی کے بغیر دو ٹوک اندازِ بیاں پڑھنے کو ملتا ہے۔ گزشتہ برس ان کا دوسرا مجموعہ "بادل، بارش اور ہوا" شائع ہوا۔ اپنے موضوع، اسلوب اور مواد کے حوالے سے دیکھا جائے تو اسے "چمنِ خیال" کی توسیع کہا جا سکتا ہے۔

کسی بھی فرد کی اپنی ماں سے محبت اور جڑت فطری جذبہ ہے۔ اس سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حبیب بٹالوی کو بھی اپنی ماں سے جذباتیت سے مملو محبت تھی۔ اس جذبے کا انھوں نے مضامین اور نظموں میں تخلیقی اظہار کیا۔ اس ضمن میں ان کی دو کتابیں"ماں اور مامتا" اور "ماں کی اشکوں بھری کہانی" ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ ان کتابوں میں ان کے علاوہ دیگر مشاہیرِ ادب کی تحریریں بھی شامل ہیں۔

حبیب بٹالوی اگرچہ ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کی قبیل کے آدمی اور ان دونوں سے بہت متاثر اور ان کی تحریروں کے اسیر و قتیل تھے لیکن تمام عمر ہنگامہ خیزی سے دور رہے۔ وہ دراصل صلح جو آدمی تھے اور صلہ و ستائش کی پروا کیے بغیر خاموشی سے کام کرتے رہے۔ ان کا ایک اہم اور محنت طلب کام "خطباتِ شورش کاشمیری" کی یکجائی ہے۔ اس کے لیے وہ نہایت محنت سے شورش کے خطبات کو آڈیو کیسٹ سے ضابطہء تحریر میں لائے۔

"مترادف ضرب الامثال" حبیب بٹالوی کا تحقیقی نوعیت کا نہایت اہم کام ہے۔ اس میں انھوں نے مختلف ضرب الامثال کی اردو، انگریزی، عربی، فارسی اور پنجابی مثالیں یکجا کر دی ہیں۔ یعنی ایک ہی ضرب المثل کو مختلف زبانوں میں کیسے پیش کیا جاتا ہے۔

تین ماہ قبل میں نے انھیں کہا کہ "خاکہ کہانی" میں سے خاکے الگ کر دیں کیوں کہ اس طرح ایک ہی کتاب میں خاکے دب گئے ہیں۔ اور اس کتاب کے بعد لکھے گئے نئے خاکے بھی اس میں شامل کر دیں اور اسے دربارہ شائع کرائیں۔ میری اس تجویز سے بہت خوش ہوئے۔ وہ دوستوں کے مشورے، تجاویز اور آرا کو بہت احترام دیتے تھے۔ سو انھوں نے اسے کتابی صورت میں لانے کا اہتمام شروع کر دیا اور کمپوزنگ شروع کرا دی۔ ایک دن گھر آئے تو مجھ پر لکھا گیا ایک خاکہ بھی ہمراہ لائے اور کہا کہ اب کتاب مکمل ہوگئی ہے۔ میں نے پس و پیش سے کام لیا تو انھوں نے کہا کہ یہ خاکہ شامل ہوگا تو کتاب چھپے گی ورنہ کبھی نہیں چھپے گی۔ مجبوراََ مجھے خاموش رہنا پڑا۔ کتاب کا نام "قلمی تصویریں" منتخب ہوا تو میں نے اس کا سرورق بنا دیا۔ کیوں کہ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ میں ہی ان کی کتابوں کے سرورق بناؤں اور ان کی اکثر کتابوں کے سرورق میں نے ہی بنا رکھے ہیں۔ "قلمی تصویریں" طباعت کے لیے تیار ہوگئی لیکن انھوں نے عقبیٰ سدھارنے کی تیاری کر لی اور داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔

"قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ"

یہ کتاب ان کی زندگی میں تو شائع نہیں ہو سکی۔ اب ان کی شاگرد عزیز ڈاکٹر حریم طارق اور ہم سب کی خواہش اور کوشش سے یہ کتاب بہت جلد منظر عام پر آئے گی۔ کیوں یہ قلمی تصویریں انھوں نے دل کے فریم میں سجا رکھی تھیں، سو اس فریم کو سامنے تو آنا چاہیے۔

فی زمانہ کہ جب ہر سمت للک اور لوبھ نے انسان کی توقیر ذرہ برابر بھی نہیں رہنے دی۔ کچھ لوگ اپنے دو رویاء رویوں کی وجہ سے دور سے شناختے جاتے ہیں۔ اپنے کردار و عمل سے بوزنے اور بونے ہو گئے ہیں، اسی زمانے میں ہمارے آس پاس حبیب بٹالوی جیسے بلند انسانی رویوں کی وجہ سے آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے شاید ان کے بارے میں بہت پہلے کہہ رکھا تھا:

'ایک اور زاویے سے آسماں لگتا ہے"

Check Also

Az Toronto Maktoob (4)

By Zafar Iqbal Wattoo