Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Ahmad Aamir/
  4. Jaagti Aankhon Ke Khwab

Jaagti Aankhon Ke Khwab

جاگتی آنکھوں کے خواب

الیس ہووے (Elias Howe) 1819ء میں امریکہ میں پیدا ہوا اور صرف 48 سال کی عمر میں انتقال کر گیا لیکن اس نے دنیا میں ایک ایسی چیز بنا دی جس نے کپڑے کی تیاری میں انقلاب برپا کر دیا۔ یہ سلائی مشین تھی جو اُس نے 1845ء میں ایجاد کی۔ ہزاروں سالوں سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آ رہا تھا جیسا عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے۔ الیس ہووے نے جو مشین بنائی اُس کی سوئی کا چھید بھی جڑ میں تھا جس کی وجہ سے ابتداء میں وہ مشین زیادہ کارآمد نہ تھی لیکن جب الیس ہووے نے روایت سے ہٹ کے سوچا اور سوئی کا چھید جڑ کے بجائے نوک کی طرف بنایا تو ایسی مشین بنا ڈالی جس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔

اگر ہم پاکستان میں ٹریننگ کے شعبے میں دیکھیں تو قاسم علی شاہ بھی روایات سے ہٹ کے سوچتے اور کام کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مجھے پی سی ہوٹل لاہور میں منعقدہ پاکستان کی پہلی "ٹرینرز اور سپیکرز کانفرنس" میں شرکت کا موقع ملا۔ جس میں ملک کے نامور ٹرینرز اور سپیکرز نے شرکت کی۔ لیکن اس کانفرنس کے پیچھے قاسم علی شاہ کا وہ خواب تھا جو انہوں نے جاگتی آنکھوں سے آج سے چند سال پہلے دیکھا اور ایک فاؤنڈیشن بنائی، جس کا نام "قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن" رکھا گیا۔

جاگتی آنکھوں کے خواب کیا ہوتے ہیں اور انہیں پورا کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ کوئی شاہ جی سے پوچھے، جنہوں نے انتہائی مختصر عرصہ میں اس فاؤنڈیشن کے تحت بڑے بڑے کام کر دکھائے اور حقیقی معنوں میں نوجوان نسل کی تربیت کا سلسلہ شروع کیا، جس کا بدقسمتی سے ہمارے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں فقدان پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس فاؤنڈیشن کا سلوگن "سوچ بدلے گی تو پاکستان بدلے گا " رکھا گیا۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں ہمیں صرف نمبر گیمز میں ڈال دیا گیا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری نوجوان نسل بڑی بڑی ڈگریاں لے کر بھی اندر سے کھوکھلی رہی۔ اس فاؤنڈیشن میں قاسم علی شاہ نے "اپنی تلاش" کے عنوان ایک پروگرام شروع کیا جس میں انہوں نے اپنی گفتگو سے ہزاروں، لاکھوں لوگوں کو خود شناسی اور پرسنل ڈویلپمنٹ کے بارے میں بتایا۔

"ٹرین دی ٹرینرز" پروگرام سے بہت بڑی تعداد میں نوجوان نسل کی تربیت کی اور اِس دَور کی نامور شخصیات جو زندگی کے مختلف شعبوں میں کمال مہارت رکھتی ہیں اُن سے اس پروگرام میں لیکچرز کا انعقاد کروایا۔ اس فاؤنڈیشن کے تحت "شیئر دی ویزڈم" (Share the Wisdom) کے نام سے ملک کی اُن نامور شخصیات کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا گیا جو اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں کردار ادا کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔

اس کا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی شعبے میں کامیاب لوگوں کی کامیابی کے گُر ہر اُس انسان تک پہنچ پائیں جو اپنے آپ کو کامیاب ہونا دیکھنا چاہتا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کے تحت ادبی، روحانی، علمی اور کاروباری شخصیات سے بھی وقتاََ فوقتاََ لیکچرز دلوانے کا سلسلہ جاری رہا۔ آج یہ فاؤنڈیشن ملک کی نامور یونیورسٹیوں کے مستحق طلباء و طالبات کو تعلیمی وظائف بھی دے رہی ہے۔ کہتے ہیں مرشد، اُستاد یا دوست تو وہ ہوتا ہے جو اپنے ساتھ منسلک لوگوں کی زندگیاں بدلے۔

