Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Mera Noha Kon Sune Ga

Mera Noha Kon Sune Ga

میرا نوحہ کون سُنے گا

یہ دنیا غم و آلام کی وادی ہے، جہاں مصیبتوں کے قافلے اُترتے ہیں اور رنج و فرقت کی اونٹنیاں گُھٹنوں کے بَل بیٹھتی ہیں۔ اُن کی سواریاں گویا ایسی تھکی ہاری بوڑھی عورتیں ہیں۔ جن کی کمریں زمانے کی بھاری گٹھڑی نے جھکا دی ہیں۔ اُنھیں کنارے پھاندنے کا یارا نہیں جب تک کہ موت کے کناروں سے نہ جاملیں۔

دو دن پہلے میرا نہایت عزیز دوست صادق ایک حادثے میں فوت ہوگیا۔ اور کل مَیں نے اُس کا جنازہ پڑھ کر اُس خاک کے نیچے دبا دیا۔ جسے اب مہ و سال کی گردش ظاہر کرنے پر قادر نہیں۔ اگرچہ اُس کی موت ایک شہید کی موت تھی مگر کیا یہ لفظ ایسے شخص کی جدائی کا نعم البدل ہو سکتا ہے۔ جس کی زندگی دوستوں، عزیزوں اور اہلِ دنیا کے لیے فائدہ رساں ہو۔

غم زدوں کے لیے راحت بخش ہو اور دل فسردوں کے لیے خوش طربی۔ بُرا ہو اِس فلکِ ناہنجار کا جس کے کلھاڑے ضرب اُن سروں پر پڑتی ہے جنھیں دیر تک زندہ رہنے کی ضرورت ہو اور ایسے لوگوں سے آنکھ چرائے رکھتا ہے۔ جو دنیا کے لیے ضرررساں ہوں۔ صادق میرے بچپن کا دوست، ایک ہُنر مند کاری گر، ایک نیک طینت مزدور اور حلال رزق کمانے والا خوش مزاج ساتھی تھا۔ بخدا مجھے بڑے افسروں، مقتدروں اور بزعمِ خود دانشوروں کی محفل میں کبھی راحت نہیں ملی جو اپنے مزدور دوستوں کی محفل میں ملتی ہے۔ اور صادق اُن محفلوں کی جان تھا۔

مَیں نے کبھی اُس نیک بخت شخص کو کسی کا دل دکھاتے نہیں دیکھا، نہ اپنے کام سے خیانت کرتے پایا۔ بلکہ کسی محنت کش مزدور کو اتنی فرصت ہی کہاں کہ وہ کسی کے نقصان کا خیال کر سکے۔ ہم نے بچپن سے اب تک ہزاروں مصیبتیں سہیں اور سینکڑوں کام کیے، اکٹھے کھیلے کودے اور جوان ہوئے، لیکن آج تک اُس کے لیے میرے دل میں محبت اور جانثاری کے جذبے کے سوا کوئی جذبہ نہیں تھا۔

یہ اِس وجہ سے تھا کہ وہ ایک ولی صفت انسان تھا، کل اُس کا جنازہ کروا کے دفن کیا اور گھر آتے ہوئے سوچتا آیا، کیا وجہ ہے کہ کام کرنے والے انسان عین اُس لمحے کام سے روک دیے جاتے ہیں۔ جب وہ دنیا کو خوبصورت بنانے کے قریب ہوتے ہیں۔ خدا کی قسم مَیں ایسی کئی مصیبتیں پے در پے برداشت کرتا آ رہا ہوں اور ہر مصیبت میرے تیز رفتار کام کی منزل کو مجھ سے دُور کر دیتی ہے۔ کیا تم سوچ سکتے ہو کہ مَیں اِس وقت ایسی منزل پر ہوں، جس نے مجھے سو سال کے بوڑھے سے زیادہ بوڑھا کر دیا ہے۔

ایسے عالم میں مجھے طبعی کہنہ سال لوگ بچے لگنے لگے ہیں۔ جنھیں وقت نے کبھی ہنر مندی، تنگ دستی اور مصیبت سے ایک ہی لمحے میں دوچار نہیں کیا۔ مَیں ایک ایسا انسان تھا جس کے دل میں کتنے ہی اہم کام کرنے کی آرزوئیں اُس وقت حسرتوں میں بدل گئیں، جب مجھے اِس رنج و آلام کی وادی میں مصائب کی گردش نے روند دیا۔ مَیں کتنا جوان تھا اور کتنی جلدی بوڑھا ہوگیا۔ کیونکہ غم اُسی کے لیے ہے جس کے دل میں محسوس کرنے کی رَو دوڑتی ہے۔

صادق کا ذکر میری خود نوشت (آباد ہوئے برباد ہوئے) کے کئی صفحات میں موجود ہے۔ پچھلے دنوں مجھے کہنے لگا، یار اکبر میری عمر دھکے کھاتے گرزی ہے، مَیں نے بہت محنت بھی کی، کام بھی کیا مگر کبھی سُکھ اور چین کے کشادہ دسترخوان پر نہیں بیٹھ سکا۔ جہاں اپنے بچوں کی اگلے وقت کی روٹی کے لیے فکر خود مجھے نہ کھائے جاتی تھی۔ شکر ہے اب اُس فکر سے فارغ ہو چکا ہوں۔ اُس کی یہ بات گویا فلکِ عناد پرست نے کان لگا کر سُن لی اور چند ہی دنوں میں موت کا جال پھینک کر اُسے اُچک لیا۔ اور مَیں ایک بے بس انسان کی طرح اُسے دامِ قضا میں اُلجھا آسمان کی طرف اُٹھتا دیکھ رہا تھا مگر روک نہ سکتا تھا۔ میری حالت اُس گرے ہوئے زخمی سپاہی کی تھی جو غنیم کے ہاتھوں اپنی متاع غارت ہوتا دیکھے مگر اٹھنے کی سکت نہ رکھے۔

ایسے لوگ میرے رنج کو کیسے محسوس کر سکیں گے جن کے گھروں کے بام پر کوئی کنگرہ نہیں کہ اُس کے گرنے کا اُنھیں غم ہو، نہ اُنھوں نے ایسی کوئی کھیتی تیار کی جس کے پامال ہونے کا خوف ہو۔

خدا کی قسم، مَیں نے جب سے ہوش لی ہے ہر وقت ایسی مصیبت کا ہیولا دیکھتا ہوں، جس کے لیے کبھی محنت نہیں کی مگر وہ ایک صلے کی صورت میری جھولی میں گر کر رہتی ہے۔

کون ہے جو آنے والے رنجوں کو میری طرح دیکھ سکتا ہو۔ میرے سوا کون ہے جو کچھ کرنا چاہتا ہو مگر ہر بار ایک نادیدہ قوت کا دُرہ میرے سر پر پڑتا ہو۔

دوستو میرا دل کٹا ہوا ہے، میرا غم سوا ہے اور میرے نالے فلک تک نہیں جاتے، کتنے خوش ہیں وہ لوگ جو میرے غموں کو دیکھنا چاہتے ہیں، کتنے زیادہ ہیں وہ لوگ جن کی خواہش ہے کہ مَیں جلد بوڑھا ہو جائوں اور وہ مجھے مرتا ہوا دیکھیں۔ آئیں اور دیکھیں کہ مَیں کتنا غم میں مبتلا ہوں، کتنا زیادہ بجھا ہوا ہوں۔ اِس عالم میں کہ جب میرے انگاروں پر اچانک پانی گرا دیا جاتا ہے مَیں کتنی دقت سے ایک نئی آگے جلاتا ہوں۔ کیا وہ لوگ میری مصیبت کو سوچ سکیں گے؟

اے میرے دوست صادق کوئی بات نہیں، فلکِ بدبخت کو مَیں ابھی جیتنے نہیں دوں گا۔ تُو میری داستانوں میں زندہ رہے گا اور ہمیں مارنے والے خود مریں گے۔

Check Also

Ye Middle Class Muhabbat Karne Wale

By Azhar Hussain Azmi