آج سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ قاسم علی شاہ نے اُن کی زندگیوں کو ایک مثبت سمت کی طرف موڑ دیا ہے۔ ایک مرشد کا کام بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی انسان میں ان صلاحیتوں کو اجاگر کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس میں رکھی ہوں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کی ہر بات دل پہ اثر کرتی ہے، شاہ جی اُن میں سے ایک ہیں۔

قاسم علی شاہ نے پاکستان میں پہلی مرتبہ لوگوں میں سیاحت کے ذریعے علم سیکھنے کو متعارف کروایا اور تقریباََ 500 لوگوں کے ساتھ ازبکستان، ترکی اور مصر کے سفر کئے۔ اس فاؤنڈیشن کی دوسری سالگرہ کے موقع پر پی سی ہوٹل میں بیٹھا میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر خواب نیک نیتی پر مبنی ہوں تو پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ صرف دو سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں بھی آپ بے شمار خیر کے کام کر سکتے ہیں اور پاکستان کے نامور ٹرینرز اور سپیکرز کو اکٹھا کر کے اپنی نوعیت کا منفرد کام بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس کانفرنس میں کامران رضوی، فائز حسن سیال، ولی زاہد، عمیر جلیاں والا، حسیب خان اور قاسم علی شاہ نے شرکاء سے خطاب کیا۔ کانفرنس میں جہاں کامران رضوی نے ہلکے پھلکے انداز میں زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کروایا وہیں ولی زاہد نے ایک ٹرینر کے لیے جن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے اور آج کے دور میں ایک کامیاب ٹرینر بننے میں کن باتوں کا ہونا ضروری ہے، اُس پر بات کی۔ عمیر جلیاں والا نے اپنے مخصوص انداز میں کانفرنس کے تمام شرکاء کو متاثر کیا۔

فائز حسن سیال جو ملک کے نامور ٹرینر ہیں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ٹرینر بننے کے لیے انتہا کی محنت کرنا پڑتی ہے اور دوسروں سے منفرد ہونے کے لئے آپ کو کام بھی منفرد کرنا پڑتا ہے۔ آخر میں قاسم علی شاہ صاحب نے شرکاء سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ زندگی میں کسی بھی میدان میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ترقی کرنا چاہتے ہیں تو عاجزی اختیار کر لو، یہ عاجزی آپ کو بلند کر دے گی۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ آپ کو نوازتا رہے تو پھر اُونچے سے اُونچے درجے پر پہنچ کر بھی اپنے آپ کو زیرو سمجھو۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے "پاکستان لیجنڈ ایوارڈ" کے لیے منتخب کیا گیا، لیکن وہ ایوارڈ میں نے وصول نہیں کیا، کیونکہ ایوارڈز لینا کبھی بھی میری خواہش نہیں رہی اور نہ کسی ایوارڈ کے لیے میں نے یہ سب کام کیا۔

شاہ جی کی ان باتوں سے میرا یقین اور بھی پختہ ہوگیا کہ اگر آپ زندگی کے کسی شعبہ سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور نیک نیتی سے اپنا کام کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے، جب لوگ آپ کی صلاحیتوں کے معترف ہو جاتے ہیں۔ بصورت دیگر اپنے نام کے ساتھ بڑے بڑے عہدے لکھ دینے سے بھی کوئی شخص بڑا نہیں ہو پاتا۔ مجھے امید ہے کہ "قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن" کے تحت اگر ایسے ہی روایات سے ہٹ کے کام ہوتے رہے اور یونہی لوگوں کی سوچ بدلتی رہی تو پاکستان ضرور بدلے گا۔

Check Also

Madam Commissioner

By Rauf Klasra